آصف جاوید
“ہماری پالیسی انڈیا کے لئے ہمیشہ غلط رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں انڈیا سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ انڈیا سے ہم نے چار جنگیں لڑی ہیں ، سب ہم نے شروع کی ہیں۔ انہوں نے ہم سے کوئی جنگ نہیں کی۔ 1947 میں جب پاکستان بنا، فرنٹئیر میں خان عبدالقیوم خان کی حکومت تھی۔ اس ہی کے مشورے پر (غیر الحاق شدہ کشمیر) میں قبائلیوں کے لشکر بھیجنے شروع کئے گئے۔ (تین ہفتے گذرجانے کے باوجود) مہاراجہ کشمیر نے انڈیا کے ساتھ الحاق کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا، جبکہ انڈیا کی باقی تمام آزاد ریاستوں نے الحاق کا فیصلہ کرلیا تھا۔ لیکن مہاراجہ کشمیر نے نہیں کیا تھا۔ وہ میری معلومات کے مطابق پاکستان کے آئینی حکمرانوں سے رابطہ کررہا تھا، معاملات طے کرنے کے لئے، مگر پاکستان کے وزیرِ اعظم نے اس کو ملاقات کا وقت ہی نہیں دیا۔ وہ ملنا چاہتا تھا، اور تین ہفتے تک وہ انڈیپینڈینٹ رہا، مگر انہوں نے (پاکستانیوں نے) وہاں لشکر بھیجنے شروع کردئے، فوج بھیجنا شروع کردی، فوجی جو چھٹّیوں پر تھے، ان کو بھیجنا شروع کردیا۔ اور کشمیر میں حملہ شروع کردیا۔ حملہ آور جب سری نگر پہنچے تو جو قبائلی تھے، انہوں نے لوٹ مار شروع کردی اور لوٹ مار کا سامان ٹرکوں میں بھر کر واپس آنا شروع ہوگئے، اور جو تھوڑی بہت فوج وہاں موجود تھی ، اسکو دیکھ کر جواب میں انڈیا نے بھی اپنی فوج بھیج دی۔ اور اس نے (مہاراجہ نے) ہندوستان سے الحاق کی دعوت قبول کرلی۔ یوں مہاراجا کشمیر نے انڈیا سے الحاق کرلیا۔
جو 1965 کی جنگ تھی تو اس کا احوال یہ ہے کہ میں 15 اگست تک ائر فورس کا کمانڈر انچیف تھا ، اور مجھے کوئی علم نہیں تھا کہ پاکستانی فوج کا کوئی پلان ہے، انڈیا کے مقبوضہ کشمیر پر حملہ کرنے کا۔ مجھے بالکل بھی پتا نہیں تھا۔ میں نے ریٹائرڈ ہونے کے چند دنوں کے بعد اخبار میں پڑھا کہ ہمارے ٹینک بھیجے گئے ہیں، اکھنور کی طرف، اکھنور انڈیا کا علاقہ تھا، انڈیا کے قبضے میں تھا، میں حیران ہوا کہ یہ کیا ہوا اور میرا خدشہ تھا کہ انڈیا تو جوابی کارروائی کرے گا، میں نے جنرل ایّوب خان سے جو افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف تھے ، ملاقات کا وقت مانگا ، اور مجھے 3 ستمبر کو ملاقات کا وقت دیا گیا۔ جب میں نے ان سے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ کیا آپ نے انڈیا سے جنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو انہوں نے مجھ سے پلٹ کر پوچھا کہ تمہیں کس نے بتایا؟
تو میں نے ان کو کہا کہ مجھے کسی نے نہیں بتایا ، مگر آپ نے اکھنور ٹینک بھیجے ہیں، انڈیا کے زیر کنٹرول علاقوں میں ٹینک بھیجے ہیں، تو وہ جوابی کارروائی کریں گے، اور جوابی کارروائی کریں گے پنجاب میں ، اور پنجاب میں اس وقت فوجیوں کو چھٹّی پر بھیجا ہوا تھا، تاکہ ہندوستان کو یہ تاثّر نہ ملے کہ پاکستان کسی قسم کی جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ پاکستانی منصوبہ سازوں کو پورا یقین تھا کہ انڈیا جوابی کارروائی میں باقاعدہ جنگ نہیں کرے گا۔ جبکہ مجھے پورا یقین تھا کہ انڈیا ردِّ عمل کے طور پر جوابی کارروائی کرے گا۔ جب میں نے اپنے خدشے کا اظہار ایّوب خان سے کیا تو انہوں نے فورا” کہا کہ نہیں ، نہیں، نہیں، مجھے فارن آفس (ذوالفقار علی بھٹّو ) نے کہا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ تو میں (غیر یقینی کی حالت میں) حیران ہوگیا۔ اور 6 ستمبر کو انڈیا نے لاہور پر حملہ کردیا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ ہم نے شروع کی تھی۔ ہم نے ہر جگہ جنگ شروع کی، 1971 کی جنگ بھی ہم نے ہی شروع کی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
