کیا کرپشن مسئلہ ہے

img_0056-230x300

ارشد محمود

پاکستان عمومی طور پر ایک کرپٹ ملک ہے۔ کرپشن اس ملک اور قوم کی رگ رگ میں رچی ہے۔ پاکستان ریاکاروں اور منافقوں کی قوم بن چکا ہے۔ جوں جوں ہم وسعت اور شدت سے اسلام پسند ہوتے گئے توں توں ہم کرپشن میں دن دوگنی رات چگنی ترقی کرتے رہے۔ یہ کرپشن کسی مخصوص ادارے، گروہ، جماعت، کلاس تک محدود نہیں۔ پاکستان میں کرپشن یونیورسل ہے۔ ہر شخص کرپشن کی طرف آسانی سے مائل ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں وہ لوگ جو بہت زیادہ امیر ہیں۔ ان کے پاس جو دولت ہے۔ وہ زیادہ تر ناجائز ذرائع اور طاقت کے مراکز کو استعمال کرکے بنائی گئی ہے۔ پاکستان میں جو بہت بڑی دولت مند کلاس بنی ہے۔ وہ جنرل ضیا دور کے بعد بنی ہے۔ وہاں سے کرپشن سیلاب کی طرح ہماری رگوں میں اتر گیا۔ پاکستان میں دیانت دار لوگ بہت ہی کم ہیں۔ وہ فطری طور پر شریف اور بزدل مزاج ہوتے ہیں۔ ہماری سیاست میں بہت زیادہ کرپشن ہے۔ سیاست چونکہ پاورحاصل کرنے کا نام ہے، چنانچہ سیاست میں زیادہ ترلوگ اپنے مخصوص مفادات لے کرآتے ہیں۔

سیاست ایک سرمایہ کاری ہے۔ دولت بنانے کی۔ یہاں سیاست سماجی خدمت کا نام نہیں۔ پاور، مفادات، مراعات حاصل کرنے کا نام ہے۔ بلکہ حد یہ ہوئی کہ سیاست دولت کا کھیل ہے۔ سیاست دولت اور وسائل کے بغیر ممکن نہیں۔

بدقسمتی سے کرپشن کا مسئلہ سماجی، احتسابی، قانونی سائنس کی بجائے اسے سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ جیسے چوروں کا ٹولہ ایک دوسرے کو چور چور کا شور مچا دے۔ چلو بھئی ایسے ماحول میں اب کرپٹ پکڑکے دکھاو۔۔کس پر انگلی رکھو گے۔ پاکستان میں ہر کرپٹ بندہ کرپشن کا مخالفہے۔ ہر ایک کا دعوی ہے،کرپشن ختم ہونی چاہئے۔ اور ساتھ ہی ہر ایک کا دعوی ہےکہ اس سے بڑا نیک کوئی نہیں۔ پھر اس میں ایک تیسرا فریق ہماری خاکی مقدس گائے بھی ہے۔

آپ کسی جنرل کی بے حساب دولت، مراعات کا حساب نہیں لے سکتے۔۔ مقدس ادارے کا وقارمجروح ہوجاتا ہے۔ محب وطن، قوم کے محافظ، شہید ہونے والے ادارے کو بدنام کرتے ہیں۔ ہماری اس مقدس گائے کا اپنے مفادات ہیں کہ پاکستان میں جمہوری اور سیاسی نظام کسی طور پختہ نہ ہونے پائے۔ مسلسل مداخلت اور سازش ان کی فطرت بن چکی ہے۔ انہوں نے کرپشن کے نعرے کو سیاست دانوں کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ پاکستان کے مسائل تو بے شمار اور نہائت گنجلک ہیں۔ اس کی اصلاح تقریبا ناممکن ہوچکی ہے۔ عوام کی محرومیاں اور زلتیں بھی بےشمار ہیں۔

کرپشن کی اس ہنگامہ آرائی میں عوام کے لئے کچھ نہیں۔ یہ حکمران طاقت ور اشرافیہ کی باہمی دھینگا مشتی ہے۔ عوام کو اس میں کچھ نہیں ملنے والا۔ عوام کا کوئی سگا نہیں۔ امیر کیوں عوام کا خیرخواہ ہوگا؟ آپ دیکھتے نہیں، کوئی بھی مین سٹریم سیاسی پارٹی ہے۔ اس کو چلانے والے ارب پتی ہیں۔ حیرت ہے، عمران خان کی پارٹی کو مومنوں اور حاجیوں‘ (محاورے کے طورپر، ورنہ حاجی اور مومن سب کرپٹ ہو چکے ہیں) کی پارٹی سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کی ٹاپ لیڈرشپ ارب کھرب پتیوں پر مشتمل ہے۔ اور سب کرپشنکے خلاف اس وقت جہاد چلا رہے ہیں۔

پاکستان کے علمائے دین کی اکثریت انتہائی کرپٹ ہے۔ ہرشخص ہر سطح پرکرپٹ ہے۔ آپ کا ریڑھی والا کرپٹ ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے۔ کہ وہ دو چار گلے دانے ضرور ڈال دے۔ ظاہر ہے، ہرکسی کا حسب اختیار، طاقت، وسائل اس کی کرپشن کا سائز ہونا ہے۔

