کیا ہندوستان کا بلوچستان کا محاذ بکھر رہا ہے؟ 

asaf-jilani-268x300

آصف جیلانی 


اس سال جون میں آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس نے ’’ ناٹ وار ، ناٹ پیس‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی تھی ، جو امریکا کے کارنیگی انڈاومنٹ کے نائب صدرجارج پرکووچ اور اسی ادارہ کے ٹو بی ڈاٹسن نے مرتب کی ہے۔ جارج پرکووچ جنوبی ایشیاء میں جوہری حکمت عملی کے امور کے ماہر ہیں اور ٹوبی ڈاٹسن بھی جوہری پالیسی کے پروگرام کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ اس کتاب میں اس سوال کا جائزہ لیا گیا ہے کہ ہندوستان کو سرحد پار سے بمبئی کے 1993کے حملہ اور 2001میں پارلیمنٹ پر حملہ ایسے جو خطرات ہیں ان کے سد باب کے لئے ہندوستان ، سفارتی، زمینی حملے ، فضائی طاقت کے استعمال ، خفیہ آپریشنز اور جوہری کاروائی میں سے کیا انتخاب کر سکتا ہے۔

اس کتاب میں میں کہا گیا ہے کہ جوہری دور میں جس میں ہم رہ رہے ہیں، جہاں ، فوجی جوابی حملہ ایسی تباہی مچا سکتا ہے ، جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ لہذا کھلم کھلا جنگ، واضح طور پر کوئی راہ نہیں ہے۔ کتاب مرتب کرنے والے ان دو ماہروں نے پہلی بار ، انُ پر تشدد اور عدم تشدد کے راستوں کے بارے میں جامع تجزیہ پیش کیا ہے جو ہندوستان کے لئے کھلے ہوئے ہیں جن کے ذریعہ ، وہ پاکستان کو سرحد پار سے دھشت گرد کاورائی سے روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کر سکتا ہے۔ اس راہ میں جو چیلنج ہیں ، ان کا جائزہ لینے اور پاکستان کو سرحد پار سے دہشت گرد کاروائی سے روکنے کے لئے آمادہ کرنے کے لئے ، ان ماہرین نے ، ہندوستان اور پاکستان کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ حکام سے مفصل انٹرویو کیے تھے۔ 

اس کتاب میں پورا ایک باب خفیہ آپریشنز کے بارے میں ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے لکھا ہے کہ ایک امریکی اسکالر کرسٹائن فیئر نے انہیں بتایا کہ 2009میں انہوں نے زاہدان ، ایران میں ہندوستانی مشن کا دورہ کیا تھا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچیں تھیں کہ یہ مشن ، پاکستان کے خلاف ، سرحد پر خفیہ کاروائی کے منصوبہ کا ایک حصہ ہے۔ کرسٹین فیر کا کہناتھا کہ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اس مشن کا اصل کام ویزا جاری کرنا نہیں تھا۔ یہی نہیں، ہندوستان ، مزار شریف ، افغانستان میں اپنے مشن سے خفیہ آپریشنز کر رہا تھا ، اور ممکن ہے کہ سرحد پر جلال آباداور قندھار میں ہندوستان نے اپنے جوقونصل خانے دوبارہ کھولے ہیں وہ بھی خفیہ آپریشنز میں مصروف ہیں۔

کرسٹین فیر کا کہنا تھا کہ ہندوستانی حکام نے انہیں نجی طور پر بتایا کہ وہ بلوچستان میں بڑے پیمانہ پر رقومات بھیج رہے ہیں۔ کرسٹین فیر نے بتایا کہ اس کا امکان ہے کہ ہندوستان نے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے بعض رہنماوں کو فنڈ فراہم کیے ہیں۔

اس کتاب میں کرسٹین فیر کے اس انکشاف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر ، اجیت دووال نے خفیہ آپریشنز اور تخریب کاری کی راہ اختیار کرنے کے لئے ’’ دفاعی جارحیت ‘‘ کی جو حکمت عملی پیش کی تھی اس پر ہندوستان پوری طرح سے عمل کر رہا ہے۔ اجیت دووال نے 21فروری 2014میں ساستر یونیورسٹی میں نانی پالکی والا میموریل لیکچر میں کہا تھا کہ ’’ ہم سے کئی گنا زیادہ پاکستان، حملوں کی زد میں ہے ۔ ایک بار پاکستان کو یہ علم ہوگا کہ ہندوستان نے اپنا دفاعی انداز بدل کر جارحانہ دفاع کا انداز اختیار کیا ہے تو اسے احساس ہوگا کہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔‘‘ اجیت دووال کا کہناتھا کہ ’’ آپ نے اگربمبئی ایسا حملہ کیا تو آپ کو بلوچستان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔‘‘ اجیت دووال نے یہ لکچر ، قومی سلامتی کے مشیر کے عہدہ پر فایز ہونے سے تین ماہ پہلے دیا تھا۔ 

