یہ کالم میں تقریبا چھتیس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑان کے دوران لکھ رہا ہوں۔برٹش ایرویز کا طیارہ لندن سے ٹورونٹو کی طرف اڑ رہا ہے۔ میں لندن میں ایک کانفرنس کے سلسلے میں آیا تھا۔ کانفرنس کا انعقاد ایمبسیڈر پرو فیسر حسین حقانی اور ڈاکٹر محمد تقی نے کیا تھا۔کانفرنس کا موضوع تھا پاکستان کا مستقبل۔شرکا میں صحافی، ادیب، لکھاری، دانشور اور سیاست کار شامل تھے۔
پاکستان کے مستقبل پر کانفرنس میں بہت ہی مفید اور پر مغز گفتگوہوئی۔کانفرنس میں لبرل اور ترقی پسند لوگ شامل تھے جن کا شمار اب پاکستان میں ایک ایسی نسل میں ہو تا ہے جو خطرے سے دوچار ہے۔مگر یہ خوش امید لوگ ہیں۔ہمیشہ اچھے مستقبل کا خواب دیکھتے رہتے ہیں۔اور مستقبل سے کبھی مایوس نہیں ہوتے۔
ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان اپنی تاریخ کے تاریک ترین دور سے گزر رہا ہے۔اور وہ دن دور نہیں جب تاریکیوں کے یہ سائے چھٹ جائیں گے اور پاکستان میں ایک نئی صبح طلوع ہو گی۔تب پاکستان میں ایک ترقی پسند اور روشن خیال نظام ہو گا۔امن اور انصاف ہو گا۔اور پاکستان ایک سیکورٹی نہیں بلکہ ویلفئیر ریاست ہو گی۔شرکا میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو پاکستان کے مستقبل سے مکمل طور پر مایوس تھے۔
ان کا خیال تھا کہ پاکستان بطور سیکورٹی سٹیٹ تیزی سے زوال کی طرف گامزن ہے۔بلوچستان کے حوالے سے یہ رائے عام تھی کہ ہیت مقتدرہ بلوچستان کے سوال پر ناکام ہو گئی ہے۔اور اس حوالے سے 1971 والی صورت حال پیدا کی جا رہی ہے۔بلوچ شرکا کا خیال یہ تھا کہ ان کے ساتھ وہ ہو رہا جو بنگالیوں کے ساتھ بھی نہیں ہوا تھا۔بلوچوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ان کو ائے دن اغوا اوغائب کیا جا رہا ہے اور باقی ملک خاموش اور اپنے حال میں مست ہے۔
صحافیوں، ایڈیٹروں اور اینکر پرسنز کا خیال یہ تھا کہ اظہار رائے پر اب جو اور جس طرح کی پابندیاں ہیں پہل کبھی نہیں رہیں۔ملک میں با ضابطہ مارشل لا نہیں۔ مگر حکومت کے پاس خارجہ اور داخلہ امور پرکوئی اختیار، کوئی طاقت نہیں۔مجموعی طور پر شرکا پاکستان کی موجودہ مایوس کن صورتحال کی عکاسی کر رہے تھے۔اور یہ موجودہ صورتحال ظاہر ہے راتوں رات تو پیدا نہیں ہو گئی۔ اس کے پیچھے ایک طویل تاریخی سلسلہ عمل ہے۔جو بیج بویا جاتا ہے وہی فصل اگتی ہے۔ہم اگر کسی اور طرح کی فصل کی امید رکھتے تھے تو ہمارا قصور ہے۔
اور اگر حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو دس سال بعد شائد کوئی لبرل یاترقی پسند پاکستان کے حوالے سے دنیا کے کسی کونے میں کانفرنس کرنے کی جسارت نہ کر سکے۔اور ڈگر یہ ہے کہ ہم اپنے سماج میں کسی بنیادی تبدیلی کی بات کیے بغیرخوش کن نتائج کی امید رکھتے ہیں۔مستقبل کا جب لفظ آتا ہے تو نظر سب سے پہلے بچوں اور جواں نسل پر جاتی ہے۔ظاہر ہے یہی لوگ کسی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ملک کو ویسا ہی بنائیں گے جو یہ خود ہوں گے۔اور یہ خود کیا ہوں گے ؟ اس بات کا پورا دارمدار ان کی تعلیم و تربیت پر ہے۔
تعلیم ان بچوں کی بڑی اکثریت کو دو جگہوں پر دی جاتی ہے۔ ایک سرکاری سکولوں میں اور دوسرا مدرسوں میں۔سرکاری سکولوں میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ تعلیم کے ساتھ ایک مذاق ہے۔یہاں درس و تدریس سے لیکر امتحانات کا طریقہ کار تک فرسودہ اور بے کار ہے جو ڈگریاں بانٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔اس پر طرہ یہ کہ نصاب تعلیم انتہائی متعصب اور جاہلانہ ہے۔یہاں شروع سے ہی بچوں کو تخلیق، سوچ و بچار، سوال و جواب اور بحث و مباحثے سے روک کر تعصب اور تقلید کے راستے پر ڈال دیا جاتا ہے۔
بچوں کی تعلیم کی ایک دوسری بڑی جگہ مدرسے ہیں۔اور مدرسوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، جس طرح کا علم بانٹا جا رہا ہے وہ اب کوئی راز نہیں جس سے پردہ اٹھایا جا ئے۔جہاں تک بچوں کی تربیت کا سوال ہے تواس تربیت میں والدین، سماج، اساتذہ، میڈیا سب کا حصہ ہوتا ہے۔یہاں والدین اپنے بچوں کوخود امتحان میں نقل کرواتے ہیں۔ان کی سفارش لے کر جاتے ہیں۔ ان کو جھوٹ بولنے کے لیے کہتے ہیں۔میڈیا نے سچ نہ بولنے یا لکھنے کی قسم اٹھا رکھی ہوتی ہے۔
سماج میں مختلف سوچ اور فکر کو برداشت کرنے کا کوئی رواج نہیں۔مختلف سوچ رکھنے والوں کو غدار کہا جاتا ہے۔رشوت،سفارش اور اقربا پروری کو برا نہیں سمجھا جاتا۔تو ایسے ماحول میں اور ایسی اخلاقیات لیکر جو نسل جوان ہوگی وہ کل پاکستان کا مستقبل ہوں گے۔اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یہ اندازہ لگانے کے لیے دانشوری کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا۔
♥
One Comment