آصف جاوید
مادرِ وطن، ریاست اور حکومت، یہ تمام الفاظ سیاسی و سماجی زندگی میں بکثرت مستعمل ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اکثر دوست اظہارِ خیال میں ان الفاظ کے معنی‘ و مفہوم کو خلط ملط کرجاتے ہیں، اہلِ علم و دانش بھی اکثر انکے معنی” و مطالب کو گڈ مڈ ہونے کے باعث سمجھ نہیں پاتے، جب تک کہ سیاق و سباق واضح نہ ہو۔ ان حالات میں عام قاری اگر مادرِ وطن ، ریاست اور حکومت کے واضح فرق کو جانے بغیر اپنے ردّ عمل پر آمادہ ہوجائے تو بحث پہلے تکرار اور بعد میں فساد کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
برادرم محترم جناب بدر منیر چوہدری ، ایک کہنہ مشق صحافی، پریس کلب لاہور کے سابق صدر، اخبار پاکستان پوسٹ کینیڈا کے مدیر اور کینیڈا میں جیو نیوز کے نمائندہ خصوصی ہیں۔ مجھ احِقر کے ساتھ حسنِ سلوک و عزّت اور احترام سے پیش آتے ہیں۔ نہایت ہی مرنجان مرنج اور دلنواز شخصیت کے مالک ہونے کے علاوہ تحمل اور رواداری سے اپنی بات اور اعتراض کرنے کے وصف کے حامل ہیں۔ میں جناب بدر منیر صاحب کا مشکور و ممنون ہوں کہ انہوں نے آج ازراہِ مہربانی مجھ سے میرے سوشل میڈیا پیج پر میری طرف سے ریاست کو لکھی گئی گالی پر اپنی تشویش اور اعتراض کو نہ صرف بیان کیا، بلکہ قدرے دکھ کا اظہار بھی کیا۔
میں نے بدر منیر صاحب کو یہ پیشکش کی کہ وہ اپنے کسی ٹی وی پروگرام میں، مجھے کیمرے کے سامنے لے کر مجھ سے یہ سوال اور اعتراض کریں تاکہ مجھے آپ کے اعتراض پر اپنا موقّف دینے اور اپنی بات کو پبلک میں لانے پر آسانی ہو۔ مگر بدر منیر بھائی نے لائٹر موڈ میں یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ یار مجھے برا لگا تم نے ریاست کو گالی دی ہے، اس لئے میں چاہتا تھا کہ تم کو بتادوں کہ مجھے برا لگا ہے، اور مجھے اعتراض ہے۔
میں برادرم بدر منیر چوہدری صاحب کی دل سے عزّت و قدر منزلت کرتا ہوں، اور اختلاف رائے کے عزّت و احترام کے اصول کے تحت ، بدر منیر صاحب کے اعتراض کو دل سے قبول کرتے ہوئے بصد عزّت و احترام ، اپنے کہے ہوئے اور لکھے ہوئے الفاظ کی وضاحت درج ذیل سطور کے ساتھ دینا چاہوں گا۔
سب سے پہلے تو مجھے یہ اعتراف کرنے دیں کہ میں ایک محبِّ وطن پاکستانی ہوں، پاکستان میرا مادرِ وطن ہے۔ کینیڈا میں عیش و آرام کی زندگی گزارتے ہوئے بھی ہر دم پاکستان کے حالات ، معاشی بدحالی، عوام کی حالتِ زار پر رنجیدہ رہنے والا ضمیر کا قیدی ہوں۔
تحریر و تقریر کے ذریعے پاکستان میں مذہب ، فرقے، عقیدے، رنگ، و نسل زبان اور لسّانیت کی بنیادوں پر ہونے والے امتیازی سلوک اور انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کے خلاف اپنی بساط بھر آواز اٹھا تا رہتا ہوں، کینیڈا آنے کے بعد انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کے اجتماعات اور پروگرامز میں شرکت کے مواقع میسّر آنے اور کچھ بڑے اور پختہ کار انسانی حقوق کے علمبرداروں کی چھتر چھایہ و صحبت، نصیب ہونے کے بعد اب پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھا نا اور تحریر و تقریر کے ذریعے انسانی حقوق کو پامال کرنے والے ریاست کے وردی پوش درندوں کے خلاف آواز اٹھانا ، سوشل میڈیا اور کسی حد تک پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا ، اخباری کالموں کے ذریعے ریاستِ پاکستان کے قبضہ گیروں سے نظریاتی جنگ ہی میری زندگی کا واحد مقصد بن گئی ہے۔
