ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی کو بہت ہی طاقتور اور بااثر سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ شخص بااثر اور طاقتور ہوتا ہے جو اپنی جان جوکھم میں ڈالکر ملک کی حفاظت و سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔ ہم آپ کی ملاقات ہندوستان کی ایک ایسی شخصیت سے کروا رہے ہیں ان کے بارے میں ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں بہت کچھ لکھا گیا لیکن زندگی ایک راز ہے انہیں ملک میں نریندر مودی کے بعد دوسری طاقتور ترین شخصیت سمجھا جاتا ہے اور یہ شخصیت ہیں ہندوستان کے مشیر قومی سلامتی مسٹر اجیت ڈوول ۔
ان کے بارے میں بلومرگ کے حوالہ سے اکنامک ٹائمز نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں انکشاف کیاگیا کہ مسٹر اجیت ڈوول کافی ہمت والے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے کٹر حریف ملک پاکستان میں خفیہ طور پر کئی برس گذارے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں باغیوں کی مخبروں کی حیثیت سے بھرتی کی۔ ایک مرتبہ تو انہوں نے خود کو رکشہ والے کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے ایک انتہا پسند کو گولڈن ٹمپل میں دراندازی کرائی۔
مودی نے بڑی ہی ہشیاری سے مشیر قومی سلامتی کی حیثیت سے اجیت ڈوول کا انتخاب کیا۔ یہ ایسا عہدہ ہے جو وزیر دفاع و وزیر خارجہ سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان سے بات چیت کے لئے بھی اجیت ڈوول کو ایک طرح سے ذمہ دار گردانا گیا۔ اجیت ڈوول کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ہر روز معتمد خارجہ ایس جئے شنکر سے مختلف خارجی امور پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ڈوول اسلحہ ساز کمپنیوں کے دورے کرتے ہوئے ہتھیاروں کے حصول کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ انتہا پسندوں کے حملوں کا جواب دینے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اجیت ڈوول کے کیرئر کے انتہائی اہم حصہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امرتسر کی گولڈن ٹمپل میں روپوش سکھ علیحدگی پسندوں کو گھسیٹنا ان کے کیریئر کا یادگار حصہ رہا۔
کسی زمانے میں اجیت ڈوول کے ساتھ کام کرنے والے ریٹائرڈ فوجی عہدہ دار کے کرن کھرب کے مطابق اجیت ڈوول نے خود کو ایک رکشہ ڈرائیور ظاہر کرتے ہوئے گولڈن ٹمپل میں رسائی حاصل کی۔ وہ گولڈن ٹمپل میں موجود انتہا پسندوں کو یہ ترغیب دینے میں کامیاب رہے کہ وہ ایک پاکستانی کارندہ ہیں اور یہاں ایک علیحدہ آزاد ملک خالصتان کے قیام سے متعلق ان (انتہا پسندوں) کی مدد کے لئے پہنچے ہیں۔
کرن کھرب نے گولڈن ٹمپل میں آپریشن کے دوران نیشنل سیکوریٹی کمانڈ کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں۔ ہندوستانی کمانڈوز اس وقت چار برسوں میں دو مرتبہ گولڈن ٹمپل میں داخل ہونے میں کامیابی حاصل کی تھی جس میں 1984 میں گولڈن ٹمپل پر کی گئی یلغار بھی شامل ہے۔ اس حملہ میں کثیر تعددا میں ہندوستانی سپاہی اور سکھ یاتری مارے گئے تھے جس کے بعد ساری دنیا میں پھیلے ہوئے سکھوں نے شدید احتجاج کیا تھا اور وہی احتجاج اور برہمی کی لہر اس وقت کی وزیر اعظم مسٹر اندرا گاندھی کے قتل کا باعث بن گئی۔
سنہ1984میں پولیس نے اندازہ لگایا تھا کہ گولڈن ٹمپل میں 40 سے زیادہ لوگ نہیں ہیں لیکن اجیت ڈوول نے انکشاف کیا تھا کہ گولڈن ٹمپل میں 40 نہیں بلکہ 200 سے زائد انتہا پسند موجود ہیں۔ انہوں نے حکومت کو دھاوے کے منصوبہ سے دستبردار ہوکر برقی اور پانی کی سربراہی منقطع کرنے کی کامیاب ترغیب دی۔ یہ ترغیب اس وقت دی گئی جبکہ گرمی اپنے عروج پر تھی۔ ڈوول کی ترغیب کا نتیجہ یہ نکلا کہ 9 دنوں بعد انتہا پسندوں نے خود سپردگی اختیار کی۔
