ارشد بٹ۔ اوسلو
عمومی طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ علامہ اقبال تصورپاکستان کے خالق تھے اور 1930 کے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علامہ اقبال کے صدارتی خطاب کو اس کی بنیاد کہا جاتا ہے۔ کیاعلامہ اقبال کے اس خطاب سے قبل کسی مفکر، دانشور یا سیاستداں نے ایسے موضوع پر کچھ لکھا یا کہا تھا یا کہ برصغیرکی تاریخ میں اقبال ہی پہلے مفکر یا سیاستدان تھے جنہوں نے متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم مسئلے کا ایسا حل تجویز کیا تھا جس نے آگے چل کرتحریک پاکستان کو نظریاتی بنیاد فراہم کی۔
کیا قائد اعظم نے تحریک پاکستان کے دوران یا پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد کہیں تسلیم کیا تھا یا یہ تذکرہ کرنا مناسب سمجھا تھا کہ تحریک پاکستان کی سیاسی اور نظریاتی راہنمائی کی بنیاد علامہ اقبال کا یہ خطبہ تھا۔ قائد اعظم کی زندگی میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے کسی اجلاس میں کسی تقریر، تحریر یا قرارداد سے یہ اظہارہوتا ہو جس میں علامہ اقبال کو تصور پاکستان کا خالق مانا گیا ہو اوراس سلسلہ میں انکی بے مثال خدمات پر خراج تحسین پیش کیا گیا ہو۔ اس تحریر میں ان سوالات کا تاریخی حقائق اور دستاویزات کے حوالے سے جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں میں دیے گئے حوالہ جات مستند کتابوں سے لئے گئے ہیں اور انکو بغیر کسی ردوبدل کے پیش گیا ہے۔
اصل موضوع کی جانب بڑھنے سے قبل علامہ اقبال کی سیاسی زندگی کا مختصر جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال ‘زندہ رود‘ میں لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال نے 1926 سے پیشتر عملی سیاست میں حصہ نہ لیا تھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق 1926 کی پنجاب کونسل کے انتخاب میں کامیابی کے بعد اقبال نے سر فضل حسین کی قائم کردہ یونینسٹ پارٹی کی رکنیت اختیار کر لی تھی اور اقبال 1927 سے 1930 تک پنجاب کی قانون ساز کونسل کے رکن رہے۔ یہ تین سال انہوں نے یونینسٹ پارٹی کے اندر رہ کر اس جماعت کے طریقہ کار کو بغور دیکھا۔۔۔ عملی سیاست میں قدم رکھنے کے سبب وہ اسی سال پنجاب صوبائی مسلم لیگ کے سیکریٹری بن گئے۔,,
ہندوستان میں دستوری اصلاحات کے لئےحکومت برطانیہ نے نومبر 1927 کو سائمن کمیشن کا اعلان کیا جس کے تمام اراکین انگریز تھے۔ جناح اور دیگر سیاسی راہنماوں نے کمیشن کی تشکیل پراعتراض کیا کیونکہ سائمن کمشن میں کسی ہندوستانی کو شامل نہ کیا گیا تھا۔ جناح اور دیگرراہنماوں نے بعد ازاں سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔
اس وقت پنجاب مسلم لیگ کے صدرسرشفیع اور سیکریڑی علامہ اقبال تھے جو سائمن کمیشن سے تعاون کرنے کے حامی تھے۔ جس بنا پر انہوں نے جناح سے راستے جدا کرکےعلیحدہ مسلم لیگ کا اعلان کر دیا تھا۔ دسمبر 1927 کو مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک جناح لیگ کہلائی اوردوسری شفیع لیگ۔ شفیع لیگ کے صدر سرمحمد شفیع جبکہ علامہ اقبال سیکریٹری قرار پائے۔ یاد رہے جناح انگریزحکومت کی من مانی پالیسی کی وجہ سے سائمن کمیشن سے تعاون کرنے کے شدید مخالف تھے جبکہ اقبال انگریز حکومت کی منشا کے مطابق سائمن کمیشن کی ہیت ترکیبی اور اس سے تعاون کرنے کے حامی تھے۔
سر شفیع کی انگریز حکمرانوں سے وفاداری کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ انکے سائمن کمشن سے تعاون کرنے کے موقعہ پر مولانا محمد علی اپنے اخبار “ہمدرد” میں لکھتے ہیں۔
