فکر اقبال کو رد کیجئے ، جناح کا نظریہ اپنایئے

2f5358f9c7e2bb9caffc14adf6ce81ac_9d1

نصیر احمد

ایک آن لائن میگزین میں کالم نگار یاسر لطیف ہمدانی نے مندرجہ بالا عنوان کے تحت لکھا ہے کہ چونکہ فکر اقبال مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دیتی ہے اس لیے اسے مسترد کردینا چاہیے اور جناح نے سیکولر ازم کی بات کی تھی اس لیے ان کا نظریہ اپنانا چاہیے۔ بادی النظر میں یہ بات بہت شاندار معلوم ہوتی ہے ۔ مگر میر ی رائے میں جناح کا نظریہ بھی پاکستان کے لیے اتنا ہی نقصان دہ ثابت ہوا ہے جتنی کے اقبال کی فکر۔

مضمون نگار لکھتے ہیں کہ”اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں مسئلہ مسلمانوں کو سیاسی طورپر متحرک کرنے کا تھا وہاں جناح نے اقبال کا سہارا بھی لیامگر وہاں بنیادی مسئلہ مسلمانوں کی سیاسی اور اقتصادی حقوق کا تھا۔۔۔ قائد اعظم اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ دو قومی نظریے سے ملک حاصل تو کیا جا سکتا ہے پر اس کو چلانےکےلیے دوسرے نظریے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے انہوں نے ایک ہندو وکیل کے ہاتھ میں وزارت قانون کا قلمدان سونپا”۔

اور میں اس پر اضافہ کرتے ہوئے کہوں گا کہ انہوں نے سر ظفر اللہ جو کہ احمدی تھے کو وزارتِ خارجہ کا منصب سونپا۔

یہ دلیل کہ دوقومی نظریے سے ملک تو حاصل کرنا درست ہے مگر اس پر عمل کرنا غلط ہے ، لغو ہے۔ وہ لوگ جو لبرل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں اس معذرت خوانہ انداز فکر سے جان چھڑانی ہوگی اور اس مغالطے سے باہر نکلنا ہوگا اور انہیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہو گا کہ مذہب کے نام پر جب سیاست کی جائے گی تو اسے سیکولرازم برآمد نہیں ہو سکتا۔

جناح نے مذہب اسلام کے نام پر سیاست کی ، اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک لیا اور اس کے لیے جواز پیش کرنا کہ اس کا مقصد مسلمانوں کی اقتصادی آزادی تھی اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ محمد علی جناح نے مذہب کے نام پر سیاست کی جس کا خمیازہ پاکستانی قوم بھگت رہی ہے۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ مذہب کے نام پر سیاست کریں، مسلمانوں کواکٹھا کریں اور پھر ان سے توقع کریں کہ وہ سیکولر بن جائیں ۔ کم ازکم مسلمانوں سے اس کی توقع رکھنا فضول ہے ۔محمد علی جناح نے گیارہ اگست کی تقریر کے بعد بھی مذہب کے نام پر سیاست کی۔میں ان تقاریر پر بحث نہیں کرتا جو انہوں نے تحریک پاکستان کے دوران ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کے لیے دیں ۔

چاہیے تو یہ تھا کہ گیارہ اگست کی تقریر کے بعد وہ قرآن و سنت سے رہنمائی کی کوئی بات نہ کرتے مگر اس کے بعد ان کی کئی تقاریر ہیں جن میں وہ ایک مذہبی ریاست کی ہی بات کرتے تھے۔ حسین حقانی نے اپنی کتاب

Magnificent Delusions

میں لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے ایک سے زائد دفعہ امریکی اور یورپی سفیروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس خطے میں پاکستان واحد ریاست ہو گی جو کمیونسٹ روس کے سامنے سینہ سپر ہو سکتی ہے ۔ کمیونسٹ روس کو دہریت زدہ قرار دے کر دراصل پاکستان کو ایک مذہبی ریاست کے طور پر پیش کیا جارہا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد انہوں نے یکم جولائی 1948کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے کہا کہ” مغرب کے نظام نے انسانیت کے لیے مسائل کھڑے کیے ہیں ۔ مغرب کا نظام انصاف کرنے میں ناکام ہے۔ یاد رکھیں کہ مغرب کی تقلید سے مسلمان کبھی بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔ ہمیں خود اپنا یعنی اسلامی معاشی نظام ہی نافذ کرنا ہو گا۔ اسلام پر مبنی نظام کو ہم دنیا کے سامنے ایک انصاف پر مبنی نظام کے طور پر پیش کرسکیں گے ۔ میں اسلامی معاشی اور بینکاری نظام پر آپ کی تحقیق کو خاص دلچسبی سے دیکھوں گا”۔