قارئین اکرام یہ اقتباس ہے پاکستان کی فضائیہ کے سابق سربراہ اور پاکستان کے ایک با اصول سیاستدان جناب ائر مارشل اصغر خان کے اس ٹی وی انٹرویو کا جو مجھ جیسے سماجی و سیاسی علوم اور تاریخ کے طالب علم اپنی وڈیو لائبریری میں اس لئے محفوظ رکھتے ہیں کہ جب بھی انہیں تاریخ پاکستان کے حوالے سے کسی معتبر حوالے کی ضرورت پڑے تو ایک ناقابلِ تردید ثبوت کے طور پر نذرِ قارئین کردیا جائے۔ قارئین اکرام محترم اصغر خان صاحب کا یہ انٹرویو بہت طویل ہے۔
اگر آپ تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اصغر خان کی زبانی پاکستان کی معتبر تاریخ سے آگاہی حاصل کرنا چا ہتے ہیں، تو آپ کی آسانی کے لئے اصغر خان صاحب کا یہ انٹرویو، سوشل ویب سائیٹ یوٹیوب پر بہ آسانی دستیاب ہے، اس انٹرویو میں 1965 کے بعد ہونے والی جنگوں کے بارے میں اصغر خان صاحب نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ چونکہ ہمارا یہ کالم اصغر خان کے طویل انٹرویو کے مکمّل متن کا متحمل نہیں ہوسکتا، لہذا ہم یہیں پر انٹرویو کو ساقِط کرتے ہوئے جنگِ ستمبر کے حوالے سے اپنی بات آگے بڑھاتے ہیں۔
جنگ ستمبر کے بارے میں قوم کو جو معلومات دی گئی ہیں۔ ان میں سے اکثر معلومات تاریخی حوالوں سے درست نہیں ہیں، بہت زیادہ غلط بیانیاں اور شجاعت کی جھوٹی داستانیں گھڑی گئی ہیں۔ جنگِ ستمبر میں حملہ آور ہم تھے، انڈیا نہیں تھا، جارحیت ہم نے کی تھی، انڈیا نے نہیں کی تھی۔ کشمیر میں ہونے والے خفیہ آپریشن کا کوڈ ورڈ آپریشن جبرالٹر تھا، جس کے خالق ، جنرل اختر حسین ملک تھے۔ جو بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے ۔ ” اکھنور ” شہر ( انڈیا کی اہم ترین فوجی گیریژن ) پر قبضہ صرف دو تین گھنٹے کی کارروائی رِہ گئی تھی۔
مگر انڈیا نے اکھنور میں جوابی کارروائی کی بجائے لاہور پر حملہ کرکے اور ا پنی پسند کا محاذ کھول کر پاکستان کے پالیسی سازوں، اور جنگی حکمتِ عملی کے ماہرین کو نہ صرف حیران و ششدر کردیا تھا، بلکہ پاکستان کو شرمناک شکست اور اقوامِ عالم میں بے توقیر کرکے رکھ دیا تھا۔ اس ہی لئے آج 51 سال گذرنے کے باوجود پاکستان میں 6 ستمبر یومِ فتح کی بجائے یومِ دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے۔
چھ 6 ستمبر کے دن پوری قوم کو ریاستی میڈیا پر شجاعت اور بہادری کی جھوٹی داستانیں سنائی جاتی ہیں۔ نشان حیدر پانے والوں کی شجاعت کی داستانوں میں کتنا فِکشن ہے؟ یہ ایک ادب کا عام قاری بھی سمجھ سکتا ہے۔ مگر میڈیا نے 51 سالوں میں اس قدر جھوٹ بولا ہے کہ اب جھوٹ ہی سچ لگتا ہے۔
آزاد ذرائع کے مطابق 6ستمبر 1965 کو شروع ہونے والی جنگ 17 روز جاری رہی تھی ۔ جنگ میں پاکستان کے 3800 جوان شہید ہوئے تھے ۔ 300 ٹینک اور 20 جنگی جہاز تباہ ہوئے تھے ، 1840 مربّع کلومیٹر کا علاقہ بھارت کے قبضے میں چلا گیا تھا ۔ معاہدہ تاشقند کی وجہ سے جنگ بندی ممکن ہوسکی تھی اور انڈیا کے زیرِ قبضہ علاقے واپس مل سکے تھے ۔
