آصف جاوید
امیر ، غریب یہ وہ دو طبقات ہیں جو دنیا میں ازل سے ہی آباد ہیں۔ امیری اور غریبی کے فرق کو ختم کرنے کی کوششیں ہر ذی شعور معاشرے میں ہوتی ہیں۔ مگر یہ خالصتا معاشی اور سماجی مسئلہ ہے، اس مسئلہ کی حَرکِیات پر اگر گفتگو شروع کی جائے تو کبھی ختم نہیں ہوگی۔
ہمارا آج کا موضوع ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کے دیرینہ مسئلے امیری اور غریبی کے طبقاتی فرق کی ضمنی پیداوار یعنی طبقاتی نظامِ تعلیم ، طبقاتی نصاب، اور تعلیم کی زبوں حالی سے متعلّق ہے۔ ترقّی یافتہ ممالک نے جہاں اپنے اپنے ممالک میں امیر وغریب کے طبقاتی فرق کو ختم کرنے کے لئے مثالی معاشی نظام قائم کئے ہیں، وہاں اپنے سماجی نظام بھی اس طرز پر قائم کئے ہیں کہ بنیادی انسانی ضروریات کا ایک کم سے کم معیار مقرّر کرکے بنیادی انسانی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ہر سطح پر بلا امتیاز ہر شہری کوان سہولتوں کی فراہمی ریاستی ذمّہ دار کے طور بلا امتیاز فراہم کی جاتی ہے۔
تعلیم و صحت ایسی دو بنیادی انسانی ضروریات ہیں ، جن کو دنیا کا ہر ملک اپنے باشندوں کو ریاستی ذمّہ داری کے طور پر ادا کرتا ہے۔ آپ برطانیہ، فرانس ، جرمنی، امریکہ، کینیڈا کسی بھی ترقّی یافتہ ملک میں چلے جائیں آپ کو یکساں نظامِ تعلیم اور یکساں نظامِ صحت کی برکات ،معاشرے کے نمایاں پہلو کے طور پر نظر آ ئیں گی۔ ان ممالک میں ریاست کی طرف سے یکساں نظامِ تعلیم کے تحت ، معیاری تعلیمی ادار ےاور معیاری تعلیمی نصاب، کے تحت تعلیم ، ہر طالب علم کے بنیادی حق کے طور پر دی جاتی ہے۔
پاکستان میں ریاست نے تعلیم کو حقیقی اہمیت کبھی نہیں دی۔ آج بھی 22 کروڑ کی آبادی کے ملک میں قومی آمدنی یعنی جی ڈی پی کا صرف دو اعشاریہ چھ فیصد تعلیم کے لئے مختص ہے ، جبکہ ترقّی یافتہ ممالک میں قومی آمدنی سے سب سے زیادہ حصّہ تعلیم، صحت اور بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے خرچ کیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک کی بدنصیبی دیکھیں کہ آج دنیا کی چھٹی عظیم فوج رکھنے اور ایٹمی طاقت بننے کے باوجود ہماری ستّر 70 فیصد عوام پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ ملک میں جہالت کا دور دورہ ہے، جہالت غربت کی ماں ہوتی ہے، جاہل کے پاس نہ تو تعلیم ہوتی ہے ، نہ ہی ہنر، نتیجے میں جاہل اپنی روزی بھی مناسب طریقے سے نہیں کما سکتا۔ دینا کے ترقّی یافتہ ممالک نے اپنے اپنے ملکوں سے غربت ختم کرنے کے پہلے جہالت کو ختم کیا ہے، جہالت کے خاتمے کے لئے یکساں معیاری تعلیم ، یکساں نصاب کے تحت فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمّہ داری ہے۔
پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے ، جس میں طبقاتی نظامِ معاشرت ، اِ س ملک کے پہلے دِن سے ہی ورثہ میں ملا۔ گذشتہ ستّر 70 سالوں میں کبھی اس طبقاتی فرق کو ختم کرنے کی کوئی ریاستی یا حکومتی کوشش کبھی نہیں کی گئی۔ اور طبقاتی نظامِ معاشرت کا منطقی نتیجہ، طبقاتی نظامِ تعلیم کی شکل میں آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ آج ہمارے ملک کے طبقاتی معاشرے میں کم سے کم چھ طبقاتی نظامِ تعلیم رائج ہیں۔
پہلا طبقہ :گاوں دیہات میں کسی پیڑ کے سائے یا کسی کچی کوٹھری کے فرش پر ٹاٹ یا چٹائی پر گندے سُندے کپڑوں میں بیٹھے معصوم بچّے ہیں جن کے ہاتھوں میں لکڑی کی تختیاں اور قلم دوات ہیں، ماسٹر جی عموما” تہبند پہنے، حقّہ گُڑگُڑاتے اور ہاتھ میں سُوٹی لئے گالیاں بکتے اور مار پیٹ کرتے تعلیم دے رہے ہوتے ہیں۔
دوسرا طبقہ: سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچّوں کا ہے۔ مشکل سے دس سے پندرہ فیصد سرکاری سکول کارکردگی کے لحاظ سے بہتر تعلیم دے رہے ہونگے ۔ کہیں سکول کی عمارت ہی ناپید ہوتی ہے۔ کہیں اُستاد ناپید ہو تے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی معاشرتی المیہ ہے۔ اور ہر جگہ سرکاری اسکول بھی نہیں ہیں۔
