پائند خان خروٹی
انگریزی زبان کو دیگر عالمی زبانوں کے مقابلے میں یہ انفرادیت حاصل ہے کہ دنیا بھر میں انگریزی بولنے ، لکھنے اور سمجھنے والے اُن افراد کی تعداد کئی زیادہ ہے جن کیمادری زبان انگریزی نہیں ہے۔ تمام بر اعظموں میں مختلف اقوام اور مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے افراد تجارت،علوم اور تحقیق کے علاوہ سیاسی اور سماجی روابط و تعلقات میں انگریزی زبان کا استعمال کرتے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انگریزی زبان ہی گلوبل ویلج کی واضح لینگوافرینکا بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں مادری زبان کی حیثیت سے انگریزی بولنے والوں کے علاوہ دیگر اقوام جن کی انگریزی مادری زبان نہیں ہے۔ اُن کا بھی انگریزی کو مشترک میراث اور لینگوافرینکا یعنی رابطے کی زبان بنانے میں کردار کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس طرح انگریزی زبان کی افادیت مختلف پہلوؤں سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ’’ انگلستان کی ادبی تاریخ ہمارے نزدیک انگریز قوم کی سوانح عمری ہی نہیں بلکہ تمام مغربی علمی اور ادبی تحریکوں کو سمجھنے کیلئے بہترین ذریعہ بھی ہے‘‘۔ (1)۔
انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں زبانوں کی مقبولیت اور جغرافیائی حد بندی میں فرق آتا رہا ہے۔ آج بھی ایسی متعدد زبانیں موجود ہیں جو ایک سے زائد اقوام میں بولی اور سمجھی جاتی ہے لیکن بین القوامی سطح پر قوموں کے درمیان تجارت ، معیشت ، سیاست اور سماجی شعبوں میں انگریزی کا کردار اُن تمام زبانوں سے کئی زیادہ ہے اور غالب امکان ہے کہ مستقبل قریب میں اور خاص طور سے سکھڑتے اور سمیٹتے ہوئے مواصلاتی فاصلوں کے نتیجے میں انگریزی زبان نہ صرف
Linguistic Heterogeneity
کیلئے راہ ہموار کریگی بلکہ دنیا کی مستقبل کی لینگوافرینکا بھی ثابت ہوگی۔بر طا نو ی سا مر اج کا سو ر ج تو دو سری جنگ عظیم کے بعد غر وب ہو نا شر وع ہو گیا مگر انگر یز ی زبان برا عظم یو رپ کے ایک چھو ٹے ٹکڑے سے نکل کر پو ری دنیاکی زبا نو ں پرحا و ی ہو تی چلی گئی ۔ آ ج دنیا میں ہر دن کا سو ر ج دس ہز ار رو ز نا مہ انگر یز ی ز با ن کے اخبا را ت کے سا تھ جلو ہ گر ہو تا ہے ۔ انٹر نیٹ کے لا کھو ں ویب سا ئٹو ں پر کل دستیا ب مو ا د میں سے اسی فیصد ڈیٹا انگر یز ی زبا ن میں ہی ہے اور کر و ڑ وں لو گ رو ز انہ اس سے مستفید بھی ہو رہے ہیں ۔ اقو ام متحد ہ ، انٹر نیشنل او لمپکس کمیٹی ،او آ ئی سی ، پو رپی یو نین اور نیٹو کی دفتر ی زبا ن کے سا تھ سا تھ تر جمو ں ، جد ید سا ئنس اور ڈیجیٹل انفا ر میشن ٹیکنا لو جی سے انگر یزی زبا ن کی اہمیت و افا دیت کو مز ید تقو یت مل چکی ہے ۔
بین الاقوامی منظر نامے پر انگریز قوم اور انگریزی زبان کا ابھار برطانیہ کی تاریخی صنعتی انقلاب ا مرہون منت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صنعت وحرفت کے وجود میں آنے اور فروغ پانے کے ساتھ ساتھ ہی انگریز قوم کی ترقی اور انگریزی زبان کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا۔ اس طرح انگریزی زبان یورپ میں بھی سب سے پہلے جدید معاشی اور سیاسی نظام سے روشناس ہوا۔اس ضمن میں صنعتی انقلاب اور پھر انگریزی کو مستحکم کرنے میں انگریز دانشوروں، سائنس دانوں اور محنت کشوں کا فعال کردار بھی قابل ستائش ہے۔ ’’ چارلس ڈارون، الفریڈرسل ویلس اور ہربرٹ سپینسر کے خیالات وافکار نے عہد وکٹوریا (1832-1900 )کے انگلستان میں فطرت انسان اور سماج کے متلعق تمام مروجہ اقدار کو الٹ پلٹ کے رکھ دیا ۔ فکر و تخیل میں یہ تبدیلیاں جن سے پرانی قدروں کی جگہ نئی قدریں راہ پانے لگی تھیں دراصل ہمہ جہتی مادی ترقی اور عام تعلیم کی توسیح کا نتیجہ تھیں‘‘۔ (2)۔
