آصف جاوید
ان سطور کے لکھے جانے تک بلوچستان کے ضلع خضدار میں دربار حضرت شاہ نورانی میں دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے زائرین کی تعداد 52 ہو گئی ہے، جب کہ شدید و معمولی زخمیوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ دربار میں ہفتے کی شام منعقد ہونے والی محفلِ دھمال میں بم دھماکے کی جگہ پر تقریبا 600 سے زائد زائرین موجود تھے۔دربار پر روزانہ غروب آفتاب سے کچھ دیر قبل دھمال ہوتا ہے، ہفتہ اور اتوار کو کراچی سے کثیر تعداد میں عقیدت مند لوگ درگاہ پر آتے ہیں جس کے باعث ویک اینڈ پر زائرین کی بڑی تعداد دربار پر موجود رہتی ہے۔
دربار شاہ احمد نورانی کے بارے میں شاید کسی کو اتنا معلوم نہ ہو، مگر اولیاء اکرام اور صوفیوں و بزرگانِ دین کے عقیدتمندوں کے لئے یہ جگہ ایک تقدّس کا درجہ رکھتی ہے۔ مرجّع ِ خلائق خاص و عام ہے، یہاں لوگ اپنی مرادیں پاتے ہیں، چادریں چڑھاتے ہیں، زیارت کے لئے دشوار گزار کچّے پہاڑی راستوں سے گزر کر دربار شاہ نورانی تک پہنچتے ہیں، کئی کئی دن قیام کرتے ہیں لنگر پکا کر بانٹتے ہیں۔ محفل سماع اور محفلِ دھمال منعقد کرتے ہیں۔
یہ شاید یہ بنیاد پرستوں اور انتہا پسندوں مسلمانوں کے اسلام سے مختلف قسم کا عقیدہ رکھنے والے لوگ ہوں، مگر ایک بات طے ہے کہ یہ سب زائرین تھے، دہشت گرد ہرگز نہیں تھے۔ ایک بات بتانا بہت ضروری ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان رہنما، بلاول بھٹّو زرداری کی پیدائش پر اُن کا نام ، اُن کی ماں محترمہ بے نظیر بھٹّو نے اِن ہی حضرت بلاول شاہ نورانی کی نسبت سے اپنی عقیدت کے اظہار کے لئے رکھا تھا۔
پاکستان مین صوفیاء اکرام کے مزارات ، اور عبادت گاہوں پر بم دھماکے کونئی بات نہیں ہے، اس سے پہلے کراچی میں عبداللہّ شاہ مزار کلفٹن اور ، حضرت داتا گنج بخش مزار لاہور ، مسیحیوں، ہندووں، احمدیوں، اور شیعہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں، زیارتوں، مذہبی جلوسوں، مذہبی جلسوں میں بم دھماکے اور بڑے پیمانے پر معصوم انسانی جانوں کی ہلاکتیں ہوتی رہی ہیں۔
ہماری ریاست کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے، مگر ہماری نظر میں یہ ایسی ہی جنگ ہے جیسی کہ سگریٹ کی ڈبیہ پر لکھی وارننگ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سگریٹ کے پیکٹ پر لکھا ہوتا ہے تمباکو نوشی مضر صحت ہے ، مگر سگریٹ کے پیکٹوں کی پروڈکشن ، سیل ، مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
ہم اپنی ریاست کے اس دعوے یعنی ” دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے ” کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ قوم اب ریاست پاکستان کے کسی دعووں اور وعدوں پر یقین کرنے کو تیّار نہیں ہے۔ قوم لاشیں اٹها اٹها کر تهک چکی ہے۔ اور یہ قوم اب اپنے اثاثہ جات کی ہر “کامیاب واردات” کے بعد جی ایچ کیو میں ہونے والی ہنگامی میٹنگز جیسی “ریاستی کارروائی” سے بہلنے والی نہیں ہے۔ اور نہ ہی آئی ایس پی آر اور وزیر داخلہ کی طرف سے اس واردات کے کُھرے “ازلی دشمن” بھارت یا پھر “ازلی ویری” افغانستان میں جا کر تلاش کرنے جیسی پھُرتیوں کو گھاس ڈالنے والی ہے۔
درگاہ شاہ نورانی پر دھمال ڈالتے ہوئے ریاست کے “تزویراتی اثاثہ جات” کی بربریت کا نشانہ بننے والی 52 لاشوں اور 150 سے زائد زخمیوں کا خون مرکز اور باقی تین صوبوں پر ناجائز قابض نام نہاد سیاست دانوں سمیت راولپنڈی اور آبپارہ میں براجمان دہشت گردوں کے اصلی تے وڈے سہولت کاروں، سرپرستوں اور پالنہاروں پر مشتمل سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ سے پر زور مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے نام نہاد “ضربِ عَضب“، اور کاغذوں تک محدود اپنے “نیشنل ایکشن پلان” اور دہشت گردی کی بیخ کنی کے اپنے تمام تر جهوٹے دعووں کو صرف اور صرف “ڈرامہ بازی” تسلیم کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگ کر اپنے اپنے عہدوں سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا اعلان کر دیں۔
کیونکہ حال ہی میں سامنے آنے والی ڈان لیکس نے آپ پر اب تک اندھا اعتماد کرنے والی قوم کی بند آنکھیں کھول کر اس پر واضح کردیا ہے کہ آپ وردی میں ہوں یا سادہ کپڑوں میں آپ سب کی ترجیحات روز اول سے آج تک صرف اور صرف “وار آن ٹیرر” کے معاوضے میں ملنے والے ڈالرز کی بندر بانٹ اور اس میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ بٹورنے کے چکر میں، اس جنگ میں ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے اور ایک دوسرے پر اپنے اپنے چہیتے دہشت گردوں کی سہولت کاری اور ان کی سرگرمیوں پر چشم پوشی کے الزامات دهرنے کے علاوہ ان “تزویراتی اثاثہ جات” کے خلاف کسی قسم کی سنجیدہ اور نتیجہ خیز کارروائی پر کبهی رہی ہی نہیں۔ لہذا قوم کو اب مزید دھوکا نہ دیں۔وما علینا الالبلاغ
♦
3 Comments