تیسرا طبقہ: محلّے کے چھوٹے ، بڑے گھروں میں قائم وہ پرائیویٹ اسکول ہیں جن کو غیر تربیت یافتہ اساتذہ ، کم فیس پر تعلیم دے رہے ہوتے ہیں۔ وہ غریب لوگ جو اپنے بچّوں کو پڑھا لکھا کر تعلیم یافتہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ سرکاری اسکولوں کی جگہ اپنے بچّوں کو یہاں بھیج کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔
چوتھا طبقہ: انگلش میڈیم سکول ہیں۔ یہاں لوئر مڈل کلاس کے اُن شہریوں کے بچے داخلہ لیتے جو زیادہ فیس ادا کرسکتے ہیں۔ اکثر ٹیچرز یہاں بھی عموماً غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں ۔ جو کم تنخواہ پر ملازم ہوتے ہیں۔ تمام مضامین کی کتابیں تو انگریزی میں ہی ہوتی ہیں لیکن ٹیچر پڑھاتے وقت زیادہ تر اُردو کا سہارا زیادہ لیتے ہیں ۔ ٹیچر طلبا سے بات چیت بھی اُردو میں ہی بات کرتے ہیں۔ اِن سکولوں کے بچے نہ انگلش میڈیم رہتے ہیں اور نہ ہی اُردو میڈیم رہتے ہیں۔ مگر مقامی بورڈ زسے اچھّے نمبروں میں پاس ہوتے ہیں۔ یہ خالصتاً کاروباری اسکول ہوتے ہیں۔ آج کل اِن کی تعداد مشروم کی طرح بڑھ رہی ہے۔
پانچواں طبقہ: یہ اپر مڈل کلاس ،امیر تاجروں ، اعلی سرکاری ملازموں اور زمینداروں کے بچوں کے سکول ہیں۔ یہ عموماً اے اور اے لیول اسکول ہوتے ہیں، جہاں یونیورسٹی سے نئے فارغ ہوئے نوجوان مرد و خواتین کو بطور اساتذہ نسبتا” بہتر تنخواہ پر ملازم رکھا جاتا ہے۔ جو خوش لباس ہونے کے علاوہ اچھّی انگریزی بولنے والے بھی ہوتے ہیں۔ بچّوں سے انگریزی ہی میں بات چیت کی جاتی ہے۔ کوئی اور زبان بولنے پر پابندی ہوتی ہے۔ گریڈ آٹھ تک تدریسی کتابیں ہر سکول کی اپنی مقرر کردہ ہوتی ہیں۔
مگر اے اور او لیول کا کورس کیمبرج یونیورسٹی لنڈن کے تحت پڑھایا جاتا ہے اور امتحان بھی برٹِش کونسل کے ذریعے ہوتا ہے۔ امیر ترین لوگو ں، معاشرے میں احساسِ تفاخر کے ساتھ جینے والے لوگوں اور انگریزی کلچر کے خواہاں لوگوں کے یہ پسندیدہ اسکول ہوتے ہیں۔ کچھ اسکول تو اتنے مقبول ہوتے ہیں کہ ان میں داخلہ حاصل کرنا معاشرتی فخر کی علامت ہوتا ہے۔ کچھ مقبول اسکولوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی طر ز پر اپنے فرنچائز بھی قائم کئے ہوئے ہیں۔
چھٹا طبقہ: یہ انتہائی مہنگے اور اعلیٰ ترین اشرافیہ کے بچوں کے لئے انتہائی محدود تعداد میں مخصوص سکول ہیں جہاں امریکی ذریعہ تعلیم رائج ہوتا ہے۔ طالبِ علم یونیفارم کی پابندیوں سے بھی آزاد ہوتے ہیں۔ یہ اسکول عموماً اسلام آباد کے ڈپلومیٹک زون سے باہر ، یا کراچی اور لاہور جیسے چند بڑے شہروں کے انتہائی پوش علاقوں میں ہوتے ہیں۔ یہاں امیر ترین لوگوں کے بچّوں کو بھی داخلہ بہت مشکل سے ملتا ہے، معاشرتی اسٹیٹس اور بلند تر معیارزندگی کے ساتھ ساتھ ماں باپ کا انٹرویو اور ان کی معاشرتی حیثیت کے بغیر یہاں داخلہ ناممکنات میں سے ہوتا ہے۔ ڈپلومیٹس اور اعلی‘ ترین سرکاری عہدیداران کے بچّے ہی یہاں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ یہاں کی دنیا ہی الگ ہے۔ یہاں صرف وہ ہی بچّے پڑھتے ہیں، جن کے ماں باپ ان کی علی‘ تعلیم، آسٹریلیا، امریکہ یا کینیڈا میں کروانا چاہتے ہوں۔
قارئینِ اکرام ، طبقاتی نظامِ تعلیم کی سب سے بڑی نحوست یہ ہے کہ یہ معاشرے میں اجتماعیت کی بجائے انفرادیت کو فروغ دیتی ہے۔ جس ملک میں طالبِ علموں کو طبقات میں بانٹ کر تعلیم دی جائے گی۔ وہاں طبقاتی تعلیمی نظام سے فارغ شدہ نوجوان صرف اپنی ذاتی بہتری اور ترقی کے لئے ہی کوشاں رہیں گے۔ اور معاشرے سے پلورل ازم یعنی معاشرتی اجتماعیت کے عنصر کا فقدان ہوجائے گا۔ اور ہم ایک قوم بننے کی منزل سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔
قارئین اکرام مضمون طویل ہوگیا، جبکہ ابھی ہم نے دینی مدرسوں اور کیڈٹ کالجز ، اور پر فضا پہاڑی علاقوں میں قائم اقامتی اسکولوں کو تو تذکرہ بھی نہیں کیا ہے۔ صرف طبقاتی نظامِ تعلیم کا تعارّف ہی ہوسکا ہے، بہر حال پاکستان میں طبقاتی نصاب اور عمومی تعلیم کی زبوں حالی پر گفتگو اگلے مضمون میں کرونگا۔
♣
2 Comments