صوبہ سندھ میں نیا قانون منظور کر لیا گیا ہے، جس کے تحت جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے والے شخص کو عمر قید کی سزا سنائی جائے گی۔ اس نئے قانون کا مقصد اقلیتوں اور نابالغ افراد کو تحفظ فراہم کرنا بتایا گیا ہے۔
اس نئے قانون کے تحت جو بھی شخص اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے، اسے کم از کم تین ہفتے یا اکیس دن انتظار کرنا ہو گا۔ بل کے متن کے مطابق، ’’یہ ضروری ہے کہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کو جرم قرار دیا جائے اور اس گھناؤنے طریقہ ء کار کے متاثرین کو تحفظ فراہم کیا جائے‘‘۔
صوبہ سندھ میں جبری مذہب کی تبدیلی کا ایک عرصے سے مسئلہ چلا آ رہا ہے۔ سندھ میں مقیم اقلیتی ہندو برادری کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ان کی لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کر لیا جاتا ہے اور مسلمان لڑکوں سے شادیاں کروا دی جاتی ہیں۔ تاہم ماضی میں مسلمان ہونے والی ہندو لڑکیاں عدالت میں ایسے بیانات بھی دے چکی ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہیں۔
ہندو برادری کا کہنا ہے کہ ایسے بیانات دباو کے تحت لیے جاتےہیں جس میں عدالت بھی فریق ہے۔پاکستان میں بسنے والی ہندو برادری کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ نابالغ بچے نا سمجھ ہوتے ہیں اور ان میں کوئی بھی فیصلہ سمجھ بوجھ کر کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔
اس نئے قانون کے تحت کوئی بھی ایسا لڑکا یا لڑکی، جس کی عمر اٹھارہ برس سے کم ہے، مذہب تبدیل کرنے کا مجاز نہیں ہوگا۔ زبردستی مذہب تبدیل کروانے والے شخص کے لیے کم از کم پانچ سال جبکہ زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا رکھی گئی ہے۔
اس بل میں جبری مذہب کی تبدیلی میں سہولت کاری کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے، جس کے مطابق اگر کوئی شخص جس کو معلوم ہے کہ ایک فریق یا دونوں فریقین کا مذہب جبری تبدیل کیا گیا ہے اور وہ شادی میں معاونت یا سہولت فراہم کرتا ہے تو وہ بھی سزا کا مستحق ہوگا اس کو تین سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جائے گی اس کے علاوہ شادی کا انتظام کرنے، مولوی اور دیگر سہولتوں کاروں کو بھی شریک جرم تصور کیا جائے گا۔
اس بل میں بتایا گیا ہے کہ زبردستی مذہب کی تبدیلی کے مقدمے میں سندھ چائلڈ میریج ایکٹ ، پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 498، 375، 376، 365 اور 361 کو بھی شامل رکھا جائے گا اس کے علاوہ جبری مشقت کے خاتمے کے قانون کی شقیں بھی اس قانون میں شامل ہوں گی۔
بل میں شکایت کا نظام بھی واضح کیا گیا ہے۔ جس کے تحت متاثر فرد یا باخبر شخص عدالت میں درخواست دے سکتا ہے، عدالت یہ درخواست موصول ہونے کے سات روز کے اندر تاریخ مقرر کرے گی اور ملزم کو طلب کرکے جواب طلبی کرے گی اور یہ مقدمہ 90 روز کے اندر نمٹایا جائے گا۔
جبری مذہب کی شکایت عدالت کے علاوہ پولیس کے پاس بھی درج کی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی پولیس افسر جس کو یہ شکایت موصول ہوئی ہے کہ کسی فرد کا جبری مذہب تبدیل کیا گیا ہے تو وہ اس شخص کو تحویل میں لینے کے 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کرے گا۔ کسی نابالغ فرد کی صورت میں حتمی فیصلہ عدالت کرے گی کہ وہ صغیر ہے یا بالغ۔ عدالت مطمئن ہونے کے بعد اس کو والدین کے سپرد کرے گی اس وقت تک اس فرد کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے کے حوالے کیا جائے گا۔
ایک ہندو رکن اسمبلی نند کمار کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ ایک تاریخی قانون ہے، جسے ہم منظور کر چکے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس قانون سے اقلیتی ہندوؤں کی حالت زار بہتر ہو گی اور انہیں زیادہ تحفظ کا احساس ہوگا۔‘‘
2 Comments