آصف جاوید
مورخہ 30 اگست 2016 کو انٹرنیشنل مسِنگ پرسنز ڈے کے موقعہ پر لکھے جانے والے میرے کالم “گمشدہ افراد کا عالمی دن اور پاکستان میں سولِ سوسائٹی کی پراسرار خاموشی” کے شائع ہونے کے بعد قارئین کی طرف سے جو فیڈ بیک سامنے آیا ، اُس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہےکہ، میرے اکثر قارئین ، سول سوسائٹی کے کرداراور اہمیت سے شاید مناسب طور پر آگاہ نہیں ہیں۔
اس ضمن میں بطور کالم نگار اپنی سماجی ذمّہ داری کو محسوس کرتے ہوئے میں نے مناسب سمجھا کہ مجھے سول سوسائٹی کے کردار، اہمیت اورفعالیت پر روشنی ضرور ڈالنا چاہئے۔ کیونکہ میں سماجی و سیاسی مسائل پر کالم نگاری کرتا ہوں اور میری اکثر گذارشات میں لفظ “سوِل سوسائٹی” متعدّد بار استعمال ہوتا ہے، لہذا مجھے اپنے قارئین کی آسانی اور رہنمائی کے لئے اس موضوع پر قلم اٹھانے کی شدید ضرورت ہےتاکہ آئندہ قارئین کو میرے نقطہ نظر کو سمجھنے میں آسانی رہے اور ابہام کی کوئی گنجائش نہ رہے۔
سرکاری اور نجی ادارے (پبلک اینڈ پرائیویٹ سیکٹر) کسی بھی معاشرے میں ستون کی حیثیت رکھتے ہیں ، سول سوسائٹی بھی معاشرے کا ستون ہے۔ پبلک اینڈ پرائیویٹ سیکٹر کی بعد سوِل سوسائٹی معاشرے کا تیسرا اہم ستون کہلاتی ہے۔ سوِل سوسائٹی کی بنیاد عام شہری ہوتے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں ، ہر مہذّب معاشرے میں سول سوسائٹی کا باقاعدہ وجود اور کردار ہوتا ہے۔
سول سوسائٹی معاشرے کا وہ باشعور طبقہ ہے جو سرکاری، ریاستی، سیاسی اور مذہبی وابستگیوں سے بالا تر اور غیر جانبدار ہوکر سماجی معاملات پر اپنی رائے دیتا ہے۔ سول سوسائٹی میں معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی ہوتی ہے۔ دانشور، ادیب، شاعر، فنکار، کھلاڑی، انجینئرز، ڈاکٹرز، وکلاء، ماہرینِ تعلیم، امدادی کارکنان ، کمیونٹی ورکرز غرض ہر شعبہ زندگی سے تعلّق رکھنے والے وہ افراد جو باشعور اور باضمیر ہونے کے ساتھ ساتھ آزادی ِفکر، آزادیِ اظہار اور انسانی حقوق کے علمبردار ہوتے ہیں مصلِحتوں کی پرواہ کئے بغیر معاشرتی مسائل کو نہ صرف اجاگر کرتے ہیں، بلکہ ان مسائل پر اپنی آواز بھی بلند کرتے رہتے ہیں، اور یوں اپنی سماجی اور اخلاقی ذمّہ داریوں سے عملی طور پر عہدہ برآ ہوتے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سول سوسائٹی ایسے باشعور افراد ، گروپس، اور آرگنائزیشنز پر مشتمل ہوتی ہے جو ، سرکاری، ریاستی، سیاسی ، مذہبی وابستگیوں سے بالا تر ہوکر معاشرے کے مجموعی مفاد ات کے تحفّظ کے لئے کام کرتی ہے۔
سول سوسائٹی کا کام منفعت کمانا نہیں ہوتا، بلکہ سماجی ذمّہ داریوں سے عہدہ برآہونا ہوتا ہے۔ معاشرے کے باشعور افراد کے علاوہ لیبر یونینز، این جی اوز، نان پروفٹ آرگنائزیشنز سب ہی سول سوسائٹی کا حصّہ ہوتی ہیں۔جو معاشرے کے مشترکہ مفادات کے تحفّظ کے لئے کام کرتی ہیں۔
سِول سوسائٹی، مذہب، عقیدہ، فرقہ، رنگ، نسل، لسّانیت اور تعصّب سے بالاتر ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ یہ صرف معاشرے کے اونچے طبقے کے لوگوں کی تنظیمیں ہیں، جن کا متوسِّط اورنچلے طبقے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا بالکل بھی نہیں، ہاں، روشن خیال لوگ جنہیں عرفِ عام میں لبرلز کہا جاتا ہے، پاکستان کی سوِل سوسائٹی میں زیادہ متحرّک ہیں۔ مگر یہ محض ایک اتّفاق ہے، ہر جگہ اور ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔
سول سوسائٹی ، سیاسی جماعتوں سے بالکل مختلف قسم کا انسٹیٹیوشن ہے، سیاسی جماعتیں ایک جمہوری عمل کے ذریعے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر پارلیمنٹ اور اقتدار میں آتی ہیں ، اور اقتدار کی طاقت و حکومتی وسائل کے ذریعے عوام کے مسائل حل کرتی ہیں، جبکہ سول سوسائٹی کسی جمہوری عمل سے منتخب نہیں ہوتی، سول سوسائٹی کے پاس صرف شعور و ادراک اور احساسِ ذمّہ داری ہوتا ہے۔
