اسرائیلی مساجد میں لاؤڈسپیکر پر پابندی پر غور

The Dome of Rock is seen in the background as Palestinian men pray on the compound known to Muslims as Noble Sanctuary and to Jews as Temple Mount in Jerusalem's Old City, on the first Friday of the holy month of Ramadan July 12, 2013. Israeli police said that Palestinian males over the age of 40 would be freely permitted to enter the compound in Jerusalem's Old City on Friday. REUTERS/Ammar Awad (JERUSALEM - Tags: RELIGION)

اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو ایک تجویز کی حمایت کر رہے ہیں جس کے تحت مساجد میں لاوڈسپیکر کے استعمال کو محدود کیا جا سکے گا۔

انھوں نے کہا ہے کہ انھیں شور اور تکلیفکی شکایات موصول ہوئی ہیں۔

اتوار کی رات ایک حکومتی کمیٹی اس منصوبے کے بارے میں ایک مسودۂ قانون کی تشکیل پر بحث کرے گی۔

اسرائیلی میڈیا نے کہا ہے کہ اس اقدام سے مساجد کو لاؤڈسپیکر پر پانچ وقت اذان دینے سے روکا جا سکے گا۔

ناقدین نے کہا ہے کہ اس غیرضروری طور پر تفرقہ پیدا ہو گا۔

شور محدود کرنے کے قانون کا اطلاق تمام مذاہب پر ہو گا لیکن اس کا زیادہ اثر مسلمانوں کی جانب سے مساجد کی دی جانے والی اذانوں پر پڑے گا۔

اسرائیلی میں ساڑھے 17 فیصد کے قریب عرب بستے ہیں اور ان کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ نامی ایک تھنک ٹینک کی نسرین حداد حج یحییٰ نے اس پر تنقید کرتے ہوئے ایک مقامی اخبار میں لکھا کہ اصل مقصد شور کم کرنا نہیں ہے بلکہ شور پیدا کرنا ہے جس سے تمام معاشرہ اور یہودیوں اور عربوں کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی کوششیں متاثر ہوں گی۔

وزیرِ اعظم نتن یاہو نے کابینہ کے اجلاس میں کہا: ‘میں بتا نہیں سکتا کہ مجھ سے کتنی بار اسرائیل کے طول و عرض اور تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے مذہبی مقامات پر نصب لاؤڈ سپیکروں سے نشر ہونے والے شور کی شکایت کی ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ اسرائیل ہر کسی کو شور سے بچانے کے لیے پرعزم ہے۔

BBC

One Comment