فرحت قاضی
ہمارے دیہی اور قبائلی علاقوں میں آج بھی ایسے والدین موجودہیں جنہوں نے اپنی بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھا ہوا ہے کیونکہ ان کے نزدیک پڑھنا لکھنا صرف لڑکوں کا کام ہے عورت کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا غیرت کے منافی ہے درحقیقت وہ اپنی اس سوچ اور عمل کے نتائج سے غافل ہیں اور انہیں یہ احساس نہیں ہوپا رہا ہے کہ ایک عورت کا کنبہ اور قوم بنانے میں کتنا بڑا اور اہم کردار ہوتا ہے۔
اہل دانش کا کہنا ہے کہ ماں کی گود بچے کے لئے پہلی درس گاہ کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ جدید سائنس اور ماہرین نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ایک ماں اپنی روزمرہ بات چیت کے دوران جو کچھ سنتی اور بولتی ہے تو پیٹ میں بچہ یہ سنتا ہے اور یہیں سے اس کے سیکھنے کا عمل بھی شروع ہوجاتا ہے یہ بھی ایک سچائی ہے کہ بچہ اپنی توتلی زبان میں جو ابتدائی الفاظ ادا کرتا ہے تو وہ اسی ماں سے سیکھتا ہے اسی طرح شنید ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ توجہ ابتدائی تعلیم پر دی جاتی ہے اب اگر ایک بچے کی پہلی استانی اور اس کی ماں ہی ان پڑھ ہو وہ غیر مہذب اور زبان دراز ہو جھگڑالو اوربات چیت کے آداب سے ناواقف اور ہر ہر بات پر غصے کا اظہار اور اول فول بکتی ہو تو ایسے معلم سے ایک بچہ کیا سیکھے گا۔
باپ نے اپنے بچے کو ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخل کرایا ہے بھاری فیس سمیت دیگر اخراجات بھی باقاعدگی سے ادا کرتا رہتا ہے اور وہ یہ سب کچھ اس توقع پر کررہا ہے کہ اس کا بچہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ مہذب معاشرے میں اپنا ایک مقام بھی پیدا کرنے کا اہل ہو مگر وہی بچہ گھر کی دہلیز سے اندر قدم رکھتا ہے اور ماں ہائے وائے میں لگی ہوئی ہے تو بچہ اس سے کیا تاثر لے گا کیا اخذ کرے گا میرا ایک ہمسایہ اپنے بچے کو کچھ پڑھا رہا تھا اس دوران اسے کبھی گدھا تو کبھی سور اور نجانے کیا کیا کہتا رہا میں نے کتاب کو دیکھا تو یہ کھانے پینے ،اٹھنے بیٹھنے کے آداب اور اخلاقی رویوں کے حوالے سے تھی۔
والد اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ وہ بچے کو آداب تو سکھا رہا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ گالیاں بھی ازبر کرارہا تھا
کیا ماں کو پڑھا لکھا ہونا چاہئے یا پھر نہیں ہونا چاہئے؟
ہماری روایات،رواجات،رسومات اور کسی حد تک ثقافت کا بھی یہی حال ہے پختونخوا کے دیہات میں ایک جاگیردار فوتگی یا شادی پر درجن بھردیگ چاول پکاتا ہے اور یہ سلسلہ کئی روز تک چلتا رہتا ہے متوسط طبقہ بھی برادری میں ناک کو اونچی رکھنے کی خاطر یہی کچھ کرتا ہے مگر جب ایک غریب ان کی نقالی کرتا ہے تو اسے اپنے رشتہ داروں یا پھر مالک سے ادھار لینا پڑتا ہے اور یہ رسومات اور ان کی ادائیگی اسے ہمیشہ محتاج اور پسماندہ رکھتی ہیں۔
بادشاہت کے ادوار میں غریبوں کے لئے لنگر خانے کھولے جاتے تھے مزارات پر کھانے کا مفت انتظام ہوتا تھا صدقات اور خیرات کے سلسلے بھی چلتے رہتے تھے خان خوانین بھی مختلف مواقع پر کھانا دیتے تھے غریب اور بھکاری ان بادشاہوں،وزیروں اور جاگیرداروں کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے مگر اس نے جدید دور اور پاکستان میں نئی شکل و صورت اختیار کی ہوئی ہے یہاں کئی فلاحی تنظیمیں مذہب اور انسانیت کی خدمت کے نام پر غریب لڑکیوں کی اجتماعی شادیاں کرارہی ہیں بیواؤں کے لئے وظیفہ مقرر کررکھا ہواہے عوام اور خصوصاً مخیر حضرات ان کو چندہ دیتے رہتے ہیں جبکہ بیرون ممالک سے بھی صاحب حیثیت اور متمول افراد مالی معاونت کرتے رہتے ہیں۔
