پاک چائنا اقتصادی راہداری، خود بلوچ کیا چاہتے ہیں؟

asif-javaid4-252x300آصف جاوید

پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبہ ، ریاست پاکستان کی اوّلین ترجیحات میں شامل ہے۔ ریاست اس منصوبے کو مکمّل کرنے کے لئے ، ہر حد پار کرنے کو تیّار ہے، ہر رکاوٹ ڈھانے کے لئے تیّار ہے،  اس منصوبے  سے اتّفاق نہ کرنے والی ہر آواز کچلنے کے لئے تیّار ہے۔  اس منصوبے پر پر  کسی بھی قسم کے تحفّظات ظاہر کرنے وا لا  ہر فورم، ہر شخص ریاست کی نظر میں پاکستان کا غدّار اور انڈیا کا ایجنٹ ہے۔  ایسا کیوں ہے ؟ ۔ آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ماضی میں چلتے ہیں۔

مجھے اچھّی طرح یاد ہے،  اسّی کے عشرے کے بالکل ابتدائی دنوں کی بات ہے، میں تازہ تازہ یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہوا تھا۔ میر ا یونیورسٹی کا ایک دوست، جو کہ  مذہبی تنظیم جماعت اسلامی کے طلباء ونگ،  اسلامی جمعیت طلباء  کا ، کارکن تھا،  اور اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر   افغانستان  میں ، روس سے جہاد کرنے گیا ہوا تھا، ایک دن اس کی موت کی خبر آئی،   دو  تین دِن  بعد اس کی لاش بڑے احترام سے جماعت اسلامی کے کارکن شدید نعروں کی گونج میں ہمارے محلّے کی مسجد میں نماز جنازہ کے لئے لائے۔  نمازِ جنازہ کے بعد، جماعت  اسلامی کے جہادی ملاوں نے پر جوش تقاریر کیں۔

ان کی تقاریر میں جو بات واضح تھی وہ یہ تھی کہ   روس  کافر ملک ہے،  روس کے ساتھ جہاد مسلمانوں پر فرض ہے، اور جو اس جہاد میں روس سے لڑتے ہوئے مارا جاتا ہے، وہ شہید ہے ۔ روس افغانستان پر قبضہ اور کراچی اور بلوچستان کے ساحلوں کے گرم پانی تک پہنچنا چاہتا ہے، روس،  کراچی اور گوادر کے سمندر کو اپنے قبضے میں لینے کے بعد گوادر پر ایک بندرگاہ تعمیر کرنا چاہتا ہے تاکہ وسط ایشیاء کی روسی ریاستوں کو  گوادر کے سمندر کے گرم پانیوں تو رسائی مل سکے۔ 

 جب بھی میں پاک چائنا اقتصادی راہداری کے بارے میں کو ئی ٹی وی ٹاک شو دیکھتا ہوں یا اخبارات اور رسائل میں اس بارے میں کوئی مضمون پڑھتا ہوں، تو مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ پاکستان نے کم از  کم  ایک عشرے تک افغانستان میں روس سے برہِ راست جنگ لڑی۔  روس نے دسمبر 1979 میں ، افغانستان میں اپنی فوجیں،  افغان خانہ جنگی کو کچلنے کے لئے داخل کی تھیں۔  فروری 1989 میں روس افغانستان سے شکست کھا کر نکل گیا تھا،  اور 12 دسمبر 1991 کو اقتصادی بدحالی کا شکار ہوکر  ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گیا تھا ۔  پھر اس کے بعد ہم آج تک افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے کے چکّر میں ، پہلے مجاہدین اور اب طالبان پالتے رہے۔

کوئی 36 سال گزرگئے، پورا پاکستان دہشت گردی ، منشّیات ، اسلحہ اور افغان مہاجرین ، میں پھنس کر رہ گیا ہے۔  نہ آج تک افغانستان میں امن  قائم ہوا نہ ہی  پاکستان میں۔ بلکہ اب دونوں ملکوں میں دہشت گردی اور منشّیات اور اسلحہ کا راج ہے۔ بارڈر کے ایک طرف اچھّے طالبان اور بارڈر کے دوسری طرف بُرے  طالبان ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں۔

ایسے میں ریاست  پاکستان اور اس کے ریاستی دانشوروں نے ، جو  ماضی میں روس کی گرم پانیوں تک پہنچنے کی ڈاکٹرائن لے کر  آئے تھے،  اور پورے پاکستان کو افغان جنگ کی آگ میں دھکیل دیا تھا، اب پاک چائنا اقتصادی راہداری کی ڈاکٹرائن  لے کر آئے ہیں۔   وہ گرم پانی جس کے لئے  افغان جنگ میں  20 لاکھ افراد مارے گئے، اور کروڑوں بے گھر ہوئے،  اس  ہی گرم پانی کو ہماری ریاست نے پیالے میں بھر کر چائنا کو پیش کردیا ہے۔