نریندر مودی نے 12اگست 2016کو ، اجیت دووال کے مشورہ پر بلوچستان کا محاذ کھولنے کا اعلان کیا۔ مودی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بلوچستان اور پاکستان کے ’’ مقبوضہ‘‘کشمیر کے عوام پر مظالم کا جواب دینا ہوگا۔پھر 15اگست کو لال قلعہ کی دیوار پر چڑھ کر انہوں نے گلگت اور بلتستان کو بھی بلوچستان اور آزاد کشمیر کے ساتھ شامل کر دیا۔

بلوچستان کا محاذ کھولنے کے اعلان سے پہلے ہی بلوچستان کے علیحدگی پسند رہنما ، نئی دلی پہنچ گئے تھے اور ہندوستان کی حکومت کی مہمان داری سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ان رہنماوں کا تعلق ، فری بلوچستان موومنٹ سے ہے ۔ ان میں سے ایک رہنما بلاچ پرولی بلوچ کئی سال سے دلی میں مقیم تھے۔ ۲۲ ستمبر کو ہندوستان کی حکومت کو بلوچ ری پبلیکن پارٹی کے بانی براہمدغ بگٹی کی سیاسی پناہ کی درخواست ملی ۔ تین روز پہلے ان کی یہ درخواست ، جنیوا میں ہندوستان کے قونصل خانہ میں پیش کی گئی تھی۔

اس دوران ، کابل میں مقیم ، نائلہ قادری بلوچ ، دلی آن دھمکیں اور آزاد بلوچستان کا نعرہ لگایا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دلی میں بلوچستان کی جلا وطن حکومت کے قیام کے لئے آئی ہیں۔ نائلہ بلوچ نے دعوی کیا کہ یہ جلا وطن حکومت 40ملین بلوچوں کی نمایندہ ہوگی ۔نائلہ بلوچ کا یہ بیان ، ہندوستان کے لئے پریشانی کا باعث تھا کہ ہندوستان ، ایران میں چاہ بہار کی بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے ۔ یہ علاقہ بلوچ صوبہ سیستان کا علاقہ ہے جس پر ایران نے قبضہ کیا ہے ۔ 

لیکن نائلہ قادری بلوچ کی پتنگ اڑنے سے پہلے ہی کٹ گئی جب ، برھمداغ بگٹی نے اعلان کیا کہ نائیلہ ، بلوچ عوام کی نمایندہ نہیں ہیں۔ بگٹی کا کہنا تھا کہ جلا وطن حکومت کا قیام ، قومی مسئلہ ہے اور قومی مسئلہ کے بارے میں قوم کے اتفاق رائے کے بغیر اعلان نہیں کیا جاسکتا۔ ادِھر لندن میں فری بلوچستان موومنٹ نے ایک اور محاذ کھول دیا اور اس نے اعلان کیا کہ وہ بلوچستان میں چین کی موجودگی کے خلاف ہے ۔ اس دوران برھمداغ بگٹی نے واشنگٹن میں کہا کہ وہ پاکستان سے بات چیت کے لئے تیار ہیں ۔

ان کا کہنا تھا’’ ہم عملی لوگ ہیں اور پاکستان سے بات چیت کریں گے۔‘‘ بلوچ علیحدگی پسندتنظیموں کی باہمی چپقلش اور علیحدگی پسند رہنماوں کے متضاد بیانات کے پیش نظر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ بلوچ علیحدگی پسند رہنماوں کے ان بیانات سے ایک طرف چین اور دوسری طرف ایران کی ناراضگی کہیں مول نہ لینی پڑے ۔ اس صورت حال میں ہندوستان نے فی الحال بلوچستان کے محاذ پر پسپائی مناسب سمجھی لیکن ابھی یہ محاذ ختم نہیں ہوا ہے۔

♦ 

Comments are closed.