سعید اختر ابراہیم
تخلیق عقل اور جذبے کا اعلیٰ ترین سنجوگ مانگتی ہے۔ اس عمل میں جذبہ طاقتور انجن اور عقل آنکھوں کا کام کرتی ہے۔ تخلیقی عمل سے زیادہ اعلیٰ پائے کی مصروفیت ممکن ہی نہیں۔ یہ نہ صرف انسان کو بہت سے روٹین کے جھنجھٹوں سے مُکت کر دیتی ہے بلکہ اس پر ایک سرشاری کی کیفیت طاری کردیتی ہے۔ اس پر ہمہ وقت کچھ نیا کرنے کی دھن سوار رہتی ہے۔ مسلسل سوچنے اور ذہن کو مرتکز کرنے کے نتیجے میں اس کی ذات میں وجدان کی صلاحیت بیدار ہو جاتی ہے۔ دھیان رہے کہ وجدان کوئی مافوق الفطرت مظہر ہرگز نہیں ہے۔آپ کسی بھی معاملے کو مکمل انہماق اور جذبے کے ساتھ سوچنا شروع کردیں، آپ کو بھی وجدان کا تجربہ ہوجائے گا۔
کسی بھی علمی معاملے پر مسلسل غور و فکر سے انسان میں فکری گہرائی اور وسعت پید اہوتیہے۔ چھوٹے اور محدود ذہن کے آدمی کے لیے چھوٹے چھوٹے مسائل بھی پہاڑ جیسے بڑے بن جاتے ہیں۔ یہ مسائل اس کے ذہن کو الجھا کر مزید محدود اور بیکار کردیتے ہیں۔ اور یوں وہ حقیقی خوشی کا مفہوم جاننے میں ناکام رہتا ہے۔ اس کے لیے خوشی یوں ہوتی ہے جیسے بے انت اور بے تھا سمندر کی سطح پر بننے والا بلبلا جس کی زندگی لمحاتی ہوتی ہے۔ مگر غوروفکر کا عادی فرد خوشی کے دشمن چھوٹے چھوٹے مسائل سے شائد ہی متاثر ہوتا ہو بلکہ وہ تو کم وبیش ہمہ وقت غوروفکر کی مستی میں گم رہتا ہے۔ اس پر زندگی مسلسل اپنے بھید کھولتی رہتی ہے۔ اور یقین جانئے کہ علمی انکشاف سے بڑی لذت شائد ہی کوئی اور ہو کیونکہ یہ انسانی ذہن کو مسلسل تازہ اور پرجوش رکھتی ہے۔
علم اور تحقیق کے ساتھ ساتھ فن اور ہنر کا دائرہ بھی منسلک ہے۔ ہنرکو ہم علم اور تخلیق کا کیرئر بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہنر جتنا بلند پایہ ہوگا علم اتنے ہی موثر انداز میں اپنے مخاطبین تک رسائی حاصل کرے گا۔ جو خیال ہم عام گفتگو کے ذریعے بیان کرتے ہیں ، اگر اسے شاعری میں ڈھال دیا جائے تو اس کا اثر مزید بڑھ جاتا ہے۔ اور اگر شاعری کو موسیقی کا کاندھا نصیب ہوجائے تو اس کی تاثیر پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ اور اگر اس خیال کو موسیقی کے ساتھ دلکش دھن میں ڈھال کر ڈرامے یا فلم کا حصہ بنادیا جائے تو آپ خود سوچ لیجئے کہ اس سادہ سے خیال کی اثر انگیزی کا عالم کیا ہوگا۔
فنون براہ راست ہمارے جذبوں سے ہم کلام ہوتے ہیں اور پھر اسی راہ سے دماغ میں اترتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہاں ریکارڈ ہوجاتے ہیں۔ ہماری دھیمی اور خوبصورت یادوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہم میں سے کون ایسا ہوگا جسے موسیقی بری لگتی ہو۔ نغمگی اور غنائیت تو ہمارے دل کی مجبوری ہیں۔ ان کے اثر کا تو یہ عالم ہے کہ سال ڈیڑھ سال کا بچہ بھی بے ساختہ تھرکنے لگتا ہے جبکہ وہ ابھی شعوری طور پر کسی خوشی یا دکھ کے تجربے بھی نہیں گزرا ہوتا۔ ہمارے ساتھ تو اب تک بہت کچھ اچھا یا اذیت ناک بیت چکا ہوتا ہے۔ ہم نے ہجر اور وصال کے ذائقے چکھ لیے ہوتے ہیں اور یہ ذائقے شاعری اور موسیقی کے سوا کسی اور طرح یوں بیان نہیں کئے جاسکتے کہ ہمارا دل نوکِ زبان پر آکر کہے کہ واہ۔ مگر وہ کہتے ہیں نا کہ ’مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات‘۔
