فرحت قاضی
جب ایک شخص معاشی طور پر محتاج ہوتا ہے تو وہ جسمانی اور ذہنی حوالے سے بھی غلام ہوجاتا ہے انگریزی میں ’’بھکاری کو انتخاب کا حق نہیں ہوتا ہے‘‘ کی کہاوت اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے ایک دیہہ میں خان خوانین نے کھیت مزدوروں اور ان کے خاندانوں کو ہر لحاظ سے جکڑ کر رکھا ہوتا ہے بیوی شوہر کے سامنے کچھ بول نہیں سکتی ہے تو نوجوان باپ اور عمررسیدہ افراد کی موجودگی میں زیادہ تر چپ رہتا ہے گویا نصف سے زائد آبادی گونگی ہوتی ہے اس طرح گاڑی کا پہیہ تو ضرور چلتا ہے مگر وہ سست رفتار ہوتا ہے جاگیردارانہ دور میں یہی ہوتا تھا ایک شخص دو کتابیں پڑھ کر اپنے کو علامہ سمجھنے لگتا تھا چنانچہ وہ کہتا اور باقی سب سنتے تھے چنانچہ ان کے پاس مضبوط جسم تو ہوتے تھے مگر ان پر اختیار ان علامہ صاحبان کا ہوتا تھا۔
ہمارا ہمسایہ خواتین کے گھرسے باہر نکلنے کو برا خیال کرتاتھا چونکہ غریب تھا دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں مشکل سے وقت کٹتا تھا یہی وجہ ہے کہ اس کی بیو ی اپنے گھر میں پاس پڑوس کے میلے کپڑے دھوتی تھی اور بیٹیاں کالونی میں گھر گھر جاکر کسی کے برتن دھولئے جھاڑو دے دی توچھوٹے بچوں کو صاف رکھنے کے علاوہ اسی نوعیت کے دیگر کاموں میں مصروف رہتی تھیں ۔راقم الحروف ان کو کوئی ہنر سیکھنے کی ترغیب دیتا رہا کسی دفتر میں ملازمت تلاش کرنے کا مشورہ بھی دیتا تھا مگر وہ زیادہ تر اس چکر میں رہتے تھے کہ حکومت کی جانب سے کوئی بھکاری سکیم چالو ہو پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ایک گاؤنڈی نے اس کی بڑی بیٹی کے لئے ادویات کی ایک فیکٹری میں کام دلوادیا کچھ عرصہ بعد وہ لڑکی اپنی بہن کو بھی وہاں کام پر لگانے میں کامیاب ہوگئی اس گھر اور خاندان میں گویاانقلاب آگیا اس کا باپ صاف ستھرے کپڑے پہننے لگا روزانہ کے جھگڑ ے رفوچکر ہوگئے اوراپنی برادری میں عزت کا مقام پالیا۔
شہروں میں دیہات کی نسبت اشیاء ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتی ہیں صنعتی شہروں میں فیکٹریاں اوردیو ہیکل، کارخانے ہوتے ہیں ان میں ہزاروں کی تعداد میں مزدور، کلرکس اور افسر شب وروز کچھ نہ کچھ پیدا کرتے رہتے ہیں اور روزانہ ان سے ٹرکوں کے حساب سے یہ اشیاء ملک کے دیگر شہروں اور دیہات کو بھیجی جاتی ہیں یہ جب اپنے مقام کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں تو ان سے راستے میں کئی طرح کے ٹیکس لئے جاتے ہیں اشیاء کو ٹرکوں میں لادااور اتارا جاتا ہے تو اس کی الگ مزدوری لی جاتی ہے ٹریفک پولیس کے ساتھ ساتھ ضلعی پولیس اہلکار بھی ان کو مٹھی گرم کرنے پر مجبور کرتے ہیں یہ اگر ایسا نہیں کرتے ہیں تو گاڑی کو لیٹ کرواتے ہیں۔ چنانچہ کارخانہ میں ایک چیز کے بنانے پر ایک روپیہ لاگت آتی ہے تو چھوٹے شہر اور دیہات میں وہ بیس پر فروخت کی جاتی ہے اس طرح چھوٹے شہروں اور دیہات کی کمائی ان صنعتی شہروں کو منتقل ہوتی رہتی ہے۔
