آصف جاوید
فیڈرل کاسترو تین اگست 1926 میں کیوبا کے ایک امیر خاندان میں پیدا ہوئے ،جو پیشے کے اعتبار سے جاگیردار تھا۔ فیڈرل کاسترو نے اپنے اردگرد پھیلی اذیت ناک، جہالت، مفلسی اور سماجی تفریق اور دیگر مصائب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ، اور اسی کے ردِّ عمل نے انھیں انقلابی بناڈالا ۔
بٹسٹا کے دور میں کیوبا ،ڈرگ ڈیلرز اور اسمگلروں کی پناہ گاہ تھا۔ وہاں جسم فروشی، جوئے بازی اور منشیات کی سمگلنگ عام تھی۔کاسترو اور اس کے انقلابی گروہ نے بٹسٹا حکومت کے خلاف موجودہ گوانتاناموبے کے جنوب میں واقع سیراما اسٹیا نامی پہاڑوں میں موجود اپنے اڈے سے بڑے پیمانے پر گوریلا مہم شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ 1953 میں کاسترو کی پہلی کوشش ناکام ہوئی اور انہیں تین سال میکسیکو میں اپنے ساتھیوں سمیت پناہ لینی پڑی۔
سال 1956 میں کاسٹرو ایک بار پھر کیوبا میں داخل ہوئے، گوریلا جنگ چلتی رہی۔ اور بالآخر دو جولائی کو 1959 کو کیوبا کے صدر مقام ہوانا میں فیڈرل کاسترو کی سربراہی میں باغی فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ بٹسٹا کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑی اور کیوبا کو نئی حکومت مل گئی۔ یہ کامیابی ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے انقلابی ارنسٹ چی گویرا کو بھی ملی تھی۔ جنھوں نے کاسترو کی انقلابی تحریک میں حصہ لیا تھا اور بعد میں حکومت کا حصہ بھی بنے۔
بٹسٹا کے بعد فیڈرل کاسٹرو نے بھی اپنے ملک کے عوام کو کافی حد تک مایوس کیا، اور اپنی ڈکٹیٹر شِپ قائم کرلی۔ 1960 میں فیدل کاسترو نے کیوبا میں موجود تمام امریکی کمپنیوں کے کاروبار قومی ملکیت میں لے لئے ، جن کی مالیت آج سے 66 سال پہلے دو بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھی۔ ۔ جواباً امریکہ نے کیوبا کا معاشی مقاطعہ کرنے کے لئے کیوبا پر تجارتی پابندیاں عائد کر دیں جو ابھی تک عائد ہیں۔ ان تجارتی پابندیوں کی وجہ سے کیوبا عملی طور پر پوری دنیا سے معاشی طور پر منقطع ہوگیا ہے۔
دنیا کا کوئی تجارتی بحری مال بردار جہاز ہوانا کی بندرگاہ پر لنگر انداز نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی بحری جہاز اس قانون کو توڑنے کی کوشش کرے تو وہ دوبارہ کبھی امریکی ساحل پر قدم نہیں رکھ سکتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کیوبا میں جو کچھ بھی انفراسٹرکچر قائم ہوا ہے، سب امریکی تعلّقات کے دور میں ہوا ہے، جو بھی ترقّی ہوئی امریکی تعلّقات کے دور میں ہوئی۔ 1960 کے بعد تو کیوبا میں ایسا لگتا ہے کہ ترقّی معکوس کا عمل شروع ہوگیا ہے، اور ابھی تک جاری ہے۔ 1960 میں کیوبا میں جو معاشی، تجارتی اور صنعتی ڈھانچا کھڑا تھا، وہ آج بھی ویسا ہی کھڑا ہے، بلکہ یوں کہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہورہا ہے، نہ تو اس ڈھانچے میں کچھ اضافہ ہوا ، نہ ہی ترمیم ہوسکی ہے۔
سال1961 میں امریکی سی آئی کی مدد سے 1500 کے قریب کیوبن باغیوں نے ، فیڈرل کاسٹرو کی حکومت کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر قبضے کے لئے رات کی تاریکی میں جنوبی ساحل کے بے آف پِگ پر حملہ کیا، مگر کاسٹرو کے جنگجووں نے ان کو شکست دے کر گرفتار کرلیا، اور بعد میں 50 ملین ڈالر تاوان کی غذائی اشیاء اور دواوں کے بدلے رہا کیا۔ امریکہ نے کیوبا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ امریکہ نے کیوبا کا صرف معاشی مقاطعہ ہی نہیں کیا بلکہ ، کیوبا کو پورے لاطینی امریکہ اور دنیا کے تمام غیر کمیونسٹ ممالک کو کیوبا سے سماجی، معاشی اور دوستانہ تعلّق ختم کرنے پر بھی مجبور کیا۔ اور کیوبا کو پوری دنیا سے جذام کے مریض کی طرح الگ تھلگ کردیا۔
امر یکہ کے عناد ، بے اعتنائی اور دشمنی کے سبب کیوبا کا روس سے التفات بڑھتا رہا، اور کیوبا میں کمیونزم کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ 1960 کے آخری مہینوں میں کاسٹرو نے کیوبا کو ایک سوشلسٹ ملک ڈیکلیئر کردیا۔ اور اپنے آپ کو مارکسی–لینن فلسفے کا حامی قرار دے کر سوشلسٹ بلاک میں شمولیت ا ختیار کرلی۔ کیوبا کی تمام صنعتوں، پیداواری یونٹوں، مواصلاتی نظام ، سروسزِ سیکٹر، غرض ہر شعبہ زندگی کو قومی ملکیت میں لے لیا۔
