نصیر جسکانی
چین اپنی سست روری شکار معیشت کو ترقی دینے ، ایشیاء کی سپر پاور بننے اور اپنی معاشی ترجیحات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے خطے کے ممالک کے ساتھ تیزی کے ساتھ معاشی منصوبہ جات کو پایہ تکمیل تک پہچانے کیلئے فوری اقدامات کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں چین کئی بلین ڈالر کی خطیر رقم بھی خرچ کر رہا ہے تاکہ وہ اپنی صنعتی مصنوعات کو علاقائی اور عالمی منڈیوں تک باآسانی اور کم مالیت میں رسائی دے سکے۔
اس وقت چین کامشرقی حصہ جس میں چین کی کل آبادی کا تقریبا94 فیصد رہتا ہے،معاشی حوالےسے یہ حصہ خاصا ترقی یافتہ ہے ۔ یہ حصہ چین کے تقریبا” 37 فیصد رقبے پر مشتمل ہے ۔ اس کے برعکس چین کا مغربی حصہ چین کے کل رقبے کے تقریبا” 63 فیصد پر مشتمل ہے جبکہ وہاں چین کی آبادی کا صرف 6 فیصد آباد ہے۔چین کے مشرقی اور مغربی صوبوں کی جغرافیائی حدود کا تعین “ہو ہوین یونگ لائن” سے کیا جاتا ہے جو کہ 1930میں کھینچی گئی تھی جو چین کے صوبے تھنگ چونگ سے شروع ہو کر صوبے انخوئی تک ہے ۔
چین کے ان تمام معاشی اقدامات کا مقصد چین کے پسماندہ علاقوں کو ترقی کے دھارے میں لانا بھی مقصود ہے تاکہ تمام علاقوں میں معاشی یکسانیت کے عنصر کو پروان چڑھایا جا سکے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں بڑھتے ہوئے احساس محرومی کو بھی ختم کیا جا سکے۔اسی طرح چین کو دفاعی حوالے سے بھی مغربی علاقے کو ترقی دینا از حد ضروری ہے تاکہ جدید انفراسٹریکچر سے فوج کی تیز رفتار نقل و حمل کو یقینی بنایا جا سکے تاکہ کسی بھی جنگی صورت حال میں علاقے کے دفاع کو مستحکم کیا جاسکے۔
چین خطے کے پڑوسی ممالک میں کئی بلین ڈالرز کی لاگت سے چھ اقتصادی راہدریوں کے منصوبوں پر عمل درآمد کر رہا ہے ۔ ان اقتصادیوں راہداریوں میں پہلی راہداری پاک چین اکنامک کوریڈور ہے ، دوسری چین منگولیا اکنامک کوریڈور، تیسری چین سینٹرل ایشیاء، ایسٹ ایشیاء اکنامک کوریڈور، چوتھی چین انڈو چائنا پیننسیولا اکنامک کوریڈور، پانچویں چین بنگلہ دیش انڈیا اکنامک کوریڈور جبکہ چھٹی نیو ایروایشیاء لینڈ برج کوریڈور شامل ہیں۔
ان تمام راہداریوں کی تکمیل سے چین خطےمیں ایک سپر پاور کے طور پر ابھر کر سامنے آسکتا ہے جس سے وسیع آبادی کےاس ملک کی آراء کوبین الاقوامی اقتصادی امور میں ایک سندکا درجہ حاصل کرنے کےقویٰ اور روشن امکانات موجود ہیں ۔ ان اقتصادی راہداریوں میں حساسیت کے حوالے سے پاک چائنہ اکنامک کوایڈور زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے جس کی بنیادی وجوہات میں مختصر اور کم لاگت راستے کا انتخاب ، چین کےعلاقائی تنازعات ، چین کا پاکستان میں انفراسٹریکچر ز اوراقتصادی زونز قائم کرنا ،پاکستان کی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے کیلئے پاور پانٹ لگانا اور سب سے بڑھ کر گوارد سی پورٹ کی ٹیکنکل حیثیت ہے۔
تقریبا” 50 بلین ڈالر مالیت کا سی پیک منصوبہ جو گوادر سے کاشغرتک تقریبا” 2700کلومیٹر پر مشتمل ہے ۔ اس منصوبے سے چائنہ کا لگ بھگ 12000 کلومیٹر کافاصلہ کم ہو جائے گا۔ اگر ہم علاقائی تنازعات کو دیکھتے ہیں تو چین اپنی مصنوعات اور تیل کی برآمدات اور درآمدات کیلئے ساوتھ چائنہ سمندر کو استعمال کر رہا ہے ۔ یہ راستہ مشرق وسطیٰ اور سنٹرل ایشیاء کی ریاستوں تک رسائی کیلئے نہ صرف طویل ہے بلکہ علاقائی تنازعات میں بری طرح گھرا ہوا بھی ہے۔
ساوتھ چائنہ سمندر کے بہت سارے جزیروں جو پیراسیل ،سپرٹلس اور سکاربورف شیوال کے نام سے جانے جاتے ہیں ان پر چین کا جاپان، کوریا، ویت نام ، تائیوان اور فلپائن کے ساتھ تنازعات چل رہے ہیں ۔ساوتھ چائنہ سمندرکی ملکیت پر بھی علاقائی ممالک کے چین کے ساتھ شدید تنازعات ہے۔ چین اپنی تیل کی بیشتر مصنوعات مشرق وسطی ٰ کے ممالک جن میں سعودی عرب، ایران، عراق وغیرہ سے خریدتا ہے۔