۔‘سرشفیع سے بھلا یہ کیونکر ممکن ہے کہ کسی وائسرائے کی رائے سے متفق نہ ہوں۔ انہوں نے وفاداری کا راگ گانا شروع کر دیا ہے۔ یہ پنجاب کی بد قسمتی ہے کہ سرمحمد اقبال جیسے لیڈر بھی شفیع جیسے وفادار کو اپنی آزاد خیالی کی سطح تک نہ ابھار سکے بلکہ برخلاف اس کے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی سرشفیع کی وفاداری کی پست سطح پر اتر آئے ہیں‘۔ زندہ رود صفحہ 382 ۔
سنہ1927 میں مسلم لیگ سیاسی اور فکری خلفشارکا شکارہو کر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ پنجاب مسلم لیگ نے سرشفیع اورعلامہ اقبال کی قیادت میں انگریزوں سے وفاداری نبھاتے ہوئے جناح کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ اس ٹوٹ پھوٹ کے بعد ایک طویل عرصہ تک مسلم لیگ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ہندوستان میں قدم نہ جما سکی۔
جناح کی قیادت کو کمزور کرنے اورمسلم لیگ کو مزید دھچکے دینے کے لئے آل پارٹیزمسلم کانفرنس وجود میں لائی گئی اوراقبال اس کے بانیوں میں سے تھے۔ جناح کی مسلم لیگ کے سوا تمام مسلم جماعتوں نے اس کانفرنس میں شرکت اختیار کی۔ جناح نے آل پارٹیزمسلم کانفرنس کی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے مسلم لیگ کوہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت بنانے کا عزم ترک نہ کیا اور آل انڈیا مسلم کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔
29 دسمبر1928 کوآل پارٹیز مسلم کانفرنس کا اجلاس زیرصدارت آغا خان دہلی میں منعقد ہوا جس میں ہندوستان کے مسلمانوں کے مطالبات پرمبنی ایک قرارداد منظور کی گئی۔ جناح نے مسلم کانفرنس کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے اپنا فارمولا دیا جو جناح کے 14 نکات کے نام سے مشہورہوا اور بعد ازاں یہ 14 نکات مسلمانان ھند کے مطالبات قرار پائے۔
جناح نے موقعہ پرستانہ اورمصلحت کوش سیاست سے خود کو علیحدہ رکھا۔ بالآخر سرشفیع اورعلامہ اقبال بھی جناح کی قیادت تسلیم کرنے پرمجبورہو گئے اور 28 فروری 1930 کو مسلم لیگ دوبارہ متحد ہو گئی۔ مگر مسلم لیگ کے فکری، سیاسی اورتنظمی انتشار، خصوصا پنجاب مسلم لیگ کی انگریز نواز پالیسی کی وجہ سے جناح ذہنی پریشانی کا شکار تھے اوربلآخرانہوں نے ترک وطن کرکے انگلستان میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
۔”اقبال کے آخری دو سال” کے مصنف عاشق حسین بٹالوی لکھتے ہیں کہ یونینسٹ پارٹی ، مسلم لیگ کی حریف پارٹی تھی اور جس کے دروازے ہندووں، مسلمانوں، سکھوں، اچھوتوں اور مسیحیوں پر یکساں کھلے تھے ۔ بٹالوی مزید لکھتے ہیں کہ فضل حسین کے حیرت انگیز اثرورسوخ نے جناح کو بے دست و پا بنا کر رکھ دیا۔ اور آخر اس یاس و حرماں اور شکست خوردگی کے احساس ہی نے انہیں وطن ترک کرنے اورانگلستان میں مستقل اقامت اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
بٹالوی مزید لکھتے ہیں کہ جب 1929 میں مسلم لیگ کا زور توڑنے کے لئے آل انڈیا مسلم کانفرنس وجود میں آئی تو ڈاکٹر اقبال اس کانفرنس کے بڑے سرگرم رکن تھے۔ پہلے اس کی مجلس عاملہ کے ممبر اور پھر اس کے صدر بن گئے تھے۔
سنہ1930 میں جناح ہندوستان سے ہجرت کرکے انگلستان سکونت اختیار کر چکے تھے اوراقبال ابھی تک یونینسٹ پارٹی سے مستعفی نہیں ہوئے تھے۔ یہ حالات تھے جب دسمبر 1930 کو مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس علامہ اقبال کی صدارت میں الہ آباد میں منعقد ہوا۔ قابل ذکر بات یہ کہ قائد اعظم سمیت مسلم لیگ کے کئی سرکردہ راہنما اس اجلاس میں شریک نہ ہوئے تھے بلکہ جب علامہ اقبال نے اپنا تاریخی خطبہ دیا تو اجلاس کا کورم بھی پورا نہ تھا۔( پیرزادہ۔ صفحہ۔ 85)۔