سال1962 میں سوویت یونین کی طرز پر نظامِ حکومت قائم کیا۔ اور یوں کیوبا کے تمام تجارتی، ثقافتی رشتے مغرب سے ٹوٹ کر مشرق سے جاملے۔ 1962 میں امریکی خفیہ فضائی نگراں جہازوں نے کیوبا میں سوویت یونین کی میزائل انساٹالیشن کی تصاویر بھی حاصل کرلیں۔ اور کیوبا کا محاصرہ کرلیا۔ بعد میں سوویت یونین کی جانب سے میزائل ہٹائے جانے کے بعد امریکہ نے کیوبا کا محاصرہ ختم کیا۔ اِس کے بعد میں جمّی کارٹر کے دورِ حکومت میں 1977 میں کیوبا سے امریکہ کے کچھ تعلّقات بحال ہوئے ۔ اور کیوبا کو بحیرہ اطلانتک میں ماہی گیری اور کشتی رانی کی آزادی ملی۔
ان تمام سماجی پابندیوں، اور معاشی مقاطعہ کے باوجود فیڈرل کاسٹرو نے اشتراکی نظام حکومت کے قائم ہونے کے بعد اپنی عوام کو مفت تعلیم، مفت صحت، مفت رہائش کی سہولتیں فراہم کیں۔ مگر کیوبا کے عوام کے طرزِ زندگی کا موازنہ اگر دنیا کے کسی بھی معمولی ترقّی یافتہ ملک سے کیا جائے تو کیوبا کو بدحال ممالک کی صفوں میں شامل کرنا پڑے گا۔ پرانے بوسیدہ گھر، شاپنگ سینٹروں، بازاروں اور دکانوں سے مکمّل طور پر عاری محلّے ہیں، سائیکل رکشہ عام سواری ہیں۔ کام پر جانے کے لئے سرکاری ٹرانسپورٹ بسیں چلتی ہیں۔ (دیہاتوں میں لوگ سائیکل رکشہ کی جگہ پونی خچّر کی سواری کرتے ہیں)کیوبن عوام کا طرز زندگی دیکھ کر افسوس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
ضروریاتِ زندگی کی دیگر چیزیں کمیونٹی اسٹوروں پر لائن لگا کر راشن کارڈ کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں۔ کیوبن عوام کے پیٹ میں روٹی تو ہوتی، ہے، جسم پر لباس بھی ہوتا ہے، سر پر چھت بھی ہوتی ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ عوام کسی پنجرے میں بند قیدی ہیں۔ جِن کو محدود طور پر ایک لگی بندھی زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہے۔ یکساں زندگی، یکساں معاشرہ، سارے لوگ تنوّع سے عاری، کسی کو کل کی فکر نہیں ہے ، اور کسی کے پاس بہتر زندگی بھی نہیں ہے، سب کو محدود آزادی، محدود طرزِ زندگی میسّر ہے، کسی کا اپنا کچھ بھی نہیں ، سب کچھ سرکار کا ہے۔
عجیب روح فرسا منظر ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے، کہ پورا معاشرہ مجموعی طور پر جمود کا شکار ہے۔ کسی کو جلدی نہیں، بادی النظر میں سب سست کام چور اور فارغ نظر آتے ہیں۔ انسانی فطرت اور جبلّت کے مطابق آنر شِپ (مالکانہ حق) کا احسا س ، ترقّی کرنے کے جذبے کو مہمیز عطا کرتا ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ انسان کے پاس اگر کسی چیز کی آنر شِپ نہ ہو تو، وہ اس چیز کو اپنا نہیں سمجھتا، جب آنر شپ سرکار کے پاس ہوگی تو سرکار ہی ترقّی کا سوچے گی، انسان نہیں سوچے گا۔ اور یوں معاشرہ ترقّی سے محروم رہے گا۔
سال 1980 میں سوویت یونین کے ٹوٹ کر بکھرنے کا کیوبا کی معاشی حالت پر بہت ہی برا اثر پڑا تھا۔ گنّے سے بنی شکر کی کی صنعت تباہ ہوگئی تھی، جِس کے بعد کیوبا نے ٹورازم، مائننگ، فشنگ اور سگار کی صنعتوں پر بھرپور توجّہ دی۔ 1996 میں امر یکی کانگریس نے ہیلم– برٹن ایکٹ پاس کرکے کیوبا کی معاشی پابندیوں کو اچانک سخت کردیا جس کے بعد ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور کینیڈا نے انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت فیڈرل کاسٹرو کی حکومت سے روابط بڑھائے اور کینیڈا نے کیوبا میں ٹوراِزم انڈسٹری کے قیام میں مدد فراہم کی۔ اور یوں کیوبا کی تباہ حال معیشت نے کچھ سکھ کا سانس لیا۔
اپنے دور حکومت کے آخری عرصے میں کاسترو کافی حد تک بالغ نظر ہو چکے تھے ۔اپنے اقتدار کے آخری برسوں میں کاسترو نے روایتی اشتراکی نظام سے معمولی انحراف کرکے کیریبئین کمیونزم کی ایک انوکھی طرز کو متعارف کروایا تھا۔اور 1990 میں اپنے سوشلسٹ نظام کو قائم رکھتے ہوئے ، محدود زرعی خود کفالتی تجارت، دستکاری اور محدود شرائط کے ساتھ اپنا گھر اور کار رکھنے کی اجازت بھی دے دی تھی ۔ مگر اِن اصلاحات کے ثمرات کیوبن معاشرے میں آج تک ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ کاسترو سرمایہ کارانہ نظام کی ‘فری مارکیٹ‘ کی اصلاحات کو اپنانے اور آہستہ آہستہ متعارف کروانے پر بھی بالآخر مجبو ر ہو گئے تھے ۔
جاری ہے۔
کیوبا میں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہتی ہیں۔1