یہ مصنوعات بحیرہ عرب سے ہوتےہوئے آبنائے ملاکہ اور ساوتھ چائنہ سمندر کے راستے شمالی چین کی کی بندر گاہوں ہانگ کانگ، تائیجن اور شنگھائی پہنچتی ہیں اور تیل سے بھرے بحری جہاز انہی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہوتے ہیں۔ کسی بھی شدید تنازعہ کی صورت میں چین مخالف ممالک جن میں ویت نام، تائیوان ، جاپان اور بھارت وغیرہ شامل ہیں چین کی درآمدات اور برآمدات کو متاثر کر سکتے ہیں۔ لہذا چین اس ممکنہ خطرے کو کم سے کم کرنا چاہتا ہے جس کے کیلئے سی پیک ایک بہترین آپشن ہے۔
چین کیلئے اس کی اہمیت اس کیلئے بھی ضروری ہے کہ چین اپنے مغربی پسماندہ علاقوں کو ترقی دینا چاہتا ہے جوکہ سمندر نہ ہونے کی وجہ سے تجارتی اور اوراقتصادی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کو خطے میں بیرورنی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے جو کہ پاکستان کی کمزور اور نڈھال معیشت میں جان ڈال سکے۔ اس حوالے سے چین سے زیادہ بہتر اور قابل اعتماد ملک پاکستان کیلئے کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔ توانائی کے حوالے سے بہت ساری چینی کمپنیاں اس وقت کول، سولر ، ونڈ اور ہائیڈرو منصوبوں پر پاکستان میں کام کر رہی ہیں۔
اسی طرح ٹیکنیکل اعتبار سے بھی گوارد کی بندر گاہ ایک شاندار بندر گا ہ ہے ، ماہرین کے مطابق یہ بندرگاہ کیلی فورنیا میں دنیا کی سب سے بڑی پورٹ سے بھی تقریباً 2 گنا بڑی ہوگی اور گوادر کی بندرگاہ سے افریقہ، ایشیا اور یورپ کے تقریبا” 90 ممالک سے تجارت ممکن ہوجائے گی۔ اس منصوبے کی افادیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایران اور افغانستان بھی سی پیک میں شمولیت کےلئے اپنی خواہشات کا اظہار کر چکے ہیں لیکن بھارت گوادربندرگاہ کی بھرپومخالفت کر رہا ہے۔
اس کی کئی وجوہات ہیں ایک وجہ بھارت کی پاکستان سے تاریخی رقابت ہے جبکہ دوسری گلگت بلتستان جو کہ کشمیر کا حصے رہا ہے اس پر پاکستان اور بھارت کا ایک تنازعہ چلا آ رہا ہے اور یہ منصوبہ گلگت کے راستے چین میں داخل ہو رہا ہے۔ جبکہ تیسری وجہ چین کی علاقے میں بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کو بھی بھارت اپنے کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج خیال کرتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے بھارت کی سفارتی محاذ آرائی ، لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی ، بلوچستان میں مداخلت اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ یہ منصوبہ بھارت کو ناگوار گزر رہا ہے ۔
اس حوالےسے پاکستان کی تمام علاقائی اور ملکی سطح کی سیاسی اکائیوں اورعسکری قیادت میں یک جہتی ہونا اس منصوبے کیلئے از حد ضرور ی ہے۔ اس کے ساتھ چھوٹے صوبوں کے تحفظات کو دور کرنا اور پاکستان کے پسماندہ علاقوں کو اس منصوبے کا حصہ بنانا بھی بہت لازم ہے۔ اندرونی سلامتی کو چیلنج کرنے والے کالعدم جہادی مسلح لشکروں کو تھپکی دینے کی بجائے لگام دینا بھی ضروی ہے تاکہ یہ بکاو دہشت گرد جتھے اقتصادی راہداری کی سیکورٹی کو چیلنج نا کر سکیں ۔
ان اقدامات کی بدولت ہی یہ منصوبہ کامیابی کے ساتھ ا پنے پایہ تکمیل کوپہنچ سکتا ہے اور مستقل بنیادوں پر کام کر سکتاہے ۔ گمان غا لب یہی ہے کہ اس منصوبہ سے خطے میں امن اور ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو نے والا ہے، جو کہ خطے میں مثبت اقتصادی تبدلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔
بلاگر نصیر جسکانی یونیورسٹی آف سائنس اور ٹیکنالوجی آف چائنہ کے شعبہ پبلک پالیسی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔
♦
نوٹ: محترم جسکانی صاحب براہ مہربانی نیا زمانہ سے ایسی مستند دستاویز یا نیوز رپورٹ ( جو انڈین میڈیا یا انٹر نیشنل میڈیا میں شائع ہوئی ہو ) شئیر کریں جس میں بتایا گیا ہو کہ انڈیا سی پیک اور گوادربندرگاہ کی مخالفت کر رہا ہے،(ایڈیٹر)۔