شہر کے دکانداروں کا رقص

مہرجان

1399105806-2478

شہر کے دکانداروں کا رقص دیکھ کےنجانے کیوں مجھےچارلس ڈکنز اور اسٹینو گرافرز یاد آئے۔ چارلس ڈکنز دنیائے ادب میں بڑا نام تھا ۔ہارڈی نے اپنے ایک دوست کے ذریعے ڈکنز کے تمام ناول منگوائے۔اور رات کو پڑھنے بیٹھ گیا۔ صبح جب ان کے دوست آئے تو دیکھا کہ ہارڈی صاحب بے قراری کے عالم میں ٹہل رہے ہیں ۔اور ڈکنز کی عظمت کے گن گا رہے ہیں۔

دوست نے پوچھا آپ نے تمام ناول پڑھ لیئے؟ہارڈی نے جواب دیا ہاں۔دوست بہت متعجب ہوا اور کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک رات میں آپ نے اتنے بڑے اور ضخیم ناول پڑھ ڈالے۔ہارڈی نے جواب میں کہا کہ چند خیالات یا افکار کی بنیاد پر تمام ناولوں کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔باقی تمام کام ایک سٹینو گرافر کر سکتا ہے۔

اب شہر کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو سمجھ نہیں۔ واقعی عمران خان کو سمجھ ہی نہیں ہے کہ عوام سے بات کس طرح کی جاتی ہے۔ رات کی تاریکی میں، سترہ دفعہ جنرل کیانی کے پاس اپنے چہیتے چودھری نثار اور شہباز شریف کو بھیجنا انہیں سمجھ آتا ہے۔ انہیں تو نواز شریف کا کالا کوٹ پہن کر افتخار چوہدری کے سامنے پیش ہونا بھی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ واقعی عمران بے چارے کو تو بالکل ہی سمجھ نہیں ہے۔ اسے اپنے پاس قربانی کا ایک ریوڑ رکھنا چاہیے اوربوقت ضرورت ایک ایک کرکے ریاستی خداؤں کے لیے قربان کرتا اور صرف چند دانشور عرفان صدیقی سے لے کر وجاہت مسعود تک کو اپنا گرویدہ بناتا۔

ایک آدھ آن لائن ویب سائٹ پہ جاوید چوہدری جیسے نابغہ عصر اور وجا ہت مسعود جیسے جمہوری دانشور بٹھاتا کہ جونہی میری کرپشن پہ بات ہو بس آپ لوگ بمعہ اسٹینو گرافرز ایک ہی رٹا لگانا ہے کہ یہ جنگ فوج اور جمہوریت کی جنگ ہے۔ بھلے میں اندرون خانہ بکریوں پہ بکریاں قربان کروں یا ریاستی خداوں کے پاؤں پکڑ کر اقتدار کی بھیک مانگوں ۔آپ لوگوں کی اس رٹا بازی میں کمی نہیں آنی چاہیے اور اسٹینو گرافرز کو فضل الرحمن کی قصیدہ خوانی پر بھی آمادہ کراتا کہ جب بھی ضرورت پڑے یہاں وہاں سے جملے تراش تراش کر عمران خان کے مقابلے میں فضل الرحمن کا قد اونچا کرنا ہے۔

اب اسٹینوگرافرز نے جب یہ بیڑہ اٹھایا تو انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ فضل الرحمن کوباچاخان جیسی قدآور شخصیت سے ملانے لگے ہیں اور عمران خان عمران خان کا شور اس قدر مچانے لگے کہ کبھی کبھی گمان ہونے لگا یہ ویب سا ئٹ وجاہت مسعود کی جگہ کہیں مریم نواز نے تو نہیں سنبھال لی۔

اب ان دانشوروں کی خوشی دیدنی ہے کہ انہوں نے چند قربانیوں یعنی وزارت خارجہ ، بلوچستان ،افغانستان، کشمیر سمیت سی پیک ایکسٹینشن اور کالعدم تنظیموں جیسے معاملات کے اختیارات ریاستی خداؤں کے ہاں قربانی دے کر سترہ ملاقاتوں والی جمہوریت کو دوام بخشا ہے۔ یہ اس ریاست کے سارتر والٹیر ہیں جو کسی بھی مبشر لقمان، ڈاکٹر دانش اور اوریا مقبول جان سے کم نہیں ۔