اس پورے عمل کے مشاہدے مارکسی تصور مستحکم ہوجاتا ہے کہ زبانوں کی ترقی و ترویج میں پیداواری قوتوں اور ذرائع پیداوار کی ترقی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے برطانیہ کے سامراجی کردار اور دنیا کے بڑے حصے پر انگریز فرہنگی کی حکمرانی نے انگریزی زبان کو بین الاقوامی زبان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ’’ صنعتی انقلاب کے ساتھ وسیع پیمانے پر مصنوعات کی ساخت ہونے لگی جن کی کھپت کیلئے منڈیوں اور کچے مال کی فراہمی کیلئے نو آبادی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ۱۸۷۵ء کے لگ بھگ یورپی اقوام میں ایشیاء اور افریقہ کی منڈیوں اور نوآبادیوں کے حصول کیلئے بے پناہ تگ ودو کا آغاز ہوا۔ مشرق وسطیٰ سے لیکر ہندوستان تک اور جزائر مشرق الہند سے لیکر چین وجاپان تک کے اکثر ممالک پر اہل مغرب کا سیاسی اور اقتصادی تسلط قائم ہوگیا‘‘۔ (3)۔
بعض ادیب ودانشور جن کی فکر پر رجعت اور قدا مت پر ستی کا غلبہ ہے اور جو ہرنئی چیز کو مسترد کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں آج بھی وہ انگریزی زبان کی اہمیت و افادیت قبول کرنے کیلئے تیارنہیں ہیں۔ اس لینگویج فوبیا میں ایک طرف اگرانگریزی سے نفرت کا اظہار ہے تو دوسری طرف وہ اپنی نااہلیت اورانگریزی سے ناواقفیت کو چھپانے کی ناکام کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی زبان دنیا کی ایک بڑی سامراجی قوت کی زبان رہی ہے اور اس اعتبارسے اس زبان نے سامراجی مفادات اور استحصالی عزائم کو تحفظ دیا ہے اہل بینش ودانش نے اس کی سامراجی پہلوؤں کو لنگوسٹک امپریلزم کا نام دیا ہے تاہم علوم وفنون ، ادب، سائنس، تحقیق اور دیگر متعدد تعمیری شعبوں میں انگریزی نے جو قابل قدر خدمات انجام دئیے ہیں اُن سے محض اسلئے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انگریزی زبان ملکہ برطانیہ کی مادری زبان تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ برطانیہ کے سامراجی کردار میں جس شرح سے کمی ہورہی ہے انگریزی زبان کی غیر سامراجی صفات میں اس شرح سے اضافہ بھی ہورہا ہے۔ اس کے علا وہ اس دو ہر ے معیا ر و عمل اور کج بحثی پر بھی نظر رکھنے کی ضروت ہے کہ بلاجواز انگریزی زبان کی مخالفت کرنے والے انگریزوں کی سائنسی ایجادات اور جدید سہولتوں سے استفادہ کرنے میں کوئی تکلف نہیں برتے۔
ہماری قومی زبانوں مثلاً بلو چی ، پشتو ، پنجا بی ، سند ھی ، بنگا لی اور سرا ئیکی وغیر ہ میں لکھنے والے ادیبوں، دانشوروں، شعراء اور صحافی حضرات کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک کرنا چاہیے کہ گلوبلائزایشن ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ انسان مختلف شعبوں اور خاص طور سے مواصلات کا شعبہ جس تیزی سے ترقی کررہا ہے اس کا لازمی نتیجہ بین الاقوامی مشترکہ معاشرے کی صورت میں برآمد ہوگاجس کسی کو مستقبل میں زندہ رہنا ہے اُسے ہراعتبار سے خود کو بین الاقوامی معاشرے کا حصہ بننے کی اہلیت و صلاحیت حاصل کرنی ہوگی۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ کہ ماضی کے قصوں میں جینے والے لوگ اپنی تنگ نظری اور محدودیت کے خول سے باہر آکر عالمی رجحانا ت کو نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ کنزیوم کرنے کی بجائے کنٹروبیوٹ کیا جائے۔ واضح رہے کہ جو لوکل ادیب، دانشور اور اہل علم و سیاست گلوبل سیاسی اور معاشی کلچرل کا حصہ نہیں بنتے یا بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے اُن کیلئے دنیا ابھی سے ختم ہوگئی ہے۔ انگریزی زبان کے مشہور نقاداور شاعر نے بہت پہلے نہ صرف یہ ضرورت محسوس کی بلکہ اپنے نقادوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہر نقاد کیلئے دنیا کی ایک عظیم زبان وادب سے واقفیت ضروری ہے اور وہ زبان وادب جس قدر مختلف ہوگا اتناہی بہتر ہوگا۔
”The Engish Literary critic
must know literatures other than his own and he must be in-touch with European standard” (4)
جہاں تک گلوبلائزایشن کا تعلق ہے اس غلط فہمی کو دورہونا چاہیے کہ عالمگیریت صرف سرمایہ کے عالمی شکل اختیار کرنے کا نام ہے۔ یقیناً سرمایہ کی عالمی یلغار ایک منفی عمل ہے جو استحصال اور منافع پر مبنی ہے اور اس کی بھرپور مزاحمت اور مخالفت بھی کرنی چاہیے لیکن عہد حاضر کے سب سے معتبر فلاسفر اور سرمایہ دارانہ نظام کے سرجن کارل مارکس نے برملا کہا ہے کہ دنیا کو بہرحال یکجا ہو ناہے، استحصال سے پاک ایک عالمی بستی کی شکل اختیار کرنی ہے اور دنیا بھر کے محنت کشوں کو مکمل اتحاد ویکجہتی کے ساتھ صحت مند انسانی معاشرہ کی تشکیل نو کرنی ہے۔ سا ئنس اینڈ ڈیجیٹل انفا ر میشن ٹیکنا لو جی کے اس تیز رفتا ر دور میں سیا ست ، معیشت ، سر ما یہ اور علم و آ دب کو ایک قوم یا ملک تک محد ود نہیں رکھا جا سکتا بلکہ تما م قو می اور ملکی معا ملا ت کو عا لمی تنا ظر میں دیکھنا اور پر کھنا بنیا دی شر ط ہے ۔ جر من دا نشور گو ئٹے نے تو 1827میں د نیا پر وا ضح کیا کہ لفظ قو می ادب بے معنی ہے اور عا لمی ادب کا زما نہ قر یب ہے انہو ں نے عا لمی ادب تک جلد رسا ئی حا صل کر نے پر زور دیتے ہو ئے کہا کہ ۔
”National literature is now un-meaning term; the epoch of world literature is at hand & every one must strive to histen its approach”.(5)
انگر یز ی زبا نی کی مو جو دہ عا لمگیر حیثیت دنیا کی صنعت وتجا رت ، سا ئنس اینڈ ٹیکنا لو جی علم و تحقیق کے میدا ن میں سر انجا م دینے والے کا ر نا مو ں کے سا تھ مشر وط ہے اس سے بھی انسا ن اور انسا نیت دو نو ں کی تر قی و سلا متی کے لئے تقو یت مل سکتی ہے ۔ زبا ن اور ریا ست کی اہمیت سے انکا ر نہیں ہے مگر اس کے با وجود ان دو نو ں کے مقا بلے میں انسا ن کو اولیت حا صل ہے ۔ انسان کی ترقی اور ارتقاء کے سفر میں تہذیب وتمدن کے ساتھ ساتھ زبانیں بھی تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ بنی نو انسان کی بقاء اور ترقی سے زیادہ اہم نہ تو تہذ یب وتمدن ہے اور نہ ہ ہی کو ئی زبان۔ انسان کی عظمت اور خوبصورتی کوجما لیات کی پہلی سچا ئی قر ار دیتے ہو ئے جرمن فلاسفر فر یڈ رک نطشے نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے ’’nothing is beautiful, only man; on this piece of naivete rests all aesthetics , it is the first truth of aesthetics.‘‘
حوالہ جات:۔
1۔ شیخ خالد محمود ، انگریزی ادب کی مختصر تاریخ، پبلشرزایمپیوریم لاہور، 2005، ص II
2۔ ایضاً ص 173
3۔ جلا لپو ری ، علی عبا س ، رو ح عصر ، نا شر ، تخلیقا ت لا ہو ر ، ,2013ص 122
4۔ Britis Critic by Basil willey,Ensyclopaedia Britannica
5۔ What is the World litreture? by Dr. David Damrosch, 2003, page 2