غلام رسول
اسلام ایک عالمگیر ضابطہ حیات ہے، اس کے قوانین ہر خطے کے مسلمانوں پر بلا تخصیص رنگ و نسل لاگو ہوتے ہیں۔ اسلامی شریعت کے مطابق مرتد کی سزا موت ہے۔ کوئی مسلمان جو مسلمانوں کے گھر پیدا ہوا ہو یا وہ غیر مسلمان پیدا ہونے کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوا ہے، اسے مذہب چھوڑنے کی صورت میں سزائے موت کا سامنا ہو گا۔
چونکہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے لہذا مجرم کو تین دن کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے اسے جرم سے تائب ہو کر دوبارہ امت مسلمہ کا حصہ بن جائے، ناکامی کی صورت میں ایسے ملعون کا سر قلم کیا جا سکتا ہے۔
مرتد کی سزا موت کے حوالے سے موریطانیہ نامی ایک افریقی ملک میں مقدمہ پیش ہوا ہے، جو ہمارے ملک کے جنید حفیظ نامی ایک پروفیسر کے مقدمے سے کافی ملتا جلتا ہے۔
موریطانیہ کے ایک اسلامی ادارے نے 29 سالہ محمد شیخ اُولد مخائتر نامی بلاگر کیلئے ارتداد کے جرم کی بنا پر سزائے موت تجویز کر دی ہے۔ مخائتر بلاگر ہونے کے علاوہ ایک انجنئیر ہیں۔ انہوں نے سنہ 2000 میں ”مذہب، مذہبیت اور کاریگری“ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا۔ جس میں انہوں نے ملک میں جاری غلامی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ مضمون دسمبر 2013ء میں لکھا گیا۔
انٹرنیشنل ہیومنسٹ اینڈ ایتھکس یونین کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ غلام موریطانیہ میں پائے جاتے ہیں۔ اور غلامی کے ادارے کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر جائز ٹھہرایا جاتا ہے۔ یاد رہے یہ وہی اسلامی ملک ہے جہاں سے سعودی شیخ پانچ چھ سالہ بچیوں کو خرید کر لاتے ہیں، اور وہ بچیاں استعمال ہونے کے بعد جب اوورایج یعنی سترہ اٹھارہ سال کی ہو جاتی ہیں تو انہیں گھر سے نکال دیتے ہیں، جس کے بعد وہ جسم فروشی کی کمائی سے اپنا پیٹ پالتی ہیں۔
اگرچہ مخائتر حکومت کا کبھی بھی بڑا نقاد نہیں رہا، لیکن پھر بھی اس کے مضمون کو اسلام اور رسول کریم کی بے حرمتی کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ دسمبر 2013ء میں لکھے گئے مضمون کے نتیجے ملک کی کرمنل کوڈ کی شق 306 کے تحت مخائتر کو 2 جنوری 2014ء کو گرفتار کر لیا گیا، اور اسے تب سے قید میں رکھا گیا ہے۔ جس میں ایک سال کی قید تنہائی بھی شامل ہے۔
تئیس 23 جون 2014ء کو مقدمے کا آغاز ہوا۔ حکومتی جماعت اور اپوزیشن جماعت کے ارکان کے علاوہ مساجد کے اماموں، علماء اور پروفیسروں نے مہم چلائی کہ مقدمے کا فیصلہ جلدی کیا جائے اور مخائتر کو سزائے موت دی جائے۔
ملک کے صدر محمد اُلد عبدالعزیز نے بیان دیا ” جو بھی ایسا مضمون شائع کرے یا رسول کی بے حرمتی کرے گا، ہم اس کے خلاف خدائی قانون استعمال کریں گے“۔ ابی اُلد علی نامی ایک مبلغ نے اعلان کیا کہ جو بھی مخائتر کو قتل کرے گا اسے چار ہزاربرطانوی پاؤنڈز انعام دیا جائے گا۔ ایک بزنس مین نے اسی کام کیلئے دس ہزار پاؤنڈز کے انعام کا اعلان کیا۔ بے حرمتی کرے گا مخائتر نے اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کی بہت کوشش کی کہ اس کا قطعاً ایسا کوئی مقصد نہ تھا اور نہ ہی اس نے اسلام اور رسول کریم کی بے حرمتی کی ہے۔
اگر چہ ملکی قانون مرتد کو تین دن کی مہلت دیتا ہے کہ وہ اس دوران توبہ کر کے دوبارہ مذہب میں داخل ہو جائے اور جو ایسا نہ کرے اسے 1960ء سے رائج قانون کے تحت سزائے موت دے دی جائے۔ توبہ کرنے کے باوجود 24 دسمبر کو مخائتر کو سزائے موت سنا دی گئی۔ مخائتر نے عدالت کو لکھا کہ اس کا اسلام کی تضحیک کا قطعاً کوئی ارادہ نہ تھا لیکن اپریل 2016ء کو عدالت نے مخائتر کی معافی کی درخواست رد کر کے سزائے موت بحال رکھی۔
مخائتر اس وقت قید تنہائی کاٹ رہا ہے، کسی کو ملاقات کی اجازت نہیں ہے۔ موت کی دھمکیوں کے ڈر سے وکیل مخائتر سے کتراتے ہیں اور کوئی بھی وکیل اس کی اپیل کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کی کئی تنظیموں کے علاوہ ایمنیسٹی انٹرنیشنل بھی کوشش کر رہی ہے کہ مخائتر کی سزا ختم کرنے کے علاوہ ارتداد کی سزا کا قانون ختم کیا جائے۔ گو 1987 سے کسی کو ارتداد کی وجہ سے موت کی سزا نہیں ہوئی لیکن مخائتر کے سلسلے میں عوام، اماموں اور علما کا بہت زیادہ دباؤ ہے کہ مخائتر کو ہر صورت پھانسی دی جائے۔
♦
One Comment