مسلم لیگ کے اس اجلاس میں علامہ اقبال کے صدارتی خطاب کو تصورپاکستان سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کو بنیاد بنا کراقبال کو تصورپاکستان کا خالق کہا جاتا ہے۔ اقبال نے اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا “مسلمانوں کا یہ مطالبہ قطعاً منصفانہ ہو گا کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم انڈیا قائم کیا جائے۔ میں یہ دیکھنا پسند کروں گا کہ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک مملکت میں مدغم کر دیا جائے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ سیلف گورنمنٹ ، خواہ یہ سلطنت برطانیہ کے اندرہو یا سلطنت برطانیہ کے باہر ہو، اور ایک مربوط شمال مغربی ہندی مسلم ریاست کی تشکیل بالآخر مسلمانوں کی کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی تقدیر ٹھہرے گی۔۔۔ اس سے مسلمانوں کا احساس ذمہ داری مضبوط ہو گا اور جذبہ حب الوطنی فروغ پائے گا۔ اگر شمال مغربی ھندوستان کے مسلمانوں کو یہ بھر پورموقعہ دیا جائے کہ وہ ہندوستان کے نظام سیاست میں رہ کر نشوونما کرسکیں تو وہ ہندوستان کے خلاف تمام حملوں کی صورت میں، چاہے یہ حملہ بزور قوت ہو یا بزور خیالات، ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گئے۔۔۔ خود اختیار یعنی سیلف گورننگ، ریاستوں کے سپرد ہونے چاہیں۔ مرکزی وفاقی ریاست کے سپرد صرف ایسے اختیارات ہونے چاہیں جو تمام وفاقی ریاستیں واضع طور پر بخوشی اس کے سپرد کریں“۔
اقبال کے اس خطاب میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے کسی آزاد یعنی خودمختار اسلامی مملکت کا تصور پیش نہیں کیا۔ اس میں آسام اوربنگال اکثریتی مسلم علاقوں اور ریاست جموں اور کشمیر کا کوئی ذکر نہیں۔ اقبال اپنی تقریر میں شمال مغربی ہندوستان میں مسلم اکثریتی علاقوں کو ایک ریاست میں ضم کرکے وفاق ہندوستان کے دائرے میں ایک خود مختاریونٹ تشکیل دینے کی تجویز پیش کر رہے ہیں۔
۔ “پاکستان کی سیاسی تحریک” کے مصنف زاہد چوہدری لکھتے ہیں“علامہ اقبال کے خطبہ سے ظاہر ہے کہ انہوں نے دسمبر 1930 میں پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کو ضم کر کے وفاق ہندوستان کے دائرے میں ایک خود مختار ریاست قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس کی بنیاد دراصل کسی نئے تصور پر نہ تھی۔ علامہ کے اپنے بیان کے مطابق ‘1927 میں آل پارٹیزکانفرنس منعقدہ دہلی کی قراردادوں سے اسی بلند نصب العین کا اظہار ہوتا تھا‘ اور پھر 1928 میں نہرو کمیٹی کے رو برو بھی یہ تجویز پیش کی گئی مگر اس نے اسے مسترد کر دیا۔ اسی سال یعنی 1928 میں ہی پنجاب میں سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار انقلاب میں مرتضے خاں میکش کے نام سے ایک سلسلہ مضامین شائع ہوا جن میں یہ ہی مطالبہ کیا گیا تھا۔ علامہ اقبال ان دنوں پنجاب کونسل میں یونینسٹ پارٹی کے رکن تھے اور جب 1930 میں انہوں نے یہ خطبہ پڑھا اس وقت تک انہوں نے یونینسٹ پارٹی سے استعفی نہیں دیا تھا ‘۔
ایڈورڈ ٹامسن کے نام 4مارچ 1934 کے ایک خط میں اقبال اپنے 1930 کے خطبے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں“پاکستان میری سکیم نہیں ہے۔ جو تجویز میں نے اپنے خطبے میں پیش کی تھی وہ ایک مسلم صوبے کے قیام کی تجویز تھی۔ یعنی شمال مغربی ہند میں ایک ایسے صوبے کی تشکیل جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ میری سکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ آئندہ کی انڈین فیڈریشن کا حصہ ہو گا۔ لیکن‘پاکستان‘ سکیم مسلم صوبوں کی ایک علیحدہ فیڈریشن کے قیام کی سفارش کرتی ہے۔ جس کا براہ راست تعلق انگلستان سے ایک علیحدہ ڈومینین کی صورت میں ہوگا۔ یہ سکیم کیمبرج میں بنائی گی ہے“۔(زندہ رود صفحہ 482)۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ پاکستان کا لفظ اوراس نام کے ایک آزاد ملک کا منصوبہ پہلی بار چوہدری رحمت علی نے 1933 میں پیش کیا۔ یاد رہے کہ چوہدری رحمت علی نے کیمبرج میں پاکستان کے حصول کے لئے پاکستان نیشنلسٹ موومنٹ قائم کر رکھی تھی اوراقبال اس منصوبہ کے کھلے مخالف تھے۔
