آصف جاوید
اِ س موضوع پر بات کرنے سے پہلے میں یہ وضاحت کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نہ ہی میں سرمایہ دارانہ نظامِ حکومت کا حامی ہوں۔ نہ ہی میں اشتراکی نظامِ حکومت کا مخالف ہوں۔ میں تو ذاتی طور پر ایک انسان دوست آدمی ہوں، جو سماجی مساوات، انسانی برابری، قومی فلاح و بہبود، سماجی انصاف، تعلیم، صحت، روزگار کے مواقع، انسانی ترقّی اور ، بنیادی انسانی حقوق، اظہارِ رائے کی آزادی، خوشحال انسانی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کے لئے آواز بلند کرنے کو اپنی سماجی ذمّہ دار محسوس کرتا ہے۔
اس مضمون کو تحریر کرنے کا مقصد قطعی طور پر یہ نہیں ہے کہ میں اشتراکی نظامِ حکومت کے حامِل ممالک کی تذلیل اور سامراجی نظامِ حکومت کے حاِمل ممالک کی تعریف و توصیف کرنا چاہتا ہوں، بلکہ میں یہاں صرف ا پنی مطالعاتی اور مشاہداتی معلومات کی روشنی میں کیوبا کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
متعدّد بار کیوبا کے ساحلی تفریحی مقامات کی سیر، شہروں ، اور قصبات میں کیوبن شہریوں کے حالاتِ زندگی کا مشاہدہ کرنے ، زراعت کی صورتحال دیکھنے اور سروِس فراہم کرنے والے افراد سے انٹرویوز کے بعد میں یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اشتراکی نظام کی افادیت کی مالا جپنے والوں ، فیڈرل کاسٹرو کے قصیدے پڑھنے والوں کو شائد اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ فیڈرل کاسٹرو کے دور میں کیوبا کی کتنی ہی نسلیں کسمپرسی اور غربت و افلاس، محرومی اور ذلّت کی زندگی گزار کر مر گئی ہیں۔
جمہوریہ کیوبا ، مگرمچھ کی شکل سے مشابہہ ایک بڑے جزیرے پر مشتمل خطِّہ زمین ہے۔ جس کے ایک طرف بحیرہ کریبین اور دوسری طرف وسیع و عریض اٹلانٹک اوشئین ہے۔ امریکہ کی مشہور ریاست فلوریڈا کا ساحلی شہر میامی ، کیوبا کے دارالحکومت ، ہوانا سے صرف ایک سو ناٹیکل میل کی دوری پر واقع ہے۔
کیوبا کا کل رقبہ لگ بھگ ایک لاکھ اسکوائر کلومیٹر ہے۔ کیوبا کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ پورے سال درجہ حرارت معتدل اور اوسطاً 25 ڈگری سنٹی گریڈ رہتا ہے۔ سردیوں میں بھی درجہ حرارت 21 ڈگری سنٹی گریڈ سے نیچے نہیں گرتا، اس ہی لئے سردیوں اور برف باری کے موسم میں یورپ، روس اور کینیڈا سے سیّاحوں کے جہاز بھر بھر کر کیوبا آتے ہیں۔
کیوبا کے 3700 کلومیٹر طویل ساحل پر دنیا کی جدید ترین آسائشوں سے مزیّن ساحلی تفریح گاہیں، سارا سال غیر ملکی سیّاحوں کی کشش اپنی جانب مبذول رکھتی ہیں۔ اور یہی ٹوراِزم اس وقت کیوبا کی قومی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ مگر کیوبا بنیادی طور پر ایک زرعی معیشت پر استوار ملک ہے۔
سنہ 1992 تک دنیا میں گنّے سے شکر کی پیداوار حاصل کرنے والے ممالک میں کیوبا کا نام سرِ فہرست تھا۔ کیوبا کی نیشنل شماریاتی ایجنسی کے مطابق سنہ 2013 میں کیوبا کی گراس جی ڈی پی کا حجم 77 بلین ڈالر تھا۔ جس میں کیوبا کے پرائیویٹ اور کو آپریٹو سیکٹر کا جی ڈی پی میں حجم 25 فیصد تھا۔