یہ کھاتہ حکومت نے بھی کھول رکھا ہے جنرل ضیاء الحق نے ملک میں زکواۃ کا نظام متعارف کروایا اور تاحال بینکوں میں ڈپازت پر کٹوتی ہورہی ہے مختلف سیاسی اور فوجی حکومتوں نے انکم سپورٹ پروگرام سمیت دیگر فلاحی پروگرام اور منصوبے چالو کئے ہوئے ہیں دہشت گردی کے خلاف آپریشنوں کا نہ ختم ہونے والا دور چل پڑا تو نقل مکانی پر مجبور افراد اور کنبوں کو آئی ڈی پیز اور متاثرین جنگ کا نام دیا گیا ان کو حکومت کی جانب سے نقد رقومات کے علاوہ خوراکی مواد بھی فراہم کیا جاتاہے ملک میں زلزلہ یا سیلاب آتا ہے تو حکومتی وزراء عالمی برادری سے مالی معاونت کی درخواست کرتے ہیں۔
یہ سب ہمیں اچھا اور فلاح انسانیت لگتا ہے مگر اس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے ریڑھی بان سے وزیر اعظم تک ہر ایک کے ہاتھ میں بھکاریوں کا کشکول ہے اور لگتا ہے ہم اٹھارہ کروڑ پاکستانی نہیں اٹھارہ کروڑ بھکاری ہیں اپنے اس عمل سے جانے یاانجانے میں ہم معذوروں اور کام چوروں کی تعداد میں اضافہ کررہے ہیں قبائل بھیک لینے کو بے عزتی خیال کرتا تھا مگر حکومت کی طرف سے نقد رقومات اور مفت خوراکی مواد کی دستیابی نے اس کے ایک حصہ کو کاہل اور کام چور بنادیا ہے چنانچہ کبھی وہ بینک کے سامنے انکم سپورٹ پروگرام کا چیک کیش کرانے کے لئے طویل قطار میں کھڑا نظر آتا ہے اور کبھی ہاتھ میں بھیک کی درخواست لئے کسی وزیر کے پاس جارہا ہے یا اپنے بچے کے علاج کے لئے مخیر حضرات سے پیسہ طلب کررہا ہے ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا جو وقت پیداواری عمل میں لگنا چاہئے تھا وہ ان مصروفیات میں ضائع ہورہا ہے اس سے اس کی ذات کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
پنجاب کے دیہات پر چوہدریوں کا قبضہ ہے وہ یہاں کے باسیوں کے لئے ان داتا اور سب کچھ ہے اس تناور درخت کے نیچے کسی چھوٹے پودے کو پنپنے کی اجازت نہیں ہے ایک بندے کے پاس ایک بھینس ہے تین سال کے بعد چار ہوجاتی ہیں تو علاقہ کا چوہدری اپنے کارندوں کے ذریعہ ایک یا دو چوری کرا لیتا ہے۔
قبائلی علاقے زیادہ تر پہاڑی ہیں یہاں لوگ بھیڑ بکریاں ہی پال سکتے ہیں ان کا سر نیوا رکھنے اور ان کو معاشی طور پر سدا کمزور رکھنے کے لئے اجتماعی سزا کا قانون نافذ کیا گیا ہے انگریز چلا گیا ہے مگر قانون جاری ہے اس مقدس قانون کے تحت خاندان کا ایک فرد جرم کرتا ہے یااس میں ملوث ہے تو اس کے تمام کنبے کو سزا دینے کے لئے اس کے مکان کو ہی گرادیا جاتا ہے اس لئے قبائلی باشندہ مٹی اور گارے کا گھروندا یا گھر بناتا ہے اور یہ بنانا بھی ہر ایک کے لئے ممکن نہیں ہے اس لئے کہ ان علاقوں میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں نہ زراعت ہے اور نہ صنعت لگائی گئی ہے گھر گرایا جاتا ہے تو اس کی تعمیر کے لئے عزیز اور رشتہ دار سے ادھار لینا پڑتا ہے اس انحصار کے باعث یہاں پر قدیم خاندانی نظام تاحال پرانی صورت میں موجود ہے نیرو نے روم کو جلا دیا تھااور ہلاکو نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی تاریخ میں ان دونوں شخصیات کو برا کہا جاتا ہے مگر قبائلی علاقے میں مکان گرانے کا قانون سالہا سال سے موجود ہے کیونکہ جب تک یہ غریب اور محتاج رہیں گے تو حاکموں کو بازوئے شمشیرزن اور بے تنخواہ سپاہی ملتے رہیں گے یہاں ہنر مند لیبر پیدا کرنے کے کوئی مواقع نہیں ہیں دیہہ آبادی اور قبائل نے نصف آبادی کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں تو مردوں کو حکومت نے پہنا رکھی ہیں۔
