لیاقت علی
علامہ اقبال اپنی زندگی میں کسی مرحلے پر کبھی احمدی بھی رہے تھے یا نہیں ۔یہ ایک ایسی بحث ہے جو علامہ اقبال کی وفات کے 78سال بعد بھی جاری ہے ۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اسے جھوٹ اور افترا سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اقبال کبھی بھی احمدی نہیں رہے اور یہ کہنا کہ اقبال احمدی تھے محض احمدیوں کا بے بنیاد پراپیگنڈا ہے ۔ جہاں تک احمدیوں کا تعلق ہے تو ان کہنا ہے کہ اقبال نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ احمدی کے طور پر گذارا اور احمدیت سے قطع تعلق اگر انھوں نے کیا تو یہ اپنی زندگی کے آخر ی سالوں میں کیا تھا ۔
لاہور کے ایک احمدی وکیل نے’ اقبال اور احمدیت‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس میں انھوں نے اقبال کو احمدی ثابت کرنے کے لئے بہت سے شواہد فراہم کئے تھے ۔ احمدیوں کا موقف ہے کہ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد معروف احمدی تھے اور اقبال چونکہ اپنے بڑے بھائی کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اس لئے ان کے احترام میں اقبال نے احمدیت کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی تھی ۔شیخ عطا محمد کی اولاد آج بھی احمدی ہے ۔
ایک تیسرا گروہ بھی ہے جو سمجھتا ہے کہ انسان پوری زندگی فکری طور پر ارتقائی منازل طے کرتا رہتا ہے ۔ لہذا ہوسکتا ہے اقبال اوائل عمری میں احمدیت سے متاثر رہے ہوں اور اسی وجہ سے انھوں نے اپنے بیٹے آفتاب اقبال کو بغرض تعلیم قادیان بھی بھیجا تھا لیکن آخری عمر میں انھوں نے احمدیت سے قطع تعلق کر لیا تھا ۔ گو ان کے نزدیک اس قطع تعلق کے پس پشت ان کا سر ظفراللہ سے ذاتی تنازعہ تھا ۔
ابھی حال ہی میں علامہ اقبال کے بارے میں ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے ۔ یہ کتاب ڈاکٹر ندیم شفیق ملک کی لکھی ہوئی ہے ۔ڈاکٹر ملک سول سرونٹ ہیں اور انھوں نے جناح ، اقبال ا ور آل انڈیا یونین مسلم لیگ کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی ہیں ۔ اپنی اس کتاب میں ڈاکٹر ندیم شفیق ملک نے اقبال کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی تفصیل فراہم کی ہے ۔ اور اس تفصیل کے لئے انھوں نے پنجاب کی خفیہ پولیس کے ریکارڈ سے استفادہ کیا ہے۔ اقبال جن سیاسی، سماجی اور ادبی محافل میں شریک ہوا کرتے تھے ان کی جو رپورٹنگ خفیہ پولیس والے کیا کرتے تھے مصنف نے ان کی تفصیلات فراہم کی ہیں ۔
ایک رپورٹ جس کا عنوان ہے : علامہ اقبال کی اسلام قبول کرنے والوں کو مبارک دینے کے لئے قرارداد کی تجویز 27دسمبر1913کی ایک رپورٹ کے مطابق18دسمبر 1913کو احمدیہ بلڈنگز میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں مندرجہ ذیل قرار دادیں منظور کی گئیں: مسلمانوں کے تمام فرقے خواجہ کمال الدین (بحوالہ پیراگراف73)کے مقصد حیات کے لئے چندہ جمع کریں اور مندرجہ ذیل نومسلموں کو مبارک دینے کے لئے بحری تار بھیجا جائے ۔
۔1۔لارڈ ہیڈلے ( بحوالہ پیر ا گراف 73) جن کا اسلامی نام اب سیف الرحمن ہے 2۔شیخ رحمت اللہ فاروق 3۔وسکاؤنٹ ڈی سپراؤنٹ جن کا اسلامی نام شیخ عبداللہ ہے 4۔کیپٹن سٹینلے مارگریٹ جن کا اسلامی نام عبدالرحمن ہے 5۔مس ملی رینز یوم جن کا اب اسلامی نام فاطمہ بیگم ہے 6۔مسز کلیفرڈ اسلامی نام عائشہ بیگم جنہوں نے چار بچوں سمیت اسلام قبول کیا ہے۔
پہلی قرارداد کی تجویز ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ (بحوالہ 1913کا 3458پیراگراف(اور دوسری تجویز ڈاکٹر محمد اقبال (بحوالہ پیراگراف 85) بیرسٹر نے پیش کی ۔( اجلاس میں )میں تقریبا پانچ سو مسلمان موجود تھے ۔ احمدی بلڈنگر وہی عمارت ہے جہاں مرزا غلام احمد نے مئی 1908میں وفات پائی تھی ۔ یہ احمدی بلڈنگز آج بھی برانڈرتھ روڈ لاہور پر موجود ہے اور اس میں لاہور احمدی جماعت کا مرکز قائم ہے ۔
جہاں تک خواجہ کمال الدین کا تعلق ہے تو وہ جماعت احمدیہ کے معروف و مشہور مبلغ اور نظریہ دان تھے ۔ جب مرزا غلام احمد کے پہلے جانشین حکیم نورالدین انتقال( مارچ1914 )کرگئے اور ان کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ میں اقتدارکی کشمکش شروع ہوئی تو خواجہ کمال الدین اور ان کے ساتھیوں نے قادیان کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرکے اپنی علیحدہ تنظیم انجمن اشاعت احمدیہ قائم کرلی جسے عرف عام میں لاہور احمدی جماعت کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
خواجہ کمال الدین لاہور جماعت کے سربراہ بھی بنے تھے ۔ اجلاس میں جن غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے پر مبارک باد کا بحری تار بھیجنے کی قرارداد منظور کی گئی وہ احمدی ہی ہوں گے کیونکہ انھیں اسلام قبول کرانے والے خود احمدی تھے ۔
♦