کشمیر پر سفارتی ہنگامہ

بھارتی پریس سے : محمد اظہر
kashmir-insurgency-639x357

ہندوستان نے پاکستان پر بلوچستان صوبہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک طرح سے سفارتی ہنگامہ برپا کردیا ہے ۔ یہ الزام ‘ پاکستان کے اس الزام کا جواب تھا کہ ہندوستانی سکیورٹی فورسز کی جانب سے وادی کشمیر میں اسی طرح کی زیادتیاں کی جا رہی ہیں۔ اس الزام کے ذریعہ ہندوستان نے پاکستان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے ۔

چونکہ یہ الزام راست وزیر اعظم نریندر مودی نے 15 اگسٹ کو اپنے یوم آزادی خطاب میں عائد کیا تھا اس لئے پاکستان اس کو سرکاری الزام سمجھتے ہوئے برہمی ظاہر کر رہا ہے ۔ مودی کے اس بیان سے دونوں ملکوں کے مابین پہلے ہی سے چل رہی سفارتی جنگ اور بھی شدت اختیار کر گئی ہے ۔ پاکستان نے ہمیشہ ہی کشمیری گروپس کی سیاسی اور اخلاقی مدد کی ہے جو ہندوستان سے علیحدگی اختیار کرناچاہتے ہیں۔ ہندوستان کا کہنا ہے کہ کشمیری گروپس کو پاکستان فوجی مدد بھی فراہم کرتا ہے ۔ اسی کے جواب میں ہندوستان نے بلوچستان کا مسئلہ چھیڑ دیا ہے ۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ مودی نے جو حوالہ دیا ہے اس سے یہ توثیق ہوجاتی ہے کہ ہندوستان بلوچ برادری کی بغاوت کو ہوا دے رہا ہے ۔ یہ صوبہ 1947 میں تقسیم ہند اور پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی پسماندگی کا شکار ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو کچل کر رکھا جاتا ہے ۔ پاکستان کا جو جوابی الزام ہے وہ بھی ہندوستان کے حساس مقامات کی نشاندہی کرتا ہے جیسے ملک کا شمال مشرقی علاقہ ۔

ہندوستان نے پاکستان کے تعلق سے جو جارحانہ تیور فی الحال اختیار کئے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس سے صورتحال بدلتی ہے ۔ اگر بدلتی بھی ہے تو کس کے حق میں بدلتی ہے ۔ تجزیہ نگاروں کی رائے اس پر منقسم ہے ۔ کچھ کا ماننا ہے کہ اس سے کشمیر میں پاکستان کا رول منطقی موقف اختیار کر جائیگا ۔ مودی کے پیشرو منموہن سنگھ نے 2009 میں ہندوستان ۔ پاکستان کے ایک مشترکہ بیان میں پاکستان کے الزام کا نوٹ لیا تھا ۔

یہ صورتحال اس وقت متنازعہ ہوگئی تھی اور اس سے پڑوسی ملک کے ساتھ مصالحت کی کوششوں پر اس کا اثر بھی ہوا تھا ۔ ہندوستان نے بلوچستان میں کسی بھی رول کی تردید کی تھی ۔ پاکستان تاہم مسلسل اس الزام کو دہراتا رہا ۔ اس نے تین نوٹ ہندوستان کے حوالے کئے اور الزام عائد کیا کہ بلوچستان میں ‘ کراچی میں اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حالات کو بگاڑنے میں ہندوستان کا رول ہے ۔ کراچی پہلے ہی نسلی تصادم کے واقعات سے متاثر رہتا ہے ۔

گذشتہ سال اگست میں وزیراعظم پاکستان کے قومی سلامتی مشیر سرتاج عزیز کا دورہ ہند سفارتی تکرار کے مابین ناکام رہا تھا ۔ انہوں نے اس وقت تین فائیلیں دکھائی تھیں اور کہا تھا کہ یہ ثبوت واشنگٹن کو روانہ کئے جائیں گے ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے تاہم ان کا کوئی نوٹس نہیں لیا تھا ۔