سول سوسائٹی کا کام صرف آواز بلند کرنا ہوتا ہے، شعور اجاگر کرنا ہوتا ہے، مسائل پر توجّہ دلانا ہوتی ہے، مسائل کا حل تجویز کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ مسائل کے حل کے لئے اقدامات کرنا حکومت کا کام ہوتا ہے۔کیونکہ حکومت کے پاس وسائل، ذرائع اور قانونی اختیار ہوتا ہے۔
دنیا بھر کے ترقی یافتہ معاشروں میں سول سوسائٹی، پارلیمنٹ سے باہر طاقتور اور موثّر غیر سیاسی، عوامی پلیٹ فارم سمجھی جاتی ہے۔ ہر زندہ جمہوری معاشرے میں سولِ سوسائٹی باقاعدہ قوّت کے طور پر متحرک نظر آتی ہے، جو ہر غیر قانونی، غیر اخلاقی اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی اقدام کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔
اور اب مواصلاتی رابطے انٹیگریٹ ہونے کے بعد دنیا چونکہ ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوگئی ہے لہذا گلوبلائزیشن کے بعد دنیا بھر کے ممالک میں موجود سول سوسائٹیز ، عالمی نیٹ ورک میں بندھ کر ظلم و ناانصافی کے خلاف، عالمی امن و امان کے قیام اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی، اور قانون کی بالادستی، کے لیے مربوط اور موثّر انداز میں اپنی آواز اٹھاتی ہیں۔
پاکستان میں سول سوسائٹی بہت زیادہ منظّم تو نہیں ، مگر کسی حد تک فعال ضرور ہے۔ مگر گزشتہ تین سالوں میں ریاستی جبر و تشدّد ، جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور مسخ شدہ لاشوں ، مذہبی و ریاستی دہشت گردی اور ریاست کی سرپرستی میں “تزویراتی اثاثوں ” کے نام پر مذہبی انتہا پسندوں، جہادی گروپوں اور طالبان کی سرگرمیوں کے موضوعات پر سول سوسائٹی کی خاموشی و چشم پوشی نے پاکستان کی سول سوسائٹی کے کردار، فعالیت اور جانبداری پر بھی کئی سوال کھڑے کر دئے ہیں۔
اور یہ بے حِس رویّہ بہت ہی حیران کُن ہے۔یہ قومی اخلاقی جرم ہے، جسے تاریخ کبھی بھی معاف نہیں کرسکے گی۔ پاکستان میں سوِل سوسائٹی کو اس الزام سے بری ہونے کے لئے فعال اور متحرّک اور غیر جانبدار ہونا ہوگا۔
مگر ٹھہر جائیے، یہ سکّے کا صرف ایک رخ ہے۔
سکّے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں، جنون، وحشت اور بربریت کا دور ،دورہ ہے۔ سوال اٹھا نا ، منطقی بات کرنا، دلیل اور گفتگو کا کا راستہ اختیار کرنا، اور ریاستی بیانیے کے خلاف بات کرنے کا مطلب موت کو دعوت دینا ہے۔ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں پلنے والے “تزویراتی اثاثے” نامعلوم مسلّح افراد کے رُوپ میں سول سوسائٹی کی طرف سے احتجاج کرنے والوں اور مسائل اٹھانے والے عمل پرستوں کو بڑی سنگدلی اور بے رحمی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ خرّم ذکی اور سبین محمود اور پروین رحمان کی سفّاکانہ موت اس امر کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔
پاکستان میں سوِل سوسائٹی کے لوگ حق بات کرنا تو چاہتے ہیں۔ مگر جان کے خوف سے خاموش ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ جان ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے۔ ہمارے نبی حضرت محمّد صلعم کو بھی جان بہت پیاری تھی، حق کا پرچار تو ہمارے نبی بھی بھی کرتے تھے، مگر جان بچانے کے لئے ، ان کو بھی مکّہ سے مدینہ ہجرت کرنا پڑی تھی۔
اس مرحلے پر اہلِ دانش سے میرا یہ سوال ہے کہ پاکستان کی سار ی کی ساری سوِ ل سوسائٹی حق بات کرنے کے لئے اپنے نبی کی طرح ہجرت کرکے کس محفوظ مقام پر جائے،جہاں سوِ ل سوسائٹی کے عمل پرستوں کی جان محفوظ ہو؟
وما علینا الالبلاغ
2 Comments