مہرجان
یہ فقط دو تصاویر نہیں بلکہ دو کہانیاں ہیں اس ریاست کی اور اس ریاست کے دانشورورں کی کہانیاں کہ وہ کیسے لفاظی اور افسانہ نگاری سے جھوٹ کو تراشتے ہیں پھر دکان میں بیٹھ کر اپنی پوری زندگی یہی دھندا چلاتے ہیں جہاں خریداروں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے اور ان کی دولت اور شہرت کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔
یہ فقط ایک دانشور کی کہانی نہیں جسے بلوچستان یونیورسٹی میں مسلح جتھے نظر آتے تھے وہ مسلح جتھے جب چاہتے کسی ٹیچر کو قتل کرتے اور کوئی لاش اٹھانے والا نہیں ہوتا۔ یہاں ہر دوسرا دانشور اسی طرح لفاظی اور افسانہ نگاری سے اپنے خریدار بڑھا رہا ہے بس لفاظی کا ہنر ہاتھ لگ جائے تو اوریا مقبول، ہارون الرشید ، وجاہت مسعود ، جاوید چوھدری بننے میں دیر نہیں لگتی۔
مندرجہ بالا تصویر میں لفاظی کے جادوگر جاوید چودھری ہیں جو بدلتے ہوئے بلوچستان پہ ایسی افسانہ نگاری کرتے ہیں کہ جھوٹ بھی شرماجائے اور دوسری تصویر بھی بلوچستان یونیورسٹی میں ان طالب علموں کی ہے جو لائبریری جانے کے لیے لائن میں لگے ہوئے ہیں۔
” بدلتا بلوچستان “میں فقط اتنا بدلا کہ وائس چانسلر بقول جاوید چوھدری پستول لے کر گھومتے رہتے ہیں اور طالب علم لائبریری میں جانے کے لیے کئی چیک پوسٹس سے گذر کر بھی لائبریری میں جانے کے لیے لائن میں کھڑے ہوکر تلاشی دیتے ہیں ۔
ہارون الرشید بھی کچھ عرصہ پہلے جب جھنڈے والی گاڑی میں بیٹھ کر جشن آزادی منانے زیارت گئے تو ا نہیں پورے رستے میں بغیر ڈنڈوں کے جھنڈے دکھائی دئیے تھے اور انہوں نے بھی پورا کالم “بدلتا ہوا بلوچستان” پہ لکھ مارا ۔خیر ان کو تو جنجوعہ صاحب چاغی کے میٹھے تربوز بھی بھیجتے رہے تب ہی تو وہ کسی بھی جرنیل کے لیے لفاظی میں کنجوسی سے کام نہیں برتتے۔
اسی طرح وجا ہت مسعود کو بھی بلوچستان سے وہ خبر ملی جن کا بلوچستان کے باسیوں کو بھی علم نہ تھا کہ بلوچستان کے قصبے قصبے میں جشن آزادی منایا گیا اوریا مقبول تو بلوچستان پہ اسپشلسٹ مانے جاتے ہیں کیونکہ انہیں بلوچستان کے قریہ قریہ جانے کا اتفاق ہوا ہے جہاں انہیں ہر جگہ سردار ہاتھ میں تلوار لیے نظر آتا ہے۔
خیر آپ لوگ یہ سوچتے ہونگے یہ سب آپس میں لاکھ اختلاف کریں لیکن وہ کونسی جگہ ہے جہاں یہ سارے نسیم حجازی بن جاتے ہیں تو وہ جگہ ہے “بلوچستان” جہاں ان کی دکانداری اور خریدار ایک ہی صف میں نظر آتے ہیں۔ یہ بھلے اک دوسرے پہ طنز و تنقید کریں لیکن ان کی دلیل منطق اور سچائی کی پوشاک کو مسخ شدہ لاشیں ہر بار تار تار کرتی ہیں اور یہ ہر بار یہ پوشاک مذہب اور ریاست کے نام پہ پہن لیتے ہیں۔
لیکن ویرانوں میں پڑی ہوئی لاشیں اور ٹارچر سیلوں میں بند بلوچ نوجواں انکو پھر سے بے لباس کردیتے ہیں ان کے خریدار بمعہ مریدین لفاظی اور من گھڑت جھوٹ کے سحر میں مبتلا ہوکر انہیں وہ مناصب عطا کر دیتے ہیں کہ بندہ سوچنے لگتا ہے گندہ ہے پر دھندہ اچھا ہے ۔
وجاہت مسعود نے پچھلے دنوں اک سوال اٹھایا کہ آخر جالب اکیلا کیوں رہ گیا؟۔ بس اسی سوال کا جواب ہمیں بھی چاہیے کہ آج کے پر آشوب دور میں کون سا دانشور اکیلا ہے ہر طرف مریدوں سے لے کر سیاسی کرداروں کے جم غفیر ان دانشوروں کے ساتھ ہیں۔
ان دانشوروں کے پاس چاہے نام نہاد ریاستی لبرل ہوں یا مذہبی چورن بیچنے والے ،ان کی واہ واہ میں اور ریاستی نوازشات میں کوئی کمی نہیں۔ ان کا دھندا خوب چل رہا ہے ان میں جالب تو دور کی بات کوئی شعیب عادل بھی نہ بن سکا۔۔۔ ہاں البتہ نسیم حجازیوں ممتاز مفتیوں شہابیوں اور بابوں کی کوئی کمی نہیں ۔
پنجاب کی سرزمیں سے یہی کردار اب جاوید چوھدریوں ،ہارون رشیدوں ،اوریاوں اور وجاہتوں جیسے دانشوروں کی صورت میں اک دفعہ پھر یہ دھندا چلارہے ہیں۔ فقط دکان کے اوپر آویزاں سائن بورڈ پہ کہیں مذہب تو کہیں ریاست آویزاں ہیں لیکن اندر خانہ مال سب کا ایک ہے۔
♥