  ہم عجیب اور غریب قوم ہیں ،ہماری ریاست عجیب و غریب نظریات گھڑتی ہے، پھر ان نظریات کو  بزورِ طاقت پورے ملک اور پوری قوم کو ماننے اور تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب  یہ ریاست پاک چائنا اقتصادی راہداری کی کا منصوبہ لے کر آئی تھی تو اس وقت کسی دانشور  یا کسی سیاسی لیڈر نے ریاست سے یہ سوال کیوں نہیں کیا  تھا کہ جب روس کو گرم پانی تک پہنچنے سے روکنے کے لئے دس سال جنگ کی گئی اور روس کو گرم پانی تک پہنچنے سے روکنے کے لئے پورے ملک کو  افغان جہاد کی جنگ کی  آگ میں جھونک دیا،  (آج  36 سال گزرنے کے بعد بھی اس غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں)، تو پھر   اب اپنا صوبہ (بلوچستان) اپنی بندرگاہیں  (کراچی اور گوادر)، اپنا سمندر   (بحیرہ عرب) سب کچھ ، کیوں  چین کے حوالے کیا جارہا ہے؟

کیا  ہم اتنی  ناکارہ قوم و ملک ہے جو کہ اپنے ہائی ویز، اپنے ریلوے ٹریک، اپنے ویئر ہاوسز، اپنی برتھیں، اپنی بندرگاہیں ،  خود نہیں بنا سکتے؟ بندرگاہیں بنانے اور ہائی ویز بنانے میں ایسا کونسا خام مال درکار ہوتا ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے؟  ایسی  کونسی خفیہ ایٹمی ٹیکنالوجی یا  راکٹ سائنس استعمال ہوتی ہے، جو ہمارے پاس نہیں ہے؟۔ 

یہ جھوٹ  کیوں گھڑا جاتا ہے کہ چین ہمارا دوست ملک  ہے، چین کی پاکستان سے دوستی، ہمالیہ سے بھی بلند ہے۔ جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ چین کی تہذیب الگ، ثقافت الگ، زبان الگ، مزاج الگ، رسم و رواج الگ،  لباس الگ، مذہب الگ، غرض کہ سب کچھ ہی الگ ہے۔   پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں ایک ہزار  آدمی  بھی ایسے نہیں ملیں گے جو چینی زبان   بول سکتے ہوں، چین کی تہذیب و ثقافت  کو اپنائے ہوئے ہوں، چینی زبان میں فلمیں دیکھتے ہوں،  چینی اخبارات و رسائل پڑھتے ہوں، چینی لوگوں کو اپنے  ذاتی دوست بنائے ہوں۔  چین کے لڑکوں اور لڑکیوں سے شادیاں کرکے گھر بسائے ہوں۔

دراصل یہ دوستی، دو ملکوں کی دوستی ہے،  دو ریاستوں کی دوستی ہے۔ ضرورتوں اور مفادات کی تکمیل کی دوستی ہے۔  یہ چینی عوام کی پاکستانی عوام سے دوستی نہیں ہے۔  ہمالیہ تو دور کی بات،  یہ دوستی تو فیصل آباد کے گھنٹہ گھر  سے بھی بلند نہیں ہے، یہ دوستی  ڈھکوسلےاور پروپیگنڈے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔  چین کے پاکستان کے ساتھ تجارتی مفادات ہیں۔  چین کو بلوچستان  کے مفلوک الحال لوگوں سے نہیں ، بلکہ بلوچستان  کے معدنی وسائل  سے دلچسپی ہے۔ اور   ریاستِ پاکستان کے اپنے مفادات ہیں۔

پاک چائنا اقتصادی راہداریکا منصوبہ  درا صل پنجاب چائنا اقتصادی راہداری  کا منصوبہ ہے، جو ریاست ِ پاکستان ، بلوچستان کے حقوق ، اور بلوچوں کےخون   کی قیمت پر   ہر صورت میں مکمّل کرنا چاہتی ہے ۔ پنجاب کے  پاس سمندر نہیں ہے، نہ ہی پنجاب سمندر اٹھا کر لے جاسکتا ہے، اس ہی لئے  ریاست ِ پاکستان، پاک چائنا اقتصادی راہداری کے اصل اور بنیادی منصوبے سے انحراف کرکے  راہداری کو  کراچی اور گوادر   کی بندرگاہ سے براہِ راست  پورے پنجاب   میں   گھوما پھرا کر  آگے لے جانا چاہتی ہے۔

 بلوچستان کے لوگ ، اپنے صوبے کے وسائل  اور اپنی بندرگاہ  کے فوائد و برکات سے یکسَر محروم ہیں۔ بلوچستان کے عوام ، وسائل و اقتدار میں منصفانہ شراکت اور اختیارات  کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ریاست ِ پاکستان کو ناگوار گزرتا ہے ۔ اس ہی لئے ریاست نے بلوچوں کے حقوق کی آواز کو کچلنے کے لئے بلوچوں کی نسل کّشی کا  ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔  بلوچستان میں ریاستی دہشت گردی کا راج ہے، بلوچ نوجوانوں  کو ریاستی ادارے جبری طور پر اغوا کرکے لے جاتے ہیں۔   پھر  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ نوجوان گمشدہ ہوجاتے ہیں۔ 

دوران حراست ان پر بے ہیمانہ تشدّد کیا جاتا ہے، ماورائے عدالت قتل کرکے ان نوجوانوں کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔  پاک چائنا اقتصادی راہداری کے منصوبے پر بلوچ سیاسی رہنماوں ، بلوچ دانشوروں، بلوچ سردار وں اور بلوچ عوام  کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں  کے شدید تحفّظات ہیں، جوہم پاک چائنا اقتصادی راہداری، خود بلوچ کیا چاہتے ہیں؟ کے عنوان سے دوسری قسط میں پیش کریں گے۔

 ♦

5 Comments