ہمارے ساتھ ہاتھ یہ ہوا کہ ہمارے بزرگوں نے غلط سلط اور سنی سنائی باتوں کے نتیجے میں موسیقی کو حرام سمجھ لیا اور یوں اچھے خاصے دودھ میں مینگنیاں ڈال دیں۔ حیرت ہے کہ ہم ایک جانب موسیقی کو روح کی غذا کہتے ہیں اور دوسری طرف اس غذا کو حرام بھی سمجھتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ساری گڑبڑ کی وجہ موجود ہے۔ ہم اگر موسیقی کو احساسِ جرم کے ساتھ سنیں گے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ہمارے دل ودماغ کو پاکیزگی بخشے اور روح کو بالیدگی عطا کرے۔
یہی حال مصوری کا ہے۔ تصویر اور پینٹنگ کی جانب کشش بھی ہوتے ہیں اور اسے حرام بھی جانتے ہیں۔جب اس کشش کی ماہیت سمجھ میں نہیں آتی تو اسے شیطان کی کارستانی کہہ کر مطمئن ہوجاتے ہیں لیکن اطمینان تب بھی نصیب نہیں ہوتا ۔ حیرت ہے ایک جانب ہم جس کسی کے فن سے مسحور ہوتے ہیں تو اسے خدادا کا نام دیتے ہیں لیکن اس کی حرمت کے بارے میں پوچھا جائے تو بلا تردد اسے حرام اور شیطان کی کارستانی کہہ کر جان چھڑالیتے ہیں۔
یہی صورتحال ہمیں سیکس میں کشش کے معاملے میں بھی درپیش ہوتی ہے۔ مگر یہ خواہش ایسی ظالم ہے کہ ہمہ وقت ہمارے دماغ سے چمٹی رہتی ہے اور لاحول پڑھنے پر بھی جان نہیں چھوڑتی۔ تو کیا ہم نے زندگی کے ہر لطف اور ہر مزے کو خود پر حرام کرنے کی ٹھان لی ہے ۔ اگر واقعی ایسا ہے اور ہم نے ہر فن کا احساسِ جرم کے ساتھ ہی مزا لینا ہے تو پھر یقین کرلیجئے ہمیں کبھی بھی خوشی کا سراغ نہیں مل سکتا۔ خوشی کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے اور فن کے بیچ سے شیطان کو خارج کردیں جو اور کچھ نہیں صرف اور صرف ہماری غلط اور بے سوچی سمجھی مذہبی تفہیم کی ناجائز پیداوار ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ اگر موسیقی اور مصوری شیطانی کام ہوتے تو ان سے جڑے ہوئے لوگ بہت کرپٹ، کرخت، ظالم اور بر ے ہوتے۔ اور نمازی پرہیزگار لوگ بہت ایماندار سراپا محبت ہوتے۔ مگر سچ پوچھئے تو تجربہ یہی بتاتا ہے کہ عبادت گزاروں کی اکثریت کے جُبوں میں مہان قسم کے شیطان اور خوشی کے دشمن کرخت اور بدصورت چہرے چھپے ہوتے ہیں۔
فن اور ہنر اپنی ذات میں محض ایک بے انت طاقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ انسان کا مسئلہ ہے کہ وہ ان کا تعمیری استعمال کرے یا تخریبی۔ ہم چاہیں تو ان کی مدد سے جمالیات سے لبریز تہذیب یافتہ سماج وجود میں لاسکتے ہیں اور چاہیں تو ان کی باگیں وحشی جبلتوں کے ہاتھ میں دے کر سماج کو برباد کرسکتے ہیں۔
فنون کو حرام یا شیطانی سمجھنے سے کئی طرح کی سماجی اور نفسیاتی بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ سماج فنون سے پیدا ہونے والی جمالیات سے محروم ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ فن اور ہنر ایسے گروہوں کا ہتھیار بن جاتے ہیں جو ان کے ذریعے فحاشی اور ولگیریٹی کو فروغ دے کر پیسہ سمیٹنے لگتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے فن کی فحش اور ولگر صورتیں اسی سوسائٹی میں تیزی سے فروغ پاتی ہیں جس کے مذہبی اور سماجی رہنما انہیں سماج سے کاٹنے پر مصر ہوتی ہیں۔ ہمارا پاکستانی معاشرہ اس کی نمایاں ترین مثال کا درجہ رکھتا ہے۔
♦