محمد علی جناح نے مختلف انجمنوں اور فوجی جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی اصولوں پر مبنی ریاست کی بات کی۔ مغربی نظام حیات کے خلاف نفرت پھیلانے سے سیکولر ازم تو نہیں آ سکتا۔ اس لیے اسلامی معاشی نظام کے لیے ضروری ہے کہ ریاست بھی اسلامی ہو اور قرارداد مقاصد اسی تقریر کا تسلسل کہا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سرظفر اللہ جو کہ احمدی تھے نے قرارد داد مقاصد کی حمایت شاید اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے ہی کی تھی۔ اگر وہ واقعی قائداعظم کے سیکولر نظریہ (اگر کوئی تھا) پر یقین رکھتے تھے تو انہی کی تقریر کی لاج رکھتے ہوئے اس قرارداد کی مخالفت کرنی چاہیے تھی۔لیکن انہوں نے نہیں کی ۔ اس قرارداد کی مخالفت دو ہندووں نے کی جس سے ایک مسلمان اور ہندو کے ویثرن کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کون دور اندیش تھا۔

اب احمد ی سر ظفر اللہ کی فکر سے انکار تو نہیں کر سکتے اور ان کی قرارداد مقاصد کی حمایت کے لیے جواز تراشتے ہیں۔ ایک اور احمدی دوست نے سر ظفراللہ کے اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ اگر ان کی تقریر پڑھیں تو انہوں نے قرادداد مقاصد کو من و عن سپورٹ نہیں کیا بلکہ اپوزیشن کے تحفظات کے بارہ میں کہا تھا کہ اقلیتو ں کے حقوق کے حوالے سے آئینی ضمانتیں مہیا کرنی ہوں گی۔ دوسرے یہ کہ قرارداد مقاصد کی اصولی حمایت کی ۔

اصولی حمایت کسے کہتے ہیں اس کا تو مجھے علم نہیں لیکن میرے خیال میں اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں اول یہ کہ وہ حکومت کا حصہ تھے اور قرارداد مقاصد حکومت کی طرف سے پیش کی گئی تھی اور اختلاف کی صورت میں انہیں حکومت سے علیحدہ ہونا پڑتا تھا جو وہ چاہتے نہیں تھے۔دوسرا یہ کہ جماعت احمدیہ بھی شریعت نافذ کرنے کی دعویدار تھی اور شاید اب بھی ہےاور اور ان کاخیال ہو گا کہ ہماری اکثریت ہوجائے گی تو ہم اپنی شریعت نافذ کر دیں گے۔

پھر ایک بات اور ہے کہ مذہبی شخص خاص کر مسلمان کو یہ بھی خوش فہمی ہوتی ہے کہ اسلامی شریعت میں غیر مسلموں کے بہت حقوق ہیں ۔ ہمیں اس مغالطے سے بھی باہر نکلنا ہوگا۔آج بھی ہمارے اسلامی آئین میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے آئینی ضمانتیں موجود ہیں مگر ان کی حیثیت صرف چند سطروں تک ہی محدود ہے۔ یہی دلیل تو بھٹو یا شاید اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے دی تھی کہ آئین میں غیر مسلموں کو مکمل تحفظ دیا گیا ہے۔

محمد علی جناح نے بھی اقتدار کی سیاست کی اور اس کے لیے جہاں ضرورت پڑی انہوں نے مذہب کا بھرپور استعمال کیا ۔ انہیں جمہوریت سے بھی اتنی دلچسبی تھی کہ وہ اقتدار میں رہیں اور اس کے لیے اگر خیبر پختونخواہ کی منتخب اسمبلی کو توڑنے سے بھی گریز نہیں کیا کیونکہ وہ مخالف آواز سننے کے قائل ہی نہیں تھے۔

Comments are closed.