ایک سماج میں پابندیاں بھی اس کے پاؤں کی زنجیر بنی ہوتی ہیں اور یہ اسے ترقی کرنے نہیں دیتی ہیں ہمارے دیہی علاقے پہلے ہی پسماندہ ہیں اور ان دیہات میں نصف آبادی کو معاشی سرگرمیوں سے بھی دور رکھا گیا ہے جس سے ان کی مخفی صلاحیتوں کو سامنے آنے اور پروان چڑھنے کا موقع نہیں ملتا ہے ایک مرد کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ کوئی اسے یہ طعنہ نہ دے کہ اس کی بیوی یا بہن بازار میں گھوم پھر رہی تھی یا وہ کھیت یا کارخانے پر کام کے لئے جاتی ہے بعض پسماندہ دیہات میں تو اسے ووٹ کے حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے اسے دال چنے کے بھاؤ کا بھی پتہ نہیں ہوتا ہے اور وہ بندھی ہوتی ہے تو ساتھ میں مرد بھی کہیں نہیں جاسکتا ہے آدھی آبادی کو مفلوج رکھنے کا نقصان خاندان کے ساتھ ساتھ اس علاقے اور ملک کو بھی ہوتا ہے۔
نوجوان کسی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں ان کا ذہن تیزی سے سوچتا اور عمل بھی جلد ہی کرتے ہیں یہ کھیت پر ہوں تو سونا اگلتے ہیں کارخانے میں ہوں تو اشیاء سے گودام بھر دیتے ہیں اسی لئے وہ شاعر ہو یا سیاست دان یا پھر کوئی اور ہو سب نے ان سے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے خواب باندھ رکھے ہوتے ہیں مگر ہمارے ادھر صورت حال یہ ہے کہ دو بڑے بات چیت کررہے ہوں تو اسے شامل نہیں کیا جاتا ہے سکول اور کالج میں پڑھ رہا ہو تو اتنی زیادہ اور ضخیم کتابیں پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ اس سے سر نہیں اٹھا سکتا ہے اس کا بچپن، لڑکپن اور نوجوانی وہ کچھ سیکھنے میں گزر جاتے ہیں جس کا ایک معمولی حصہ ہی اس کے کسی کام آتا ہے تعلیمی ادارے سے فراغت ملتی ہے تو روزگار کے پیچھے جوتوں کے تلوے گھس جاتے ہیں اس طرح ہمارے ادھرانسانی وسائل کو بروے کار نہیں لایا جارہا ہے ۔
راقم الحروف کا خیال ہے ہندوستان کی ترقی میں فلم انڈسٹری کا ایک نمایاں رول رہا ہے آزادی کے بعد بننے والی فلموں میں غریب طبقہ کے حالات کو پیش کیا جاتاتھا ان کے گیتوں میں بدنصیبی کا رونا اور بھگوان سے شکوہ شکایات ہوتی تھیں جب جاگیردارانہ نظام اور ثقافت کو سرمایہ داری کے فروغ اور ملک کی ترقی میں سنگ گراں پایا گیاتو اس کو تنقید کا نشانہ بناکر جاگیردار طبقہ کے مظالم آشکارکئے گئے اور اس کی شاطرانہ چالوں کو عیاں اور اجاگر کر نے کے ذریعے عوام کی تعلیم و تربیت بھی کی گئی بت تراشی،تصویر کشی اور موسیقی پہلے ہی ان کے مذہب کا لازمی جزو تھے ان کے پھلنے پھولنے میں کوئی رکاؤٹ پیدا نہیں کی گئی آج ہالی ووڈ کے بعد سب سے زیادہ فلمیں اسی ملک کی دیکھی جاتی ہیں یہ اس ملک کے عوام کی تعلیم وتربیت کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔
پاکستان میں فنون لطیفہ کو جو مقام دیا گیا ہے وہ یہاں بتانے کی ضرورت نہیں ہے
♣
Pingback: رسم ورواج کا سوچ،عقل، ترقی سے بندھن۔2 – Niazamana