فی الحال بلوچستان پر ہندوستان کے موقف سے نواز شریف کو اپنے ملک میں فوج اور اپوزیشن جماعتوں کی مکمل تائید مل رہی ہے ۔ تین بلوچ شہریوں کو جنہوں نے مودی کا شکریہ ادا کیا تھا گرفتار کرلیا گیا ہے اور ان پر غداری کا مقدمہ درج کردیا گیا ہے۔ کئی پاکستانی اور کشمیری گروپس جو پاکستان کے مخالف ہیں وہ اب خوش ہیں۔ جو بنگلہ دیشی پاکستان پر تنقیدیں کرتے رہے ہیں وہ بھی اس طرح کی کارروائی کی حمایت میں زبان کھولنے لگے ہیں۔ پاکستان کے موقف کو افغانستان سے بھی تائید مل رہی ہے جسے طالبان کے بلوچستان سے کام کرنے کوئٹہ شوریٰ سے ہمیشہ خطرہ درپیش رہتا ہے ۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ بلوچیوں کو ہندوستان کی اخلاقی حمایت کشمیر کا جواب ہے۔

مغربی ممالک کا جہاں تک سوال ہے وہ حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ممالک پہلے ہندوستان کے ناقد رہے ہیں۔ اب وہ ہندوستان کے ساتھ قریبی سیاسی اور معاشی تعلقات قائم کرچکے ہیں۔ انہیں ہندوستان کی شکل میں ایک بڑی مارکیٹ مل گئی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں وہ پاکستان کے الزامات کو نظر انداز کرتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر 9/11 کے بعد کے دور میں ان کی خاموشی بڑھ گئی ہے ۔ انہیں مشرق وسطی میں مسائل کا سامنا ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ مغربی ممالک کیلئے کشمیر اور بلوچستان جیسے مسائل میں اب کوئی دلچسپی یا کشش باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ ہندوستان کیلئے یہ اطمینان بخش صورتحال 9 جولائی تک رہی جب حزب المجاہدین کے برہان وانی کو انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا گیا ۔ وہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ مقبول تھا اور اسی وجہ سے اسے مقبولیت ملی تھی ۔ اس کی موت کے بعد بھی اسے ہمدردی حاصل رہی ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے اس پر تشویش کا اظہار کیا تھا ۔ ملک کی سپریم کورٹ نے بھی انسانی جذبہ کے تحت کام کرنے کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ احتجاجیوں کے تشدد سے نمٹنے اور سکیوریٹی فورسز کی کارروائیوں میں توازن ہونا چاہئے ۔

وادی کشمیر میں تقریبا دو ماہ سے کرفیو کا سلسلہ جاری ہے ۔ یہاں 75 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ کئی افراد پیلٹ گنز کی وجہ سے زخمی ہیں۔ یہ صورتحال مودی حکومت کیلئے ایک مشکل چیلنج پیش کرتی ہے ۔ کشمیری نوجوان ایسا لگتا ہے کہ حکام کے خوف سے آزاد ہوچکے ہیں۔ جس طرح سے وہ پولیس دستوں کا تعاقب کر رہے ہیں اور وہ صرف سنگباری نہیں کر رہے ہیں۔ مودی نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ یہ نوجوان مہلک ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور حزب المجاہدین پر اس احتجاج کی حوصلہ افزائی کا الزام عائد کیا تھا ۔

چیف منسٹر محبوبہ مفتی کا بھی کہنا ہے کہ علیحدگی پسندوں نے یہ منصوبہ بندی کی ہے اور اس کیلئے بھاری رقومات حاصل کی گئی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں کچھ گوشوں کا تاثر ہے کہ ہندوستان ‘ پاکستان عنصر کو نظر انداز نہیں کرسکتا لیکن صورتحال کیلئے صرف پاکستان کو بھی ذمہ دار نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ پاکستان کشمیر کی آزادی کیلئے تائید 1947 سے کرتا رہا ہے ۔ ہندوستان کا کہنا ہے کہ حزب المجاہدین اور علیحدگی پسندوں کو سرحد پار سے مدد ملتی ہے ۔ اس بحران کی یقینی طور پر پاکستان کے ساتھ کشمیر تنازعہ میں سیاسی اور فوجی جڑیں ہیں۔