دیہات میں اگر خان خوانین کے پاس جملہ اختیارات ہوتے ہیں تو بڑے شہروں میں صنعت کار ہر چیز اور ادارے کے مراکزان شہروں میں رکھتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دیگرعلاقوں کے باسی ان کے سامنے بے بس ہوتے ہیں وہ اپنا خام مال ان پر سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں دیہات پسماندہ ہوتے ہیں اس لئے ان کو یہاں سے سستی لیبر بھی ملتی ہے۔ ان بڑے صنعتی شہروں کے سرمایہ دار ملک اور اس کے وسائل کے اختیارات بھی اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں اور چھوٹے شہروں اور صوبوں میں اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں کا قد کاٹھ اٹھانے میں بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں اس کے ساتھ ہی ان کی یہ کوشش بھی رہتی ہے کہ ان کو پسماندہ رکھا جائے اور صنعت کاری کی حوصلہ افزائی نہ ہو چنانچہ یہ علاقے ان کے مال کے لئے بھی منڈیاں بنی رہتی ہیں پختونخوا میں گدون امازئی صنعتی زون کا خاتمہ اور قبائلی علاقہ جات میں تاحال انگریز کے قوانین اس سلوک کی ادنیٰ مثالیں ہیں۔
چھوٹے شہروں اور دیہات میں وقت گزرنے کے ساتھ پسماندگی بڑھتی جاتی ہے کیونکہ آبادی میں اضافے کے ساتھ زمین کی تقسیم در تقسیم کا عمل بھی تیز ہوجاتا ہے ان کے باسیوں کی قوت خرید گرنے لگتی ہے تو وہ بڑے اور صنعتی شہروں کا رخ کرنے لگتے ہیں جبکہ زیادہ تر پڑھے لکھے ا ور ہنر مند ہی اپنے علاقے چھوڑ کر وہاں جاتے ہیں تو اس سے دیہات میں تبدیلی کا عمل سست رہتا ہے۔ ترقی کے امکانات کم ہوجاتے ہیں تعلیم یافتہ افراد کے فقدان سے پسماندہ دیہات میں غیرپیداواری افراد کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں توہمات ان کا ذریعہ معاش ہوتا ہے اور یہ توہمات ان دیہات کے باسیوں کی جہالت اور لاعلمی کا باعث بنے رہتے ہیں۔
چونکہ دیہات اور چھوٹے شہروں میں ایک مرد پیسہ کماتا اور چار پانچ مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں اور جب ایسے خاندان کا کوئی فرد صنعتی شہر یا بیرون ملک روزگار کے لئے جاتا اور اسے جاب مل جاتی ہے ہر مہینہ باقاعدگی سے ہزاروں روپے بھیجتا ہے تو اس سے کام چوری کو مزید فروغ ملتا ہے جبکہ ایسا کنبہ فضول خرچی پر بھی اترآتا ہے یہ مال مفت دل بے رحم والا کام ہوجاتا ہے پیسہ تو آجاتا ہے مگر لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اسے کیسے اور کہاں لگایا جائے اس سے مزید پیسہ کمانے کی سوچ بھی پیدا نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک فرد باہر ہے تو دوسرے کو بھی بیرون ملک بھیجنے کے لئے تگ ودو شروع ہوجاتی ہے پختونخوا کے شہر اور دیہات میں یہی ہورہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص شب و روز مشقت کرتا ہے اپنا خون پسینہ ایک کرکے چند روپے کماتا ہے تو اسے اس پیسہ کی قدر بھی ہوتی ہے اور وہ ایک ایک روپیہ کنجوسی سے خرچ کرتا ہے اور پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے مگر جس گھر میں بیرونی ممالک سے پیسہ بھیجا جاتا ہے تو اس کا اگر ایک چھوٹا بچہ یا نوجوان ہے تو وہ اسے ایسے اڑاتا ہے گویا کہیں راستہ میں پڑا پیسوں کا بھرا بٹوہ مل گیا ہو۔ مشہور ہے کہ طوائف اس جوان کی تلاش میں رہتی ہے جس کے پاس باپ کی کمائی ہو یہی حال اس خاندان کا بھی ہوتا ہے جس کے ایک یا دو افراد بیرون ممالک روزگار کے لئے گئے ہوں ۔اس کے برعکس اگر گھر کے افراد کھیت یا قریب ہی کسی کارخانے میں محنت کرکے کماتے ہیں یا چھوٹا موٹا بزنس ہے تو ان کے پاس پیسہ کی قدر بھی ہوتی ہے پیسہ لگاتے بھی ہیں تو ایسی جگہ جہاں سے مزید کمائی کا امکان ہو۔