سنہ1936 اور 1937 کے دوران علامہ اقبال کے جناح کو لکھے گئے مراسلات کو بعض دانشوروں کے نزدیک تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ اقبال نے اس دوران جناح کو مسلم لیگ کی پنجاب میں تنظیم نو، لیگ کے سیاسی اور نظریاتی لائحہ عمل، دستور اور پروگرام میں تبدیلی کےلئے متعدد مشورے د یئے۔ کیا یہ مشورے یک طرفہ ہی رہے یا قائد نے ان خطوط کے جوابات بھی لکھےاور اقبال کے مشوروں پر کس قدرعمل کیا یا کہ ان مشوروں کو قائد نے درخوراعتنا ہی نہ سمجھا۔ یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے۔
تیس اکتوبر 1937 کو قائد کو لکھے گئے ایک خط میں اقبال لکھتے ہیں۔ ‘ہمیں مسلمانوں کی تنظیم کے لئے اپنی تمام ترقوتیں ہمیشہ سے زیادہ گرم جوشی کے ساتھ وقف کر دینی چاہیں اور اس وقت تک چین نہ لینا چاہے جب تک پانچ صوبوں میں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہو جاتی اور بلوچستان کواصلاحات نہیں ملتیں‘۔(تحریک آل انڈیا مسلم لیگ۔297)۔
تاریخی دستاویزات کی ورق گردانی کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کی اقبال وہ پہلے یا واحد مفکر نہ تھے جنہوں نے برٹش انڈیا میں مسلم ہندو مسئلے کے حل کے لئے خودمختار صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کی ہو۔ اقبال کے سیاست میں سر گرم ہونے سے قبل مسلم لیگ کے معروف لیڈر نواب ذوالفقار علی، مولانا حسرت موہانی اور آریہ سماجی ہندو نیشنلسٹ لیڈر لالہ لاجپت رائے انڈیا میں خود مختار مسلم ریاستوں کی تجویز پیش چکے تھے۔ بقول ڈاکٹرجاوید اقبال، بھائی پرمانند، پروفیسر جی۔ آر۔ ابھیا نکر اور نواب ذوالفقار علی ایسی ہی تجاویز اقبال سے پہلے پیش کر چکے تھے۔ زندہ رود۔ صفحہ 491۔
تیس دسمبر 1929 کو خلافت کانفرنس کے اجلاس منعقدہ لاہور میں نواب ذولفقار علی خاں نے تقریر کرتے ہوئے کہا “ہندوستان کی آزادی اور ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کو شمالی ہند میں ایسا علاقہ دے دیا جائے جو دو یا تین صوبوں پرمشتمل ہو یا انہیں مدغم کر کے ایک صوبہ بنا دیا جائے۔ اسی طرح مشرقی ہند میں بنگال کی ایسی ہی تقسیم کر دی جائے“۔( زندہ رود صفحہ 402)۔
نواب ذوالفقار علی کے اس بیان سے تقریبا 5 سال قبل ہندوستان کی مذہبی بنیادوں پرتقسیم کا نظریہ لالہ لاجپت رائے نے 1924 میں پیش کیا۔ گانگریسی اورآریہ سماجی لیڈر لالہ لاجپت رائے نے لاہور کے ایک اخبار ٹریبیون میں 1924 کوایک آرٹیکل
“The Hindu-Muslim problem (part II – Some suggestions for political improvements)”
میں لکھا ۔
“Maulana Hasrat Mohani has recently said that the Muslims will never agree to Indias having Dominion status under the separate Muslim states in India, united with Hindu states under a National Federal Government. He is also in favour of smaller states containing compact Hindu and Muslim population. If communal representation with separate electorate is to be rule, then Maulana Hasrats scheme as to smaller provinces seems to be the only workable proposition. Under my scheme the Muslims will have four Muslim states: 1. The Pathan province or NWF, 2. Western Punjab, 3. Sindh and Eastern Bengal. If there are compact Muslim communities in any other part of India, sufficiently large to form a province, they should be similarly constituted. But it should be distinctly understood that this is not a united India. It means a clear partition of India into a Muslim India and a non-Muslim India.”
