منیرسامی
ادب کی تاریخ میں ایک مسلمہ حقیقت یہ بھی ہے کہ بعض شاعرانہ خیالات، استعارے، علامتیں، کسی عام کہاوت، کسی پہیلی ، کسی عوامی گیت سے نکلتے ہیں، اور تخیل اور وقت کی کٹھالی میں پگھل کر کندن اور امر ہو جاتے ہیں۔ بعض بار یہ بھی ہوتا ہے کہ شاعر نہایت گہری بات کہنے کے لیے ایک بظاہر عام سی بات کو لے کر وہ کہہ جاتے ہیں کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔
آپ میں بہتوں نے بچپن میں ایک خوب صورت نظم پڑھی بھی ہوگی، رٹی بھی ہو گی اور اکثر تنہایا جماعت کے ساتھ مل کر گائی بھی ہو گی۔ نظم یہ ہے :۔
Humpty Dumpty sat on a wall
Humpty Dumpty had a great fall
All the king’s horse, and all the king’s men
Could’nt put Humpty together again
’’وہ اک دیوار پر بیٹھا ہوا تھا
گرا تو کوئی بھی کام آسکا، نہ پھر اس کے
نہ گھڑ سوار ، نہ پیادے، بچا سکے اس کو
نہ ہی نشست پہ پھر سے بٹھا سکے اس کو‘‘
ہمارے ذہن میں یہ نظم کئی حوالوں سے گردش کر رہی تھی، اور ذہن میں اس کے حوالے سے کئی سوال جنم لے چکے تھے۔ لیکن اپنی کیا حیثیت کیا اپنی آبرو، اس نظم کی بجھارتوں پر تو صدیوں سے گفتگو ہو چکی، اور حال ہی میں اس کا استعارہ ،محترم عاصم بخشیؔ نے اپنے ایک مضمون میں بھی استعمال کیا ہے۔
جو سوال اس نظم میں اٹھتے رہے ہیں وہ اس طرح کے ہیں کہ، ہمپٹی ڈمپٹی کون ہے، کیا وہ کوئی انسانی کردار ہے، کیا وہ واقعی ایک انڈا ہے، جس کی تصویر ہمارے ذہنوں پر اس نظم کے ساتھ نقش ہے، کیا وہ کوئی سیاسی کردار ہے، یہ دیوار کیا ہے، کسی قلعہ کی دیوار ہے، یا انا کی کوئی دیوار ہے، یا فیصلہ کی دیوار ہے جس پر بیٹھا ہمپٹی مخمصوں کا شکار ہے۔، ہاں یہاں جونؔ صاحب کا ایک شعر یاد آگیا، ۔۔۔ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی۔۔ چل نہ پڑیئے تو پائوں جلتے ہیں۔۔ اور ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ اسے اس دیوار پر چڑھایا کس نے ہے۔ غرض یہ کہ سادہ سی یہ بجھارت ، ہر ذہن میں تصورات کی پرچھایئاں ابھارتی ہے۔
بعض یہ کہتے ہیں کہ ’ہمپٹی ڈمپٹی‘ ایک توپ کا نام تھا، جو ایک بغاوت میں ایک شہر کی فصیل پر چڑھائی گئی تھی، اور جب دشمنوں نے فصیل ڈھائی تو یہ توپ گر کر ٹوٹ گئی، اور پھر اسے ہزار کوشش کے بعد بھی جوڑا نہ سکا۔ ایک اور روایت یہ ہے کہ یہ شاید یہ کردار برطانیہ کا شاہ رچرڈ سوئم ہے جس کی کمر میں کُبھ تھا ، اور جو اپنی ساری فوج کے باجود ایک جنگ میں بری طرح شکست کھا گیا تھا۔ اس روایت کو خود شیکسپیئرنے اپنے ایک تاریخی ڈرامہ میں رقم کیا ہے۔
بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ، یہ شاید برطانیہ کی تاریخ کا کردار ’کارڈینل وولزی‘ تھا جسے شاہ ہنری ہشتم نے قتل کرو ادیا تھا۔ بعضوں کا خیال یہ بھی ہے کہ ’ہمپٹی ڈمپٹی‘ دراصل شیطان تھا کہ جب وہ جنت کی دیوار سے گرا تو پھر نہ خدا نہ اس کے فرشتے اسے اس کا اعزازی منصب واپس دے سکے۔
اس کردار کو اور اس نظم کو ادب اور ثقافت میں بارہا استعمال کیا گیا ہے، جس کی اہم مثال Lewis Carroll، کی مشہورِ زمانہ کہانی Through the Looking Glassمیں ایلِسؔ کا ہمپٹی ڈمپٹی سے ایک مکالمہ ہے جس میں لکھنے والوں کے استعمالِ لفظ و معنی کو نہایت خوبصورتی سے سمجھایا گیا ہے۔ اس مکالمے کا ایک دلچسپ ترجمہ ، عاصم بخشی ؔ صاحب نے بھی کیا ہے۔ اسی طرح اس نظم اور اس مکالمہ کا برطانیہ اور امریکہ کے اہم مقدمات میں بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ اور اب سے چند سال پہلے اس کردار کو چِلی کے رہنما Salvador Allende کے نظام کے خلاف بھی طنز کے طور پر استعمال کیا گیا ، جس کا حوالہ معروف ماہرِ معاشیات ، ملٹنؔ فریڈ مین ، نے اپنی یاد داشتوں میں دیا ہے۔
آج ہی کی بات ہے کہ آسٹریلیا کی پارلیمان میں وہاں کے Attorney General کے خلاف ایک بیان میں ان پر تنقید کرتے ہوئے، ایلِسؔ کے مکالمہ کو استعمال کیا گیا :
‘When I use a word,’ Humpty Dumpty said, in rather a scornful tone, ‘it means just what I choose it to mean, neither more nor less’,” the report cited.
بہت بڑے ادبی حوالوں میں شاید صرف جیمز جوایئس ؔ کا نام ہی کافی ہو، جو اسے زوالِ انسانی کے ایک مکرر عنصر (Motif)کے طور پر اپنی اہم تحریر Finnegans Wake، میں استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح اس کردار یاخیال پر مبنی اک امریکی ناول All the King’s men کو پلٹزر انعام بھی ملا اور اس پر بنائی گئی فلم کو آسکر ایوارڈ بھی ۔
اس تحریر میں ہمپٹی ڈمپٹی کا حوالہ ہم نے اس لیے دیا ہے کہ ہمارے اورآپ کے اطراف بھی ہمپٹی ڈمپٹی یا اس کے سائے گردش کرتے رہتے ہیں، جسے اس کے حواریوں ، طفیلیوں، اور خوشامد پرستوں نے دیواروں پر یا بلّیوں پر سجایا ہوتا ہے۔ جو باتیں تو صلیب و دار کی اور کرتا ہے لیکن انا کی دیوار پر سے گرنے سے خوفزدہ بھی رہتا ہے۔ اور جب پھٹ سے گرتا ہے تو پھر اس کی داستاں تک بھی داستانوں میں نہیں ملتی۔
اب آپ چاہیں تو اسے جس کردار پر منطبق کردیں، ایک تو کیا ہزار منظر سامنے ہیں۔ ہمپٹی ڈمپٹی وہ خلقِ خدا بھی ہوسکتی ہے ، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو، جسے دیواروں سے گرائے جانے کی کہانی ہر طرف عام ہے، اور جس کی افتادگی کا نوحہ بھی نہیں لکھا جاتا۔
ہمیں تو شاعرِ بے مثال و با کمال و لازوال حضرتِ جون ایلیا اس دیوار پر چڑھنے سے بچنے کی ترغیب اس طرح دے گئے ہیں:
میں اس دیوار پر چڑھ تو گیا ہوں
اتارے کون اب دیوار پر سے؟
♦