پختونخوا سے کوئی بیرون ملک جاکر پیسہ کماکر لاتا ہے تو والدین سب سے پہلے بیٹیوں اور بیٹوں کے شادیوں کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ مکان کی تعمیر شروع کردی جاتی ہے جبکہ بیرون ممالک جانے والے وہاں جاکر ملازمت کرتے ہیں وہ پیسہ کماکر لاتے ہیں تو ان کی بھی یہی سوچ ہوتی ہے چنانچہ ایسا بھی مشاہدہ میں آچکا ہے کہ ایک بندہ بیرون ملک سے آگیا ہے اپنا پیسہ مکان اور شادی پر لگادیا ہے دوبارہ باہر جانے کا امکان نہیں ہے تو روزگار کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔
دیہات میں روزگار اور کام کی نوعیت ایسی ہوتی ہے جس سے اس کے باسیوں کی ذہنیت کاروباری نہیں بنتی ہے ان میں قدیم رسومات ہوتی ہیں جن کی خاطر وہ باہم دست بگریباں رہتے ہیں ان رحجانا ت کو علاقے کی بااثر شخصیات بھی پروان چڑھاتی ہیں مجموعی ماحول سازشی ہوتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کا ذہن اسی طرف مائل رہتا ہے ان کے بچے درسی کتب میں بادشاہوں ، سپہ سالاروں اور سپاہیوں کے بہادری کی جھوٹی سچی کہانیاں پڑھتے اور ازبر کرتے رہتے ہیں جس سے جنگی ماحول بنا رہتا ہے۔ چنانچہ ایسے دیہات یا شہر میں کاروبار اور روزگار بھی نہ ہو تو کسی بھی کام کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت کو جب فوج یا پولیس میں بھرتی کی ضرورت ہوتی ہے تو اسے زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑتی ہے لوگ خود بھاگے بھاگے آتے ہیں۔
شہروں میں عوام کے پاس فالتو وقت ہوتا ہے اور نہ ہی ان باتوں پر وہ زیادہ توجہ دیتے ہیں تعلیم اور روزگار کے گوناگوں ذرائع اور مواقع ملنے کی وجہ سے وہ خواہ مخواہ اپنے کو خطرہ میں نہیں ڈالتے ہیں اس لئے وہ اگر فوج میں بھرتی ہوتے ہیں تواعلیٰ عہدوں پر جاتے ہیں شہری جنگی مہم جوئی کو وقت کا ضیاع اور حماقت قرار دیتے ہیں وہ سینے پربہادری کا تمغہ سجا کر خوش نہیں ہوتے ہیں۔ اس لئے ملک کے عموماً پسماندہ علاقے ہی سپاہی پیدا کرنے کی فیکٹریاں بنی رہتی ہیں اور اس کا ان کو یہ صلہ ملتا رہا ہے کہ یہ علاقے ہمیشہ پس ماندہ ہی رکھے جاتے ہیں۔
پختونخوا کے قبائلی علاقہ جات کے پختونوں نے انگریزوں کی سب سے زیادہ مزاحمت کی تھی جنگ عظیم میں جرمنی کے خلاف اپنی بہادری کے جوہر دکھائے تھے اور کشمیر کی آزادی میں بھی جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے۔ اس لئے انگریز نے ان کو جوں کا توں رکھنے کے لئے ایف سی آر لاگو کیا زراعت کو فروغ دیا اور نہ ہی صنعت لگنے دی گئی چنانچہ اس کے باسی اور علاقے آج بھی ہزارہا سالہ قدیم قبائلی نظام میں جکڑے ہوئے ہیں۔
ایک علاقہ میں کارخانہ لگنے سے اس کے باسیوں کارویہ بھی بدلنے لگتا ہے ان میں غیر محسوس طور پر تبدیلیاں آنا شروع ہوجاتی ہیں ضلع نوشہرہ ایک پسماندہ علاقہ ہے قیام پاکستان کے کچھ عرصہ گزرنے پر یہاں کاغذ وگتہ، کپڑے، لوہے، پائپ،گھی ،بلب کی فیکٹریاں اور کارخانے لگ گئے اور یہ صنعتی زون بن گیا ۔ اس کے بننے سے پہلے حجروں میں لڑکوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کا اٹھنا بیٹھنا معمول تھا اور ان کی روزمرہ گفتگو کے زیادہ تر موضوعات کھیتی باڑی،فصل،پانی، بارش، موسم، دعا، شادی اورفوتگی ہوا کرتے تھے ۔