۔”پاکستان کی سیاسی تحریک” کے مصنف زاہد چوہدری لکھتے ہیں کہ یہ حقیقت دلچسپی سے خالی نہیں کہ جو پاکستان 1947 میں وجود میں آیا وہ لالہ لاجپت کی سکیم کے عین مطابق تھا۔ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تصورپاکستان کا ابتدائی خالق کوئی مسلمان مفکر نہ تھا۔ بلکہ پنجاب کا ایک آریہ سماجی لیڈر تھا۔ جس کہ سینے میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف نفرت اورعداوت کا بے پناہ جذبہ موجزن تھا۔ ۔(صفحہ 143)۔
زاہد چوہدری مزید لکھتے ہیں“اقبال نے ہندوستانی وفاق کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک خود مختار وفاقی مسلم ریاست یا ریاستوں کا تصور پیش کیا تھا اس کا اس تصور سے کوئی تعلق نہیں جس کی بنیاد پر 14۔اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آیا تھا۔۔۔۔۔ علامہ اقبال کے خطبہ کے کسی حصہ سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے ذہن میں کلی طور پر ایک آزاد اور خود مختار یعنی سوونراور انڈی پنڈنٹ، اسلامی مملکت کے قیام کا تصور تھا“۔صفحہ۔181۔
زاہد چوہدری لکھتے ہیں کہ اسلامی مملکت پاکستان کا تصور دراصل پہلی مرتبہ علامہ کے اس تاریخی خطبہ میں پیش کیا گیا تھا ۔ تاریخ کو مسخ کرنے کی اس سے بد ترمثال شاید ہی کہیں اور ملے۔ صفحہ۔ 174۔
ڈاکٹر جاوید اقبال ،زندہ رود، میں لکھتے ہیں کہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے بعض لیڈرخود ہی اقبال کو مسلم ریاست کے تصور سے الگ تھلگ ر کھنا چاہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں اس کی مثال مسلم لیگ یا تحریک پاکستان کے ایک نامور لیڈراورقاید اعظم کے دست راست ایم۔ اے۔ ایچ۔ اصفہانی کی تحریر کے حوالے سے پیش کی جاسکتی ہے۔ اصفہانی لکھتے ہیں کہ اس بات سے بلا شبہ انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر اقبال کی فکر، شاعری اور خطبات بھی اس سمت اشارہ کرتے تھے لیکن یہ کہنا کہ وہ مسلم ریاست کے تصور کے خالق تھے تاریخ کو مسخ کرنا ہے۔ صفحہ۔ 455 ۔
جاوید اقبال کہتے ہیں کہ اصفہانی دراصل شریف الدین پیرزادہ، ڈاکٹراشتیاق حسین اور تحریک پاکستان کے ایک نمایاں راہنما چودھری خلیق الزمان کی تحریروں سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ شریف ا لدین پیرزادہ کی تحقیق کے مطابق اقبال سے قبل کئی ا نگریز، مسلم اور ہندو مفکر، مسلم ہندو تنازعہ کے حل کے لئے خود مختار ریاستوں کے قیام کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کی بات کر چکے تھے۔ اس کے مطابق 1917 میں ڈاکٹرعبدالجبارخیری اور پروفیسرعبدالستارخیری نے سٹاک ہوم کی سوشلسٹ انٹرنیشنل کانفرنس میں ایک تحریری بیان میں کہا تھا کہ ہندوستان کے ہرصوبے کو خودمختاری کا حق دیا جانا چاہے۔ تاکہ مسلم اور ہندو اکثریتی صوبے علیحدہ علیحدہ وفاق قائم کرسکیں۔ 1924 میں مولانا حسرت موھانی نے تجویز پیش کی کہ شمال مغرب کے مسلم اکثریتی صوبوں کو مدغم کر کے ایک صوبہ بنا دیا جائے اور اسے ہندوستان کے وفاقی نظام میں ایک وحدت کی پوزیشن حاصل ہو۔ صفحہ۔ 452۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اپنی تصنیف “پاکستان کی جدوجہد” میں لکھتے ہیں کہ اقبال سے پیشتر بر صغیر میں مسلم ریاست کا تصور پیش کرنے والوں میں جمال الدین افغانی، چوھدری رحمت علی، ڈاکٹر جبار خیری، پروفیسر ستارخیری، عبدالقادر بلگرامی، لووٹ فریزر، ساورکر، لالہ لاجپت رائے، سردار گل خان، مولانا محمد علی اور آغا خان کے نام شامل ہیں۔ زندہ رود۔ 453۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، شریف الدین پیرزادہ اور چوھدری خلیق ا لذمان کی اس تحقیق کے جواب میں داکٹر جاوید اقبال صرف اتنا کیہ سکے کہ اقبال نے مسلم ریاست کی تجویز پیش کرنے سے قبل اس کے لیے ایک فکری اور نظریاتی اساس فراہم کی اور پھر جب تک ان کی زندگی نے وفا کی اسے وجود میں لانے کے لیے عملی جدوجہد کرتے رہے لیکن باقی شخصیات نے اس سلسلے میں کون سی ایسی خدمات انجام دیں۔ صفحہ۔453۔
مگر تاریخی حقائق ڈاکٹر جاوید اقبال کے اس دعوی کی مکمل نفی کرتے ہیں۔ کیونکہ اقبال کی زندگی میں چوہدری رحمت علی کی پاکستان موومنٹ کے علاوہ کسی تحریک پاکستان کا وجود نہ تھا جس کے لیے اقبال جدوجہد کرتے رہے بلکہ وہ اعلانیہ چوہدری رحمت علی کی پاکستان موومنٹ کے مخالف رہے ہیں۔ اور دوسری جانب جناح کی قیادت میں مسلم لیگ متحدہ ھندوستان کے اندر رہتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے۔ جس کا دستاویزی ثبوت قائد اعظم کے چودہ نکات اور بعد ازاں 1937 کے الیکشن کے لئے مسلم لیگ کا انتخابی منشور ہے۔ جس میں میثاق لکھنو کی روشنی میں مسلم ہندو اتحاد کو اجاگر کرنے کی بات کی گئی تھی۔
قائد اعظم 1934 کو انگلستان سے واپس انڈیا لوٹ آئے اور مسلم لیگ کی قیادت انہیں ایک بار پھر سونپ دی گئی۔ 1935 کے انڈیا ایکٹ کے نفاذ کے بعد 1937 میں صوبائی انتخابات ہونے قرار پائے۔ برٹش انڈیا میں 1937 کے صوبائی انتخابات اور انکے نتیجہ میں پیدا شدہ صورت حال نے آیندہ آنے والے حالات کا رخ متعین کرنا شروع کر دیا تھا۔
عاشق بٹالوی لکھتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ جب سے مسٹرجناح انگلستان سے واپس آئے تھے ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہی تھی کہ 1916 کے میثاق لکھنو کی طرح کانگرس اورمسلم لیگ کے درمیان کوئی پائدارمفاہمت ہو جائے تاکہ ہندواورمسلمان مل کر آزادی وطن کی تحریک میں حصہ لے سکیں۔ اس کے ثبوت میں بٹالوی قائد کی ڈھاکہ میں 8۔ جنوری 1937 کو کی گئی تقریر کا حوا لہ دیتے ہیں۔ جس میں قائد نےکہا۔“جداگانہ انتخاب کے باوجود اوران مشکلات کے باوجود جن کا آج ملک کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ہندو اورمسلمان متحد ہو کر ایک پارٹی بنا سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ہم ایک ایسی مشترکہ پالیسی اور پروگرام وضع کر سکیں جس پر ہندواورمسلمان اسمبلیوں کے اندراور باہرعمل پیرا ہوسکیں“۔
عاشق حسین بٹالوی لکھتے ہیں۔” پنجاب مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی بورڈ نے جو مینی فیسٹو شائع کیا اس کا پروگرام بھی کم و بیش انہی خطوط پر مرتب کیا گیا تھا“۔ یاد رہے کہ اقبال اسوقت پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے اور پنجاب لیگ کا الیکشن منشورعلامہ اقبال کی براہ راست نگرانی میں مرتب کیا گیا تھا۔