اجیت ڈوول کے بارے میں کسی بھی سرکاری ویب سائٹ پر کوئی پروفائل نہیں ہے، تاہم اگست 2015 ء میں انہوں نے بمبئی میں ایک لکچر دیا تھا جس میں بتایا گیا کہ وہ سال 1945 میں گڑھوال اتراکھنڈ میں پیدا ہوئے اور 1967 میں آگرہ یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں پولیس فورس میں شمولیت اختیار کرلی۔ اکنامک ٹائمز کے مطابق اجیت ڈوول مودی پر اچھا اثر رکھتے ہیں جس کے نتیجہ میں اپوزیشن قائدین نے متعدد مرتبہ تنقید کی ہے۔ اس کے علاوہ خود مودی انتظامیہ میں برہمی ناراضگی پائی گئی۔
ڈوول نے انٹلی جنس بیورو سے سبکدوشی کے بعد 2009 میں وویکا نند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن قائم کی۔ 1972 میں ان کا انٹلی جنس بیورو میں تبادلہ ہوا جہاں انہوں نے 30 سال نمایاں خدمات انجام دیں جن میں شمال مشرقی ریاستوں جموں و کشمیر اور برطانیہ شامل ہیں۔ ڈوول کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب سے انہوں نے مشیر قومی سلامتی کے اہم ترین عہدہ کا جائزہ حاصل کیا ہے۔ انہوں نے قوم پرست ایجنڈہ کو آگے بڑھایا اور دشمن ملکوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا۔
پولیس، انٹلی جنس بیورو اور فوج کے اکثر اعلیٰ عہدہ داروں کے مطابق وہ منظر عام پر آنے سے کتراتے رہے اور بہت کم ہی عام مقامات پر نظر آتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ہندوستان کی انٹلی جنس پالیسی کا ایک حصہ تھا وہ میڈیا سے بھی دور رہتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مشیر قومی سلامتی کے عہدہ کا جائزہ حاصل کرنے کے فوری بعد مودی نے انہیں اپنے خصوصی قاصد کی حیثیت سے افغانستان روانہ کیا جس کے بعد سے ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات میں غیر معمولی بہتری آئی اور ہند۔ افغان قربت کو لے کر پاکستانی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
اجیت ڈوول کو ہندوستان کا جیمز بانڈ کہاجاتا ہے ان کے بارے میں مشہور ہے کہ جو وہ دکھائی دیتے ہیں ویسے نہیں ہیں ۔ نومبر 2014 میں انہوں نے ایک لکچر میں انکشاف کیا کہ وہ پاکستان میں سات برسوں تک رہے اور اس کے لئے اپنے کانوں کی پلاسٹک سرجری کروائی کیونکہ ان کے کان چھدے ہوئے تھے جو دراصل ان کی ہندو جڑوں کی جانب ایک اشارہ تھا۔ اجیت ڈوول کو جاننے والے کہتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ سگریٹ نوشی کرتے ہیں اور انہیں نئی نئی چیزیں سیکھنے کا جنون ہے اور وہ مطالعہ کے بہت شوقین ہیں۔ دہلی کے قریب نوئیڈا میں واقع اپنے مکان میں انہوں نے ایک بہت بڑی لائبریری قائم کررکھی ہے۔
اجیت ڈوول کو جہاں ہندوستان کا جیمیز بانڈ کہا جاتا ہے وہیں بی جے پی قائدین سے لے کر میڈیا انہیں مودی کا 007 بھی کہتے ہیں۔ انگریزی میڈیا میں تو انہیں ہندوستان کا ایک خطرناک جاسوس کہتے ہوئے یہاں تک کہا گیا کہ جیمز بانڈ اور ہینری کیسنجر کو ملانے پر آپ کو اجیت ڈوول کی شکل میں ایک باہمت ہندوستانی جاسوس حاصل ہوگا جس نے پاکستان میں 7 برسوں تک مختلف بھیس اختیار کرکے بڑے آرام سے رہتے ہوئے پاکستانی ایجنسیوں کو بیوقوف بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔
اجیت ڈوول نے پاکستان میں گذارے گئے اپنے سات سال کے بارے میں ایک لکچر کے دوران بتایا کہ وہ پاکستان کے تاریخی شہر لاہور میں مقیم تھے۔ انہوں نے وہاں پیش آئے اپنے ایک واقعہ سے متعلق یوں بتایا ’’لاہور میں ایک بہت بڑے اولیاء کی مزار ہے جہاں پر بہت سارے لوگ آتے ہیں میں ایک مسلمان کی حیثیت سے رہتا تھا وہاں سے گذر ہوا، اس اولیا (درگاہ) کی مسجد سے واپسی پر ایک کونے پر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا، اس کے چہرہ پر لمبی سی داڑھی تھی اس نے مجھے غور سے دیکھا اور اپنے پاس بلایا اور پوچھا ’’تم ہندو ہو؟ میں نے کہا نہیں، اس نے دوبارہ کہا تم ہندو ہو مجھے پتہ ہے! تب اس نے کہا ’’میرے ساتھ آؤ’ میں اس کے ساتھ چلا گیا دو چار گلیوں کے بعد ایک چھوٹے سے کمرہ کے قریب جاکر وہ رک گیا اور مجھے کمرہ میں لے کر گیا اور کہا ’’دیکھو آپ کے کان چھیدے ہوئے ہیں‘‘ میں نے کہا ہاں یہ تو ہیں اس نے کہا ، پلاسٹک سرجری کروالو، جواب میں میں نے کہا کہ جب پیدا ہوا تھا اس وقت کان چھیدے گئے تھے، لیکن بعد میں میں نے اسلام قبول کیا۔ پھر اس شخص نے سوال کیا کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا؟ میں نے کہا کیوں؟ اس نے کہا ’’میں بھی ہندو ہوں، ان لوگوں نے میرے سارے خاندان کو مارڈالا، آپ لوگوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ اس شخص نے اندر سے کچھ بھگوانوں کی تصاویر نکالی اور بتایا کہ وہ ان کی پوجا کرتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اجے ڈوول نے کہا ’’میں نے اس شخص کی مدد کرنی چاہی لیکن مدد نہیں کرسکا‘‘۔
ڈوول کے بارے میں اب آہستہ آہستہ کئی انکشافات منظر عام پر آرہے ہیں وہ واحد پولیس عہدہ دار ہیں جنہیں کیرتی چکرا اعزاز سے نوازا گیا۔جو ہندوستان میں بہادری و شجاعت کا دوسرا بڑا اعزاز ہے۔ وہ 1980 کی دہائی سے ہندوستان کی ہر کارروائی میں کسی نہ کسی حیثیت سے شامل رہے ۔مثال کے طور پر 1980ء میں میزو نیشنل فرنٹ لال ڈینگا کی قیادت میں شورش پسندی کے ذریعہ ہندوستانیوں کو یرغمال بنائے ہوئے تھی۔ اس وقت اچانک لال ڈینگا کے 6 کمانڈروں نے اس سے دوری اختیار کی۔ اس کا سبب کوئی اور نہیں بلکہ اجیت ڈوول ہی تھے۔
جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے کہ اجیت ڈوول نے پاکستان میں 7 برس گذارے اس بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ انہوں نے لاہور میں خود کو ایک مسلمان ظاہر کرتے ہوئے 7 برس زندگی گذاری۔ امرتسر کے گولڈن ٹمپل میں آپریشن بلیو اسٹار کے دوران بھی اجیت ڈوول نے خود کو ایک پاکستانی جاسوس ظاہر کرتے ہوئے سکھ انتہا پسندوں کا اعتماد حاصل کیا اور پھر ان سکھ انتہا پسندوں کی تباہی و بربادی کا باعث بن گئے۔ 1999ء میں جب انڈین ایئرلائنز کی پرواز کو کٹھمنڈو سے اغوا کرکے قندھار لے جایا گیا اجیت ڈوول نے اغوا کنندگان سے گفت و شنید کی۔
کشمیر میں بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کئی انتہا پسندوں کو امن کی راہ پر گامزن کیا۔ کوکا پرے جیسے انتہا پسند کو انہوں نے انتہا پسندی سے ہٹا کر امن اور جمہوری عمل کی جانب لایا۔ اجیت ڈوول کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سری لنکا کے سابق صدر مہندرا راجا پکسے کی عام انتخابات میں شکست کو بھی یقینی بنایا ۔ ان کے مقابلہ میتھری پالا سری سینا کو کامیابی حاصل ہوئی۔ راجا پکسے کے بارے میں ہندوستانی حکومت کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ ہندوستان کے خلاف چین کا کارڈ کھیل رہے ہیں۔ ایسے میں ہندوستانی کی راہ میں ایک کانٹا بن گئے تھے۔ اس کانٹے کو راستے سے ہٹانے کا کام اجیت ڈوول نے ہی کیا۔
انہوں نے ہی اس وقت سری لنکا کے اپوزیشن قائدین کو راجا پکسے کا متحدہ مقابلہ کرنے کی کامیاب ترغیب دی اور کچھ قائدین کو انتخابات میں حصہ نہ لینے پر بھی راضی کیا جن میں سابق وزیر اعظم انیل وکرما سنگھے بھی شامل تھے۔ اجے ڈوول نے سری لنکا میں حکومت کی تبدیلی کے لئے ایسے ہی کام کیا جس طرح امریکہ کی خفیہ تنظیم سی آئی اے لاطینی امریکی ملکوں میں حکومتوں کی تبدیلی کے لئے کیا کرتی تھی۔
محمد ریاض احمد، روزنامہ سیاست، حیدرآباد ۔ انڈیا