بعض افرادکو تو مقدمات کی لت پڑی ہوئی تھی اور وہ اپنی کار گزاری بیان کرتے رہتے تھے تو کچھ صبح صبح چارپائیوں میں بیٹھ جاتے تھے اور ان کی بحث کا آغاز اور اختتام اس پر ہوتا تھا کہ کون کیا کررہا ہے کس نے کتنا کمالیا ہے یا پھر دو بندوں کو لڑانے کی سازش میں لگے رہتے تھے اور ان کو دیرینہ دشمنی کی یاد دلاکر غصہ دلاتے رہتے تھے۔ صنعتی زون بنا تو موضوعات بدل گئے کوئی صبح سائیکل کان سے پکڑ کر کسی فیکٹری جارہا ہے تو کسی کی شام کو ڈیوٹی ہے تنخواہ میں اضافے، بونس اورترقی پر بات چیت کا دور چل رہا ہے اس کے ساتھ ہی ان کی توجہ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی طرف ہوگئی تھی۔
ایک علاقہ میں معاشی سرگرمیاں چل پڑتی ہیں تو لوگوں کے پاس فالتو وقت نہیں رہتا ہے ان کو زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی فکرہونے لگتی ہے لہٰذاپھر کوئی اس پر سر نہیں کھپاتا ہے کہ حجرے میں اس کے حوالے سے کیا کچھ کہا جارہا تھا۔ اگر پہلے کندھے پر بندوق تھی تو اتر چکی ہے کیونکہ کارخانہ کا کام اور بندوق ا یک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں بلکہ عام لوگوں کے ہاتھوں میں بھی قلم آجاتے ہیں تو معمولی اور چھوٹی باتوں پرلڑائی اور جھگڑے کے رحجانات نہیں رہتے ہیں خاندانی دشمنیاں بھی دم توڑ دیتی ہیں۔
اس کے علاقہ لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں بچتا ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ کون کیا کررہا ہے ہر ایک اپنے کام میں مگن ہوتا ہے افغان جنگ سے پہلے پشاور سے ہر اتوار کو ریل گاڑی لنڈی کوتل جاتی تھی جمرود سے لنڈی کوتل تک ہر ایک بندے کے کندھے پر بندوق یا پستول ہوتا تھا جب تعلیمی ادارے کھلے ، تعلیم ،روزگار اور کاروبار کے سلسلے میں پشاور سمیت ملک کے دیگر شہروں میں آمد رفت شروع ہوگئی تو بندوق اور بڑی بڑی مونچھیں اتر گئیں مگر دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیوں کے دوران ایک مرتبہ پھر دیرینہ رو یے کا احیاء نظر آرہا ہے۔
بادشاہت کے دور میں رعایا کو ہمیشہ سیاست اور ریاستی امور سے دور رکھا گیا اگرچہ اب بادشاہت نہیں ہے مگر پاکستان میں وہ مکتبہ فکر اب بھی مضبوط ہے جو اس کے احیاء کے لئے عوام کو بادشاہوں کی رحم دلی اور خدا ترسی کی کہانیاں سناتا رہتا ہے اور انہیں یہ یقین دلانے میں لگا ہوا ہے کہ جمہوریت پاکستانی عوام کے مزاج کے مطابق نہیں ہے یہ منتخب نمائندوں پر تنقید کرتے ہوئے قانون ساز پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا کے خلاف زہر اگلنے کا موقع ضائع نہیں کرتا ہے اسی طرح مذہب اور روایات کا سہارا لے کر نصف آبادی کو ووٹ اور اظہار رائے کے حق سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے نئی روایات کی بنیاد رکھ دی اس نے عوام کو متحرک کرنے کے لئے جمہوریت کا نظام متعارف کرایا حق رائے دہی دیا عوام اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کرتے ہیں بحث ہوتی ہے ۔قراردادیں پیش کی جاتی ہیں نئے مسائل پیش آتے ہیں یا اختیارات کا آمرانہ استعمال کیا جاتا ہے تو نئی قانون سازی پر زور دیا جاتا ہے ان میں قوموں کو جتنے زیادہ اختیارات تفویض کئے جاتے ہیں ان میں زیادہ اعتماد پیدا ہوتا ہے جس سے ملک بھی ترقی کی راہ پر گامزن اور مستحکم ہوتا ہے۔
شخصی حکومتوں اور بادشاہتوں کی تاریخ چھوٹی قوموں اور راجاؤں کی سازشوں اور بغاوتوں سے بھری ہوئی ہے کبھی نوابوں اور راجاؤں کو خوش کرنے کے لئے شادیوں کے ذریعے رشتے بنائے جاتے تھے اور کبھی بزور قوت دبایا جاتا تھا اس لئے ریاست کے کبھی ایک تو کبھی دوسرے حصہ میں آگ بھڑک اٹھتی تھی ان ادوار میں ادارے شخصیات کے تابع اور مفلوج رہتے تھے۔