یہاں یہ تذکرہ کرنا اہم ہو گا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا الیکشن منشور، لیگ کی آیندہ پالیسی اورسرگرمیوں کا سنگ بنیاد تھا۔ مسلم لیگ نے 1937 کے الیکشن کیلئے میثاق لکھنو کے تحت ہندومسلم مفاہمت، ہندوستان میں مسلم اکثریتی اوراقلیتی صوبوں میں مسلم عوام کے سیاسی، قانونی، معاشی اور ثقافتی مسائل کو مد نظر رکھ کر اپنا لائحہ عمل مرتب کیا جس کا اظہار مسلم لیگ کے الیکشن منشوراور اس دوران جناح کی تقاریرمیں نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ اور جناح متحدہ ھندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کا منشورلے کرمیدان میں آئے تھے۔ اس الیکشن میں پاکستان کے نام کا ذکر یا ہندوستان سےعلیحدہ ہو کر کسی الگ ملک کا تصور،مطالبہ یا اس کا کسی طرز یا سطح پراظہارنظر نہیں آتا۔
ان الیکشنوں میں کانگرس کی غیرمتوقع کامیابی نے آیندہ آنے والے حالات کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔ مسلم لیگ ان الیکشنوں میں کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ مگر جناح یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ صرف مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت ہے کیونکہ لیگ ہی مسلمانوں کی واحد جماعت تھی جس نے مسلم نششتوں پر تقریبا پورے ملک میں اپنے نمایندے کھڑے کئے تھے۔ کانگرس قیادت کی رعونت اورغیرمفاہمتی پالیسی نے ہندوستان کی سیاست کو ایک نئے رخ پہ ڈال دیا جس سے نہ صرف مسلم لیگ اورکانگرس کی قیادت میں فاصلے بڑھنےشروع ہو گئے بلکہ ہندو اور مسلم عوام میں اختلافات کی خلیج وسیع ہونے لگی۔ کانگرس کےصوبوں اورملک میں بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کے جنون اور مسلم لیگ کے بارے معاندانہ پالیسی کیوجہ سے ہندوستان کے مسلمانوں میں بے چینی، عدم تحفظ اورغصے کی لہر دوڑنے لگی اور اپنے حقوق کے تحفظ کے متعلق خد شات پیدا ہونے شروع ہو گئے۔
الیکشن کے بعد قائد اعظم مسلم لیگ کی خودمختارحیثیت برقرار رکھتے ہوئے کانگرس کے ساتھ صوبائی وزارتوں میں مسلم لیگ کی شمولیت چاہتے تھے۔ مگرکانگرس کی قیادت مسلم لیگ کی آزادانہ پارلیمانی حیثیت تسلیم کرنے کی بجائے اسکو ختم کرکے کانگرس میں ضم کرنے کی شرط پرحکومت میں شامل کرنے کی پالیسی پربضد تھی۔ کانگرس کے اس طرزعمل سے ہندوستان کے حالات کس قدرخطرناک رخ پہ چل پڑیں گئے اسکا اندازہ شائد اسوقت کانگرس اورمسلم لیگ کی قیادتوں کو بھی نہ تھا۔
انتخابات کے کچھ عرصہ بعد 21۔ اپریل 1938 کو علامہ اقبال انتقال کر گئے۔ اقبال کے انتقال کے بعد مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس دسمبر 1938 کو قا ئد اعظم کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں ایک قرارداد کے ذریعےعلامہ اقبال کو مندرجہ ذیل الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ “آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس سرمحمد اقبال مرحوم کے اسلام کا ایک فلسفی صوفی و قومی شاعر ہونے کی حیثیت سے ان کی خدمات کی تحسین کرتا ہے۔ مسلمانوں کو انہوں نے یہ پیغام پہنچایا تھا کہ وہ اپنے ماضی کی روایات سے اپنے مستقبل کو بنائیں“۔ یہاں پراقبال کے کسی مسلم ریاست کے تصور کے خالق ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔
علامہ اقبال کی رحلت کے تقریبا دو سال بعد مسلم لیگ کا تاریخی اور یاد گاراجلاس مارچ 1940 کو لاہورمیں مزار اقبال سے چند قدموں کے فاصلے پرمنعقد ہوا۔ جس میں تاریخی قرارداد لاہور منظور کی گئی جسے بعد ازاں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس قرارداد میں بھی آزاد پاکستان کا مطالبہ نہیں پیش کیا گیا تھا مگر یہ قرارداد آگے چل کر تحریک پاکستان کا سنگ میل ثابت ہوئی۔ حیران کن بات ہے کہ اس قرارداد میں، قائد اعظم یا کسی اور لیگی لیڈر نے کسی تقریریا تحریرمیں اقبال یا انکے اس خطبے کا اشارتاً بھی ذکر نہیں کیا۔ نہ ہی اس اجلاس میں اقبال کے تصور پاکستان کا خالق ہونے کا اعتراف کیا گیا۔ یہ حقیقت بھی توجہ طلب ہے کہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کی قیادت نے چند قوموں کے فاصلہ پرموجود مزاراقبال پرحاضرہوکرتصورپاکستان پیش کرنے پراقبال کا شکریہ ادا کرنے اور خراج عقیدت پیش کرنے کی بھی زحمت گوارا نہ کی۔
ایک اوراہم تاریخی حقیقت جو قابل غور ہے کہ علامہ اقبال کے 1930 کے خطاب کے بعد اور قیام پاکستان تک آل انڈیا مسلم لیگ کے کسی اجلاس یا قائد اعظم کی کسی تنظیمی یا پبلک تقریر یا تحریر میں اقبال کے اس خطبے کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا اورنہ ہی اس خطبے کو تصور پاکستان کی بنیاد قرار دیا گیا۔ قائد اعظم کی حیات میں ایسا کوئی دستاویزی ثبوت یا شہادت نہیں ملتی جس سے یہ اخذ کیا جاسکے کہ مسلم لیگ یا قائد اعظم نےعلامہ اقبال کے تصور پاکستان کا خالق ہونے کا اعتراف کیا ہو۔
علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب کب دیکھا اور یہ کہ وہ تصور پاکستان کے خالق تھے تاریخ کے صفحات اس کی شہادت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ تصورپاکستان یا پاکستان کے حوالے سے جو باتیں بغیر تاریخی ثبوت کے علامہ اقبال سے منسوب کی جاتی ہیں وہ علامہ اقبال کے ساتھ سراسر ناانصافی تو ہے ہی مگر تاریخ مسخ کرنے کی ایسی بھونڈی مثال شاید کہیں اور نظر نہ آئے۔ یہ بظاہر نظر آتا ہے کہ پاکستانی ریاست نے کچھ دانشوروں کی ملی بھگت سے یہ سب کچھ قائد اعظم کے انتقال کے بعد تخلیق کیا اورمتعارف کرایا۔ اسوقت پاکستانی ریاست کے کرتا دھرتا افراد کو یہ نظریہ کیوں اپنانا پڑتا اور انہیں اسکی ضرورت کیوں محسوس ہوئی یہ ایک الگ موضوع بحث ہے۔
آخر میں یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ اردو اورفارسی شاعری میں علامہ اقبال کو وہ مقام حاصل ہے جو صدیوں میں بھی شاید کسی کو نصیب نہ ہوتا ہو۔ گذشتہ صدی اورعصرحاضرمیں انکے پائے کے شاعر اور مفکر پوری مسلم دنیا میں بہت کم پیدا ہوے ہیں۔ علامہ اقبال کی ایک طویل عرصہ عملی سیاست سے کوئی خاص دلچسپی نہ رہی اور انکا برصغیرکی عملی سیاست میں سرگرم دورانیہ تقریبا 10 سال تک محیط رہا ہے اس لئے تاریخ میں انکے منفرد اوراعلی مقام کو انکے مختصر سیاسی کردار کے حوالے سے معین کرنا مناسب نہیں ہو گا۔
حوالہ جات۔
۔۱۔ “زندہ رود” مصنف ڈاکٹر جاوید اقبال۔ ۲۔ “پاکستان کیسے بنا“مصنف، زاھد چوھدری۔ 3۔”اقبال کے آخری دو سال“مصنف، عاشق حسین بٹالوی۔ 4۔“تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ” مصنف، ڈاکٹرسرفراز حسین اورحنیف شاہد۔ ناشر نظریہ پاکستان ٹرسٹ۔ 5۔“مسلم لیگ کا قیام” مصنف، شریف ا لدین پیرزادہ۔
4 Comments