اسی فیصد پاکستانی آلودہ پانی پینے پر مجبور

019238344_30300

اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ، پاکستان ،کی 80 فیصد عوام آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔جبکہ پاکستانی ریاست کی ترجیحات میں اسلحہ کے ڈھیر لگانا، جہادیوں کی پرورش کرنا اوراورنج یا میٹرو بسیں چلانا ہیں۔

پاکستان کے وفاقی وزیر رانا تنویر نے سینیٹ اجلاس میں بتایا ہے کہ ملک بھر کے 24 اضلاع اور 2807 دیہات سے اکٹھے کیے گئے 62 سے 82 فیصد پانی کے نمونوں سے پتا چلا ہے کہ پینے کا پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

وفاقی وزیر نے سینٹ میں سینٹر شیری رحمن کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پانی کے نمونوں کے ٹیسٹ ’پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘ کی سربراہی میں کیے گئے تھے۔ ان ٹیسٹوں کے نتائج سے پتا چلا ہے کہ پانی کے اکثر نمونے بیکٹیریا، آرسینک (سنکھیا)، نائٹریٹ اور دیگر خطرناک دھاتوں سے آلودہ تھے۔

رانا تنویر نے میڈیا کو بتایا کہ ملک بھر میں پانی کے معیار کو جانچنے کے لیے 24 لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں اور دیگر اقدامات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔

وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے سینیٹ کو بتایا کہ ملک کے کئی علاقوں میں پانی میں بیکٹریا کی مقدار 62 فیصد اور آرسینک (سنکھیا) کی مقدار 24 فیصد تک پائی گئی ہے۔

واضح رہے کہ بیکٹیریا سے آلودہ پانی ملک میں ہیپاٹائٹس، خسرے اور ہیضہ جیسی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ پانی میں آرسینک کی زیادہ مقدار ذیابیطس، سرطان، پیدائشی نقص، جلد، گردوں اور دل کی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔

ڈیلی ڈان کے مطابق ’پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘ کے پاس فنڈنگ کی کمی ہے اور اس کی کچھ لیبارٹریاں بند ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ نے رواں سال فروری میں ایک حکومتی رپورٹ شائع کی تھی، جس کے مطابق ملک میں تقریباً چوبیس ملین بچے اسکول نہیں جا پاتے۔

بین الاقوامی ادارہ برائے اطفال یونیسیف کی سن2015 کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ہر چودہ میں سے ایک پاکستانی بچہ اپنی پہلی سالگرہ منانے سے پہلے ہی وفات پا جاتا ہے اور ہر گیار ہواں بچہ اپنی زندگی کے پانچ برس مکمل کیے بغیر ہی موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔

ایچ آر سی پی کی 2014 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انیس فیصد افراد غذائی قلت کا شکار ہیں جب کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں یہ شرح تیس فیصد ہے۔ آئی ایل او کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں چائلڈ لیبر و جبری مشقت کے شکار بچوں کی تعداد2014میں 168ملین تھی۔

ناقدین کے مطابق سماجی شعبے کی اس بدحالی کے باوجود حکومت آج بھی اس پر نظر کرم کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستانی عوام کے وسائل کی بڑی تعدادجہاد کے نام پر ضائع ہو جاتی ہے اگر کچھ بچتا ہے تو حکومت اورنج اور میٹرو پر لگادیتی ہے۔

نواز لیگ کی حکومت وفاقی اور صوبائی سطح پر سڑکوں اور انڈرپاسز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ میٹرو اور اورنج لائن پر کئی سو ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔ناقدین کا خیال ہے کہ ملک کا سماجی شعبہ نواز لیگ کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتا۔

تعلیم ، صحت اور بنیادی ضروریات حکومتی ترجیحات میں نہیں

 

Comments are closed.