جمہوریت میں شہریوں کو لکھنے اور بولنے کی آزادی ہوتی ہے پریس آزاد ہوتا ہے سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں اقتدار تک پہنچنے کے لئے عوام کے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذ ہر جماعت اپنا منشور عوام میں پہنچاتی ہے اپنے پروگرام کو عوام میں متعارف کرانے کے لئے اس کے رہنماؤں کو عوام میں جاننا پڑتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں زیادہ تر سیاست دانوں کا پس منظر جاگیردارانہ ہے اور وہ عوام کے سیاست میں ملوث ہونے کو اپنے لئے باعث خطرہ سمجھتے ہیں مگر ان کی مجبوری ہے اور یہ مجبوری انتخابات کے مواقع پر مزید بڑھ جاتی ہے۔
زیادہ نہیں تو وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ وہ الیکشن کے روز ووٹ دینے ضرور پہنچیں جمہوریت کا دوسرا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ایک سیاسی لیڈر دوسرے پر الزامات لگاتا ہے تو اس کا کچا چٹھا آگے پیچھے سب کہہ ڈالتا ہے اگر یہ نہ ہوتا تو آج عوام کو یہ کیسے معلوم ہوتا کہ کس کا کتنا مال بیرون ممالک کے بینکوں میں ہے اور کس نے دوران اقتدار کس کس کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کیا کیا تھا۔ پاکستان میں جمہوریت کا عرصہ نہایت قلیل سہی مگر اس نے کلو ٹماٹر چور کو معاف کردیا ہے اور بڑے چوروں کو سامنے لے آیا ہے۔
بھارت میں یہ جمہوریت کے باعث ہی ممکن ہوا کہ ہر موضوع پر کتب دستیاب ہیں۔ اسی طرح ان کی فلم انڈسٹری ہے جس کی شہرت ملک کی سرحدوں سے نکل چکی ہے پاکستان کے ہر شہر اور دیہات میں ان کو نہایت دلچسپی اور لگن سے دیکھا جاتا ہے عوام کا شعور بیدار کرکے ان کو حقوق کے حصول کی راہ بھی دکھا رہی ہیں۔ اس کے برعکس جہاں بادشاہت ہے وہاں فرد واحد کو ایسا انسان ظاہر کیا جاتاہے گویا یہ وہ دیومالائی بیل ہے جس نے زمین کو اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اس کے دور حکومت میں مہنگائی کا نام ونشان نہیں تھا۔
بلاشبہ اس کے دور اقتدار میں روزگار کے مواقع موجود تھے مگر اس کے ساتھ ہی عوام غیر فعال ہوجاتے ہیں شخصیت پرستی کو فروغ ملتا ہے ادارے عضو معطل اور میڈیا پروگراموں کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو کند کیا جاتا ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر رونا رویا جاتا ہے کہ لوگوں نے پرا نے اخلاقی اقدار سے منُہ موڑ لیا ہے باپ بیٹوں میں محبت کا رشتہ نہیں رہا ہے۔ بڑوں کا ادب نہیں کیا جاتا ہے معاشی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے سیاست کو ہر برائی کا سبب گردانا جاتا ہے بلکہ گا لی بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
ان ساری کوششوں کا مقصد عوام کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنا ہوتا ہے کیونکہ جب وہ سیاست کے قریب نہیں آتے ہیں تو پھر ان کی جانب سے حکومت پر تنقید نہیں ہوتی ہے اس طرح حکومت میں موجود افراد اپنی من مانیاں کرسکتے ہیں جمہوریت کی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں اختیارات تقسیم ہوجاتے ہیں گو کہ یہ بادشاہت کا نیا ترقی یافتہ مرحلہ ہے مگراس سے ہزار د رجہ بہتر ہے اور پھر یہ آخری منزل نہیں ہے کیونکہ انسانی استحصال اس میں بھی جاری رہتا ہے۔