بیرسٹر حمید باشانی
کچھ لوگ اداس ہیں۔کچھ غصے میں ہیں۔ کچھ صدمے سے دوچار ہیں۔اور کچھ خوشی سے ناچ رہے ہیں۔ڈونلڈٹرمپ کی جیت کا جشن بنا رہے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت اور ہیلری کی ہارپر جو کچھ ہو رہا ہے یہ اس پہلے کسی امریکی انتخابات میں نہیں ہوا۔
ہر طرح کا ردعمل سامنے آ رہا ہے اور اس ردعمل میں سب کے لیے دلچسپی کا کوئی نہ کوئی سامان ہے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں ٹرمپ نہیں جیتا بلکہ ہیلری کلنٹن ہاری ہے۔ان کے نزدیک اس انتخابی پراسس میں نہ تو کوئی نظریات کی جنگ تھی اور نہ ہی کوئی اصولوں کی لڑائی۔
یہ باب اس وقت بند ہو گیا تھا جب ڈیموکریٹس نے برنی سینڈر پر ہیلری کلنٹن کو ترجیح دی۔اس کے بعد لڑائی رہ گئی تھی صرف دو شخصیات کے درمیان جن کی زندگی کا مقصد صرف وائیٹ ہاوس کی چابی تھی۔عوام کی ایک بڑی تعداد ہیلری کلنٹن سے نفرت کرتی تھی۔اور اس نفرت کی دو بڑی وجوہات تھی۔ایک وجہ اس خاتون کا ماضی تھا،اور دوسری وجہ موجودہ انتخابی مہم۔
ماضی میں ہیلری کا سیاسی موقف اور عمل، ملکی اورعالمی ایشوز پر کوئی زیادہ منصفانہ اور مدابرانہ نہیں رہا ہے۔ماضی کی خاتون اول ہونے کے علاوہ وہ سیکریٹری آف سٹیٹ جیسے اہم اور طاقت ور عہدے پر فائز رہی ہیں۔وہ اپنی اس حیثیت میں بہت کچھ کر سکتی تھیں، مگر ان کے پورٹ فولیو میں کوئی بھی ایسی چیز نہ تھی جسے وہ فخر سے عوام کے سامنے رکھ سکیں۔اس کے بجائے عوام ان کو شکی نظروں سے دیکھتے تھے۔ ۔کچھ ان کو مکار اور بدعنوان بھی سمجھتے تھے۔اور وائٹ ہاوس کی چابی ان کے اتھ میں دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔
موجودہ انتخابات میں اس کاخاتون کے اردگرد ایسے لوگ جمع ہو گئے تھے جو بہت زیادہ نیک نام نہیں تھے۔کچھ لوگ تو یہاں تک بھی کہتے تھے کہ کچھ اسلامی بادشاہتیں اور روگ ریاستیں اپنے لوگوں کے ذریعے ان کی انتخابی مہم میں چندہ دلوا رہی ہیں۔اور کچھ سیدھا یہ کہتے تھے کہ ہیلری کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے۔ وہ سٹیٹس کو کی علامت اور علمبردار ہیں۔اور اس کو ووٹ دینا ووٹ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
لوگوں کے لیے ٹرمپ بھی کوئی محبوب رہنما نہیں تھا۔مگر ہیلری کی وجہ سے وہ ان کی پسندیدہ مجبوری بنتا گیا۔اوپر سے اس نے عوام کی کچھ دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھنا شروع کر دیا۔ایک دکھتی رگ آوٹ سورسنگ ( مینو فیکچرنگ کا کام دوسرے ممالک منتقل کرنا) تھی جس کی وجہ سے مزدور طبقہ سب سے زیادہ متاثر اور پریشان تھا۔
امریکہ کے ہائی سکول ڈراپ آوٹ لوگوں کے لیے یہاں کی آٹو اندسٹری روایتی طور پر اپنا امریکی خواب پانے کا ایک بڑا ذریعہ رہی ہے۔یہ خواب اس وقت چکنا چور ہونا شروع ہو گیا جب اس انڈسٹری نے سستے مزدور کی تلاش میں میکسیکو کا رخ کیا۔ڈونلڈ نے جب فورڈ فیکٹری کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہا کہ اگر یہ لوگ پلانٹ میکسیکو میں لگائیں گے تو میں ان کی کاروں کو امریکہ میں لانے پر پینتیس فیصد ٹیکس لگا دوں گا تو در اصل اس نے امریکہ کے لاکھوں مزدوروں کی دکھتی رگ پر رہاتھ رکھا۔
اور جب اس نے ایپل سے کہا کہ تم اگر آئی فون چین میں بناؤ گے تو امریکہ میں آسانی سے نہیں بیچ سکو گے تو اس نے امریکہ کہ لاکھوں بے روزرگار ہوتے ہوئے آئی،ٹی والوں کی دکھتی رگ چھیڑی۔ اس نے ایک ایک کر کے نیٹو سے لیکر روس تک، اور اسلامی ریاستوں سے لیکر دہشت گردی کے سوال پر اور یورپ سے لیکر چین تک منڈی کے حوالے سے کئی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھا۔اس طرح وہ ایک ایک کر کے دکھتی رگیں چھیڑتا گیا اور ٓگے برھتا گیا، یہاں تک کہ وہ وائٹ ہاوس میں داخل ہو گیا۔
اس بات کا ابھی تک کئی لوگوں کو یقین نہیں آرہا کیوکہ اس بات پر یقین کرنا آسان نہیں ہے۔یہ لوگ سوچتے تھے کہ امریکی عوام بھلا ایسے کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ ایک دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے، کھلے عام نسل پرست، سیکسسٹ اور زینوفائل کو وائٹ ہاؤس میں بٹھا دیں۔مگرا یسا ہو گیا۔ اب یہ ایک حقیقت ہے اور دنیا کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور یہ صرف ٹرمپ اور وائٹ ہاوس کی بات نہیں ہے۔امریکی عوام نے تقریبا ہر جگہ اپنے گارڈ زبدلے ہیں۔
کانگرس سے لیکر ایوان نمائندگان تک انہوں نے ریپلکن بٹھا دئے ہیں۔اب یہ لوگ انتطامیہ بھی اپنی بنائیں گے اور عدالتوں مین جج بھی اپنے بٹھائیں۔اب اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ امریکہ میں لبرل اور ترقی پسند نظریات کو سخت دھچکا لگا ہے۔اب کچھ عرصے کے لیے امریکہ میں قدامت پسند نظریات کو فروغ ملے گا۔لبرل ویلیوز کو نقصان پہنچے گا۔
لیکن اس کے باوجود امریکہ میں اندرونی طور پرکسی بڑی اور نمایاں تبدیلی کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔امریکہ کا موجودہ سماج، ویلیوز اور طرز زندگی کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری اور مضبوط ہیں۔محض حکومتوں کی تبدیلی یہاں کسی بنیادی تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتی۔
البتہ عالمی سطح پر کچھ نا خوشگوار تبدیلیوں اور ایک نئی سرد جنگ کے آغاز کے امکانات ضرور ہیں۔اور امریکہ عالمی سطح پر زیادہ سخت اور جنگ باز پالیسیاں اختیار کر سکتا ہے۔
♦