ایک کروڑ سے کچھ زیادہ کی آبادی والے اس ملک میں اشتراکی نظامِ حکومت قائم ہے۔ سب کچھ ریاست کا ہے، عوام کا ذاتی کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ عوام کا کسی چیز پر ذاتی حقِّ ملکیت ہے۔
پندرویں صدی سے انیس ویں صدی تک کیوبا ،ہسپانوی نوآبادی رہاہے۔ لہذا کیوبا کی قومی زبان اور ذریعہ تعلیم ہسپانوی ہے۔ امریکا نے سنہ 1848 میں دس کروڑ ڈالر کے عوض جزیرہ کیوبا کو ہسپانیہ سے خریدنے کی کوشش کی تھی۔ اور ہسپانیہ کے انکار پر امریکی اربابِ اختیار نے ایک بیان مشتہر کیا تھا۔ جِس میں کہا گیا تھا کہ جغرافیائی اعتبار سے کیوبا امریکی ریاست ہائے متّحدہ کا جزو ہے۔ اگر ریاست ہائے متّحدہ کو اُس کی خرید سے باز رکھا گیا تو “حقِّ شفعہ” کے قانون کی رو سے ہمیں حق پہنچتا ہے کہ ہم اُسے بہ زور ِ شمشیر فتح کرلیں۔
اسی حقِ شفعہ کے قانون کے تحت سنہ 1898 میں امریکہ نے کیوبا پر اپنا دعوی‘ قائم کیا تھا۔ اور باقاعدہ فوج کشی کی تھی۔ سنہ 1899 میں میں امریکی بحری فوجیں کیوبا میں داخل ہوئیں اور کیوبا کے دستور میں جبراً ایک نئی شق کا اضافہ کروادیا ۔
اِس شق کا مفہوم یہ تھا کہ امن ِ عامہ یا امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے امریکی حکومت جب چاہے کیوبا میں اپنی فوجیں اتار سکتی ہے۔ اِس اختیار کوسہولت سے برتنے کے لیے امریکا نے کیوبا میں ایک مستقل فوجی اڈہ قائم کرنے کا اجازت نامہ بھی حاصل کرلیا تھا۔
پھر امریکی سرپرستی میں کیوبا نے 1901 میں اسپین سے باقاعدہ آزادی حاصل کرلی۔ مگر بدقسمت کیوبا ، آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گیا۔ کیونکہ اب امریکہ نے کیوبا میں گوانٹا نامو بے کے مقام پر اپنے بحری فوجی اڈّے قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آئین میں دی گئی “پلاٹ ترمیم ” (یہ قانون حقِّ شفعہ ہی کی ایک قسم ہے) کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کیوبا کے حکومتی و انتظامی معاملات کو چلانے کے اختیار کا دعوی‘ بھی قائم کردیا تھا۔
اگلے 30 سال کیوبا میں جو بھی حکومتیں بنتی رہیں ، سب امریکی مفادات کی براہِ راست عمل داری میں رہیں۔ امریکی تجارتی کمپنیاں پورے کیوبا کی زرخیز زمیں کی پیداوار کی مالک رہیں۔ 1933 میں کیوبا میں قوم پرست تحریکوں نے سر اٹھانا شروع کردیا، 1934 میں، فُل جینشیو بٹسٹا کی قیادت نے امریکی صدر فرنکلن روزویلٹ سے مذاکرات کے ذریعے امریکی آئین سے “پلاٹ ترمیم” کا خاتمہ کروا کر کیوبا پر امریکہ کی آئینی اجارہ داری کو ختم تو کروادیا۔ مگر گوانتا نامو بے پر قائم امریکی بحری بیڑے کو ختم نہیں کرایا جاسکا۔
سنہ 1952 تک بٹسٹا ، امریکی چھتری کے سائے میں کیوبا پر حکومت کرتا رہا۔ بٹسٹا کا دورِ حکومت ، کیوبا کا بدترین دورِ حکومت تھا۔ کیوبا کی عوام معاشی زبوں حالی کا بدترین شکار تھی، غربت، جہالت، اور بیروزگاری کا دور دورہ تھا۔ اس موقعہ پر فیڈرل کاسٹرو منظرِ عام پر آئے۔
جاری ہے،
Pingback: کیوبا میں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہتی ہیں۔2 – Niazamana
Pingback: کیوبا میں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہتی ہیں۔3 – Niazamana