ایسے میں یہ ضروری لیکن مشکل ہے کہ بین الاقوامی کو ڈومیسٹک سے علیحدہ کیا جائے اور یہ طے کیا جائے کہ اپنی ہی ریاست میں کیا کچھ کیا جانا چاہئے ۔ مودی کا کہنا ہے کہ احتجاجیوں کے ہاتھوں ہمارے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں جس پرا نہیں افسوس ہے ۔ جن ہاتھوں میں لیپ ٹاپ ہونے چاہئیں وہ سنگباری کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ کو حل کرنے واجپائی کے طریقہ کار ’’انسانیت ‘ کشمیریت اور جمہوریت ‘‘ ہی واحد راستہ رہ گیا ہے ۔

گذشتہ تین مرتبہ کے انتخابات کے دوران ریاستی مقننہ کو اہمیت حاصل ہوئی ہے ۔ زیادہ تعداد میں لوگ ووٹ ڈال رہے ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ یہاں حکومتیں بدلی ہیں۔ گذشتہ انتخابات کو بھی عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے ۔ اس میں بی جے پی ایک طاقتور جماعت بن کر ابھری ہے ۔

اس سے علیحدگی پسند اور سرحد پار سے انہیں نچانے والے مایوس ہوئے ہیں۔ نریندر مودی اور محبوبہ مفتی کیلئے چیلنج یہ ہے کہ وہ حکومت کو موثر اور کارکرد بنائیں ۔ کارکردگی بھی ایسی ہونی چاہئے جو عوام پر اثر انداز ہوسکے ۔ کشمیریت تاہم اس مسئلہ کا سب سے پیچیدہ عنصر ہے ۔ بی جے پی اور اس کی پہلی شکل بھارتیہ جن سنگھ نے تاریخی اعتبار سے جموں و کشمیر کو دفعہ 370 کے تحت خصوصی موقف دئے جانے کی مخالفت کی ہے ۔ اس وقت سے حالات میں نرمی آئی ہے ۔

یہ موقف در اصل ان حالات کی وجہ سے دیا گیا تھا جن کے تحت کشمیر کا ہندوستان سے الحاق ہوا ۔ اس بوجھ کے باوجود چونکہ بی جے پی کو پارلیمانی اکثریت حاصل ہے اس لئے اسے وسیع منظر نامہ کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ حقیقت میں کشمیریت کو ایسی خود اختیاری میں بدلنا ہوگا جس کے تحت وادی کی مسلم اکثریت ‘ جموں کی ہندو اکثریت اور لداخ کی بدھ اکثریت کا احاطہ کیا جاسکے ۔

جو کشمیری پنڈت 1990 کے بعد سے یہاں سے چلے گئے تھے ان کی باز آبادکاری ضروری ہے ۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ہندوستان کے پاس ایک دیرپا حل کیلئے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے ۔ مودی بیشتر فریقین کو ساتھ ملا سکتے ہیں اور علیحدگی پسندوں کو یکا وتنہا کرسکتے ہیں۔ مودی کو تنگ نظری سے اوپر آنے کی ضرورت ہے ۔ اگر یہ کارنامہ انجام دیا جاتا ہے تو وادی میں پاکستانی عنصر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جائیگا ۔

یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن کیا جاسکتا ہے اور شائد یہی ایک حل حالات کو بہتر بنانے کا ہے ۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی کسی دن سنگباری کرنے والے کشمیری نوجوانوں کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ تھمانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

روزنامہ سیاست، حیدرآباد، انڈیا

Comments are closed.