میں اپنی پوزیشن کی وضاحت کردوں، میں ایک قلم کار ہوں، میرے ہاتھ میں صرف قلم ہے، جب کہ اس ریاست کے جسم پر وردی اور ہاتھوں میں ہتھیار ہے۔ کیونکہ یہ ریاست ہے ، اس لئے اس ریاست کے پاس طاقت ہے کہ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو ملک دشمنی اور ملک سے غدّاری کا لیبل لگا کر خاموش کرادے۔
ہم لوگ تو مادرِ وطن اور ریاست کے فرق کو سمجھنے سے ہی عاری ہیں۔ اسلئے ریاست کے خلاف اٹھنے والی آواز کو بھی مادرِ وطن کو دی گئی گالی سمجھ کر فورا” اپنا ردِّ عمل ظاہر کردیتے ہیں، اور بدگمان ہوجاتے ہیں۔
بدر منیرچو ہدری صاحب تو پڑھے لکھے ،سمجھدار اور کہنہ مشق صحافی ہیں، لحاظ مروّت والے آدمی ہیں۔ صرف شکایت اور دکھ کا اظہار کیا، وہ بھی دوستانہ انداز میں، جب کہ کچھ دوسرے مہربانوں نے تو بوٹ پرستی اور اور پاکستان پر اپنی ملکیت کے زعم میں قتل کرنے تک کی دھمکیاں دے ڈالی ہیں۔
مادرِ وطن اور ریاست میں نہایت واضح فرق ہے۔ زمین مادرِ وطن ہے۔ جبکہ ریاست کسی بھی مادرِ وطن کے عوام کے ساتھ ایک عمرانی معاہدے میں جڑی ہوئی جسمانی ساخت کا نام ہے۔ مادرِ وطن اور عوام کا رشتہ روحانی اور جذباتی تعلّق کا نام ہے، جس میں تقدّس شامل ہے۔ ریاست اور عوام کا رشتہ ایک عمرانی معاہدہ ہے، عمرانی معاہدے میں تقدس نہیں بلکہ حقوق و فرائض بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، اور عمرانی معاہدہ اگر ناقص ہو تو اسے منسوخ کرکے نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جا سکتا ہے ۔
آزاد عدلیہ اورمجلسِ مقننّہ ، آزاد میڈیا اور موثّر انتظامیہ (اقتدار اعلی‘) مہذّب دنیا میں جدید ریاست کے چار بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ اگر انتظامیہ کے ماتحت ریاستی ادار وں کے سیاسی عزائم رکھنے والے وردی پوش عاقبت نا اندیش درندے خفیہ طاقتوں کے اشاروں پر “باندر ہتھ بندوق آئی” والے کام سے باز رہتے اور اپنی ہی ریاست کو بار بار ‘فتح‘ نہ کرتے، کراچی اور بلوچستان سے معصوم نوجوانوں کو دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں گرفتار کرکے لاپتہ نہ کرتے، زیرِ حراست تشدّد کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں نہ پھینکتے، کراچی اور بلوچستان میں سیاسی عمل کو ساقط کرکے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ، انسانی حقوق کی بدترین پامالی نہ کرتے تو آج کوئی بھی ریاست کو گالیاں نہیں دیتا ۔
بلوچ قوم پرست شاعر و مفکّر اور میرے ذاتی دوست جناب غنی پہوال بلوچ سے جب مادرِ وطن اور ریاست کے موضوع پر بات ہوئی تو انہوں نے کیا خوب مادرِ وطن اور ریاست کے فرق کو بیان فرمایا، میں قارئین کی توجّہ اور موضوع کی وضاحت کے لئے اسے من و عن یہاں پیش کرتا ہوں۔
