یہ پاگل پن ہے۔ایک جنون ہے۔ایک ایسے خطے میں جنگی جنون پھیلایا جا رہا ہے جہاں کی آبادی کے ایک بڑے حصے کا آج بھی زندگی کا سب سے بڑا مئسلہ صرف روٹی ہے۔پینے کا صاف پانی ہے۔ یا پھر سر چھپانے کی جگہ ہے۔جنگ باز قوتیں تو جنگی جنوں پھیلا ہی اس لیے رہی ہیں کہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹی رہے۔
لیکن ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اور یہاں تک دانشوروں کا ایک حصہ بھی اس جنون میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جو جنگ کے خلاف ہے۔ یا امن کی بات کرتا ہے اس کی محب وطنی پر سوال اٹھتا ہے۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ محب وطن ہونے کے لیے جنگ باز ہونا ضروری ہے۔
یہ صورت حال پاکستان اور ہندوستان میں تقریباً یکساں ہے۔یہ عوام کو ڈی ایجوکیٹ کرنے اور جنونی بنانے کا عمل ہے۔ یہ عمل ایک پرانا طریقہ کار ہے جوحکمران طبقات اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے اختیار کرتے آرہے ہیں اور کر رہے ہیں۔اس عمل کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے فرار اور دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کا عمل بھی یکساں قوت کے ساتھ دونوں ملکوں میں جاری ہے۔
بھارت میں اوڑی فوجی کیمپ پر حملے کو ہی لے لیجیے۔بھارت کے حکمران یہ حملہ ہوتے ہی اس کی تمام تر زمہ داری پاکستان یا اس کے زیر اثر دہشت گردوں پر ڈال کر گویا اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو گئے۔یہ سوال کسی نے نہیں اٹھایا کہ جن لوگوں کی کل وقتی زمہ داری دہشت گردی کے ایسے واقعات کو روکنا ہے وہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کیوں ناکام رہے۔اور اگر یہ واقعہ ایک ایسی محفوظ ترین جگہ پر نہیں روکا جا سکا تو پھر دوسری عام جگہوں پر یہ واقعہ کیسے روکاجا سکتا ہے۔
اور اس سوال کے ساتھ یہ سوال بھی جڑا ہوا ہے کہ کیا محض حفاظتی اقدامات سے دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے ؟ اور اس سوال کے جواب میں تو یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اگر اپ پورے ملک کو ہی فوجی کیمپ میں بدل دیں تو پھر بھی دہشت گردی کے امکانات ختم نہیں ہو جاتے۔اور یہ بات اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ دہشت گردی کے روٹ کاز یعنی اس کی جڑوں تک جانا اور اسے جڑوں سے اکھاڑنا ہی واحد قابل اعتماد حل ہے۔اور ظاہر ہے کہ الزام تراشی کے روایتی کھیل سے نکلے بغیر ایسا نہیں کیا جا سکتا۔
جس طرح بھارت کے حکمران اوڑی کے واقعے یا کشمیر کی بے چینی کی زمہ داری پاکستان پر ڈال کر خود گویا بری الزمہ ہو گئے جیسے کہ اس معاملے میں ان کے کرنے کا کوئی کام ہے ہی نہیں۔دوسرے الفاط میںیہ سب کچھ جو ہو رہا ہے پاکستان کروا رہا ہے۔یعنی جس دن پاکستان ایسا کروانا بند کر دے گا اس دن مسئلہ ختم۔
یہی حال بارڈر کے دوسری طرف پاکستان کے حکمرانوں کا ہے۔ان کے نزدیک بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ بھارت ہے۔اور یہ سب کچھ اس وقت ایک دم بند ہو جائے گاجس وقت بھارت ایسا کروانا چھوڑ دے گا۔گویا بلوچستان میں جو کچھ گزشتہ برسوں میں ہوا اس کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ذمہ داری بھارت پر عائد کرنے کے بعد ہمارے حکمران اپنی ذمہ داری سے یکدم سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ اور ان کی جان ان سوالات سے چھوٹ جاتی ہے جو بلوچستان کے بارے میں پوچھے جاتے ہیں۔
ان بے شمار سوالوں میں پہلا سوال یہ ہے کہ ریاست قلات بلوچستان میں کیسے شامل ہوئی تھی۔کیا اس میں بلوچستان کے عوام کی مرضی شامل تھی یا اسے زبردستی فوجی کاروائی کے ذریعے پاکستان کے وفاق میں شامل کیا گیا تھا۔ اگر یہ شمولیت رضاکارانہ تھی تو پھر بلوچوں پر پے درپے فوج کشی کیوں ہوتی رہی۔ان کو بار بار پہاڑوں پر چڑھنے اور لڑنے پر کیوں مجبور کیا جاتا رہا۔
اکبر بگٹی سمیت کئی بلوچ رہنماوں کو کیوں شہید کیا گیا۔ہزاروں کی تعداد میں بلوچ رہنما اٹھا کر غائب کیوں کر دئیے گئے۔ ۔اور کیا بلوچستان میں واقعی کوئی ناراضی، کوئی بے چینی موجود ہے۔اگر ہے تو اس سلسلے میں بھارت پر الزام تراشی کے علاوہ ہمارے حکمران طبقات کی بھی کوئی ذمہ داری ہے، اور اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کے لیے انہوں نے کیا اقدامات کیے۔
یہ سارے بہت ہی سادہ اور اسان سوالات ہیں۔ان کے بہت ہی سیدھے اور آسان جوابات ہیں۔ان سولات اور جوابات کے بعد ایک پرائمری سکول کے طالب علم کے لیے بھی یہ نتیجہ اخذ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ ان سارے مسائل کے ذمہ دار حکمران طبقات ہیں جو اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اور حکمران طبقات اس حقیقت سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے الزام تراشی کا کھیل کھیلتے ہیں، اور عوام کو جنگی جنون میں مبتلا کرتے ہیں۔
اسی کے تسلسل میں پاکستان اور بھارت کشمیر کے باب میں اپنی اصل ذمہ داریاں نبھانے میں ناکامی کے بعد اب جنگی جنون پھیلا کر عوام کی انکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں۔پاکستان اور بھارت کو جنگ کی نہیں امن کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے کروڑوں بھوکوں ننگوں کو ذلت اور پسماندگی کی زندگی سے نکال سکیں۔
♠