اس ریاست کے دانشوروں کا مسئلہ یہ نہیں کہ ایک طرف ہارون الرشید ،حسن نثار، ڈاکٹر دانش، مبشر لقمان جیسے لوگ قلم اور اسکرین کے سپاہی نظر آتے ہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دوسری طرف مورچہ زن سارتر والٹیر جیسے عطاءالحق قاسمی ،عرفان صدیقی، وجاہت مسعود سے لے کر ان کے مریدین تک اسی قبیل کے قلم اور اسکرین کے سپاہی ہیں ۔

بس ان کی کاری گری یہ ہے کہ جب مولانا آزاد کا چورن بیچنے کا وقت ہوتا ہے تو یہ لوگ مولانا آزاد کا چورن بیچتے ہیں اور جب مسٹر جناح کا چورن بیچنے کا وقت ہوتا ہے تو مسٹر جناح کو بھی پیغمبر بنانے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہ دوقومی نظریہ کی جگہ اک نئی ریاستی متھ کی تلاش میں بھی سرگرداں ہیں لیکن ریاستی ایوارڈ دو قومی نظریہ کے دن کی مناسبت سے بھی لیتے ہیں۔

یہ فقط لائیکس کے خبط میں مبتلا دانشور حضرات مشرف ہی کے لا ئیکس کا ہی اندازہ کرکے اپنی اس جھوٹی انا سے نکلیں تب بات بھی بنتی ۔لیکن یہ مکالمہ دلیل سچائی جیسے الفاظ کا سہارا لے کر اپنی بات کا آغاز کرتے ہیں اور جونہی کوئی ان کے نظریات کا بت توڑنے نکلے تو دلیل مکالمہ کی گردان لگانے والے مکالمہ کا دروازہ ہی بند کردیتے ہیں کیونکہ ان کو دلیل اور سچ سے زیادہ پیری مریدی، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی گروپ کی طرح اک دوسرے کی توصیف و ثناء اور اپنے نظریات پیارے ہیں ۔

یہ بظاہر واحد بلوچ کے بھی وکیل ہیں اور ان اداروں کے بھی جانثار ہیں جن اداروں نے واحد بلوچ کو اٹھایا ہوا ہے۔ انکی تحریر کہ ہزارہ پانچ خواتین کا بھرے بازار میں قتل اتنا بڑاواقعہ ہی نہیں کہ اداروں کو مورد الزام ٹھہرایا جائے اس لیے کہ ادارے درست کام کررہے ہیں۔

ان سب کا دھندا چاہے وہ مذہبی دانشور ہوں یا ریاستی ، خوب چل رہا ہے۔ انکی دکانداری سے ریاستی مُلاا ور ادارے بھی خوش ہیں اور جمہوری لیڈر بھی خوش ہیں۔ بس اب عمران خان کو ان جمہوری قائدین سے کچھ نہ کچھ سیکھنا چاہیے کہ قربانی اور قدم بوسی ان خداؤں کی کیسے کی جاتی ہے۔ شاید پھر اقتدار کی دیوی عمران پر بھی مہربان ہو جائے اور یوں عمران خان سے یا ان کے وزیر اطلاعات سے محبت بھرےکالم اور ویب سائٹس پر چرچے ہوں ۔

اے شہر کے دکاندارو! بے شک اداروں کی توصیف کرو لیکن پھر اداروں کے زندانوں میں پڑے ہوئے بلوچوں کو اپنا وکیل یا اپنا قبیل کا تو کم از کم مت کہو کیونکہ اس ریاست میں خریدار بہت ہیں اور شاعری اور لفاظی سے خریدار اور بھی بڑھیں گے کم نہیں ہونگے۔ مسخ شدہ لاشوں اور ٹارچر سیلوں میں پڑے ہوئے بلوچ کو اپنا وکیل اور قبیل کا بنا کراور کتنی دکانداری کرنی ہے۔ آپ لوگوں کی دکانداری اور مذہبی بیوپاروں میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔

جانتا ہوں میں تم کو ذوق ِ شاعری بھی ہے

شخصیت سجانے میں اِک یہ ماہری بھی ہے

پھر بھی حرف چنتے ہو ۔۔ صرف لفظ سنتے ہو ۔۔۔

اِن کے درمیاں کیا ہے ۔۔۔۔۔ تم نہ جان پاؤ گے۔

2 Comments