“مجھےاُس وقت بڑی حیرت ہوتی ہے جب عام لوگوں کو تو چھوڑیں، دانشور و ادیب حضرات مادرِ وطن و ریاست کے معنی گُڑ مُڑ کر جاتے ہیں ۔مادرِ وطن اور ریاست کے معنی الگ الگ ہیں ، ریاستیں بنتی ہیں ، بگڑتی بھی ہیں، مگر وطن وہیں رہتا ہے اور کسی سر زمین کومادرِ وطن بننے کیلئے ایک لمبی تاریخی،ثقافتی،لسانی ، نسلی اور تہذیبی پس منظر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پاکستان ایک ریاست تو ضرور بنا ہے اور ان ستر سالوں میں یہاں رونما ہوئے ، سیاسی،معاشی ،قومی،مذہبی ،اخلاقی اور معاشی اور لاقانونیت کی ابتریوں کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے شاید مادرِ وطن بننے میں اسے ہزاروں سال لگیں گے (اگر مزید سلامت رہ سکے تو) ۔
اب تک تو یہ حال ہے کہ یہ صحیح معنوں میں ریاست ہی نہیں بن پایا ، مادرِ وطن بننے کا مرحلہ ابھی بہت دور ہے جناب ۔ ہاں پنجاب کو آپ پنجابیوں کا وطن کہہ سکتے ہیں۔ سندھ کو سندھیوں کا ، بلوچستان کو بلوچوں کا اور خیبر پختون خواہ کو پختونوں کا وطن ضرور کہہ سکتے ہیں، مگر پاکستان کو سب قوموں کے لئے مادرِ وطن کہنا سرا سر غلط ہے۔ اس کے لئے اسے سب سے پہلے پاکستان کو کافی لمبے عرصے کیلئے عملاًایک معقول ریاست بن کر دکھانا ہوگا۔ “
ریاست تو ایک عمارت ہے، جو چار بنیادی ستوں پر کھڑی ہے۔ عمارت یعنی عمرانی معاہدے کے تحت بنے ڈھانچے پر کھڑی ریاست، کا آرکیٹیکچرل ڈیزائن، وقت اور حالات کے تحت تبدیل بھی کیا جا سکتاہے، اگر عمارت ناقص ہو تو پرانی عمارت ڈھا کر نئی عمارت (نیا عمرانی معاہدہ) بھی تشکیل دی جاسکتی ہے، مگر زمین مادرِ وطن ہوتی ہے اور اس زمین پر رہنے والے باشندے مادرِ وطن کے بیٹے اور بیٹاں ، ریاست کے شہری ہوتے ہیں۔ عمارت ناقص ہوگی تو مکین شکایت کریں گے، زیادہ تنگ پڑیں گے تو گالیاں بھی دیں گے۔ اور عمارت کو ڈھا کر نئی عمارت تشکیل دینے یعنی نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ کریں گے۔ نہ یہ مادرِ وطن سے غدّاری ہے ، نہ ہی مادر وطن سے بغاوت ہے، بلکہ یہ مادرِ وطن سے اپنی تکلیف کا اظہار ہے۔
عوام کا مادرِ وطن سے تعلّق عزّت و احترام کا رشتہ ہے۔ دنیا کا بد سے بدتر آدمی بھی اپنی ماں کو گالی نہیں دیتا ہے۔ میں بھی اپنے مادرِ وطن کو گالی نہیں دیتا ہوں، پاکستان کے لئے میری جان و مال کی کوئی وقعت نہیں۔ پاکستان کے لئے میرا جان و مال قربان، میرے تو بزرگوں نے پاکستان بنایا تھا، ہجرت کا عذاب برداشت کیا تھا، جان و مال کی قربانیاں دی تھیں۔ اس لئے پاکستان کے لئے ایک ہی دعا ہے، “پاکستان زندہ باد” اور ریاستی اداروں کے وردی پوش جو انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کے ذمّہ دار اور مجرم ہیں “مردہ باد“۔
بس مادرِ وطن اور ریاست کے بارے میں میرا یہی نقطہ نظر ہے، امید ہے کہ میری بات ریاست کے قبضہ گیر بھی سمجھ لیں گے اور اپنی بد اعمالیوں سے باز آجائیں گے، ورنہ ریاست جو بو ئے گی، وہی کاٹے گی، ڈھاکہ کا نتیجہ آگیا، کراچی اور گوادر کا نتیجہ بھی آجائے گا۔
اگر ایسا کہنا غدّاری ہے، تو ہم غدّار ہی بھلے
خوش رہو اہلِ چمن ، ہم چمن چھوڑ چلے
♦
One Comment