ممتاز مفتی اور قدرت اللہّ شہاب اور اردو ڈائجسٹ کے ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، الطاف حسن قریشی ، آباد شاہ پوری،ضیاشاہد،محسن فارانی اور اختر عباس جیسے ادیب و دانشورآگے آنے والے دنوں میں جنگِ ستمبر سے متعلّق شجاعت کی جھوٹی سچّی داستانیں چھاپ کر قوم کو لمبے عرصے تک مصنوعی نرگسیت میں مبتلا رکھے ہوئے تھے۔
ریڈیو پاکستان اور اردو اخبارات پاکستان کا واحد میڈیا تھا۔ جو جنگِ ستمبر میں قوم کو جوش و خروش دلاتے رہے تھے ، پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ملّی وقومی نغمے اور جنگی ترانے ان ہی دنوں ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتے رہے۔ جنگ ستمبر میں منظر سازوں نے تو اتنا جھوٹ باندھ تھا، کہ بلیک آوٹ کے دنوں میں سادہ لوح پاکستانیوں کے لئے ریڈیو پاکستان سے خبریں نشر کی جاتی تھیں کہ سبز چغے اور سبز عمامے پہنے اللہّ کے فرشتوں کی فوج میدان جنگ میں ہمارے سپاہیوں کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہے۔ اور انڈین جہازوں سے پھینکے ہوئے بم اپنی جھولی میں ڈال لیتی ہے، اور توپوں کے گولے کرکٹ کی گیند کی طرح ہوا میں ہی دبوچ لیتی ہے۔
اللہّ کی مدد سے بھیجے گئے فرشتوں کی فوج کے رضا کار سفید کفن پہن کر بم باندھ کر انڈین فوج کے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر ان کو تباہ کردیتے ہیں ، میدان ہمارے ہاتھ ہے، اللہّ کی نصرت ساتھ ہے۔ پاکستانیوں پر اللہّ کا سایہ رحمت ہے، یہ ملکِ خداداد ہے، 27 رمضان المبارک کو وجود میں آیا تھا ، اسلئے نا قابلِ تسخیر ہے، سادہ دل قوم نرگسیت و غلط فہمی میں او ر مغرور حکمران گھمنڈ میں مبتلا رہے اور پھر بالآخر 16 دسمبر سنہ 1971 کو سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ بھی ظہور پذیر ہوگیا۔ ملک دولخت ہوگیا، مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔
قارئین اکرام یہی کھیل ابھی بھی جاری ہے۔ شمال مشرقی سرحدوں، قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخواہ کے کچھ حصّوں میں فوجی آپریشن ضربِ عضب جاری ہے۔ کراچی میں 1992 میں مہاجروں کی نمائندہ سیاسی جماعت کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تھا ، جو درمیان میں رک گیا تھا، مگر گزشتہ تین سالوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر اردو بولنے والے مہاجر وں کے ساتھ یہ آپریشن اب بالکل ویسے ہی جاری ہے، جیسا مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے ساتھ جاری تھا۔
ریاست نے اردو بولنے والے مہاجروں کو سیاسی عمل سے منقطع کرکے ریاستی جبر کے ساتھ دیوار سے لگا دیا ہے۔ بلوچوں کے ساتھ ریاستی دہشت گردی اور فوجی آپریشن کو پانچ سال سے زائد عرصہ گزر گیا، ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی اور بلوچستان میں جاری آپریشن کے نتیجے میں اب تک 50 ہزار سے زائد نوجوان لاپتہ، گمشدہ، ماورائے عدالت قتل اور مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
اگر قوم کو منظّم طور پر ریاستی پروپیگنڈے کے ذریعے گمراہ اور اپنے ہی شہریوں کے خلاف ریاستی آپریشن اور ظلم و تشدّد کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو حکمرانوں اور مقتدرہ کو نوید ہو کہ ڈھاکہ کا نتیجہ آ چکا ہے ، اگر ریاست کے لیل و نہار ایسے ہی رہے تو کراچی اور گوادر کا نتیجہ بھی بہت جلد آجائے گا۔ وما علینا الالبلاغ
4 Comments