عمران خان نے جس طرح شدت سے کرپشن کو یک نکتہ ایجنڈہ بنایا ہے اوراپنے سیاسی مخالف ایک شخص کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہے، یہ اصل میں پاکستان کے دیگر سیاسی، سماجی ریاستی مسائل سے نظر ہٹانے کی تحریک ہے۔ کرپشن ایک مجرد عمل ہے۔ یہ ایک نہ دکھائی دینے والا عمل ہوتا ہے۔ کرپشن کی بھی بے شمار قسمیں ہوتی ہیں۔ جب کہ ہم ان کو کرپشن سمجھتے ہی نہیں۔پھر ہر مسئلہ دوسرے مسئلے سے جڑا ہوتا ہے۔ کسی ایک مسئلے کو سنگل آوٹ کرکے ٹھیک نہیں کیا جاسکتا، باقی کی ساری صورت حال یوں کی توں رہے۔

کرپشن امیری اور غریبی کے فرق سے جڑی ہوئی ہے۔ جن معاشروں میں بے تحاشہ آبادی ہے۔ اور وہ پسماندہ اور عمومی طور پر غریب ملک ہیں۔ قومی دولت کم اور کھانے والے بے شمار ہیں۔ جہاں آقا اور غلام کے رشتےہیں۔ ان ممالک اور معاشروں میں کرپشن اعلی سطح پر موجود ہے۔ جو معاشرے ترقی یافتہ ہیں۔ تعلیم یافتہ ہیں۔ ان معاشروں میں کرپشن کم ترین سطح پر ہے۔ چنانچہ پاکستانی سوسائٹی کا کرپٹ ہونا کوئی غیر فطری چیز نہیں۔ یہ کھویا کھوئی والا معاشرہ ہے۔ جس کی جتنی ہمت ہے۔ آگے بڑھ کردولت بنانے والے مواقع ہاتھ میں لے لے۔

دنیا کے تمام ترقی یافتہ معاشرے جب ان کی حالت ہماری جیسی تھی۔۔وہ بھی اسی طرح کرپٹ تھے۔ کرپشن سماجی سائنس کا اور قانونی مسئلہ ہے۔ پاکستان میں کرپشن کے قوانین میرا خیال ہے دنیا کے سخت ترین قوانین میں ہونگے۔ کرپشن کو ہینڈل کرنے والے ادارے بھی درجنوں کے حساب سے ہیں۔ ایک کرپشن کے ادارے پر دوسرا کرپشن کا ادارہ ہے۔ نتیجہ بہت ہی کم۔ کہتے ہیں، سفید کالر کرپشن کو پکڑنا نہایت مشکل ہے۔

کرپشن کرنے اور کرپشن کی حفاظت کا ایک جال ہے۔ ہم جب تک کرپشن کے ایشو کو سائنسی لحاظ سے سمجھنے کی کوشش نہ کریں گے۔ طاقت ور کرپٹ رہیں گے، اصلاح کے عمل ہمیں ایک ساتھ شروع کرنے ہونگے۔ ایک عمل کو جب تک ہم دوسرے عمل پر ترجیح دیتے رہیں گے۔ ہم یہ چیستان کبھی حل نہ کرپائیں گے۔ کوئی اسلام کے نام پر، کوئی حب الوطنی کے نام پر، کوئی کرپشن کے نام پر ہم کو لوٹ رہا ہے۔ عوام فٹ بال بنیں رہیں گے۔ 

کرپشن کا حل ایک بتدریج عمل سے ہے۔ اس کا حل جمہوری عمل کے تسلسل سے جڑا ہوا ہے۔ جمہوریت کے دو تین بنیادی ستون ہوتےہیں۔ عوام اپنے حکمرانوں کو خود منتخب کریں، اور خود ووٹ کے ذریعے نکالیں۔یہ عمل بغیر مداخلت کے ہونا چاہئے۔ اس عمل سے نااہل، خدمت نہ کرنے والے اور کرپٹ عناصرفلٹر ہوتے جاتے ہیں۔جموریت قانون کی حکمرانی کا نام ہوتا ہے۔ جو ہمارے ہاں ناپید ہے۔ قانون کی حکمرانی نے بھی جمہوری عمل سے ہی مستحکم ہونا ہے۔ پارلیمنٹ سے بہترقوانین اور بہتر ادارے بنتے جائیں۔

جمہوریت میں احتساب کا عمل ہوتا ہے۔ عوام اپوزیشن پارٹیوں کے شکل میں مسائل کو اجاگرکرتے ہیں۔ جمہوری عمل معاشرے کو مہذب بناتا جاتا ہے۔ صاحبان اختیار کو جواب دہ کرتا ہے۔ پاکستان کا مسئلہ کرپشن نہیں بلکہ ترقی کے عمل کا نہایت سست ہونا ہے۔ ترقی معاشروں میں آل راونڈ تبدیلیاں پیدا کرتی ہے۔ بہتری کا سا ئیکل چلنا شروع ہوجاتا ہے۔ پاکستان کی ترقی آپ کی ریاستی پالیسیوں اور ترجیحات نے روکی ہوئی ہے۔ آپ کو مذہبی جنونیت چھوڑنی ہوگی۔ آپ کو ہمسائیوں سے پرامن رہنے کو ترجیح دینی ہوگی۔

تیز تر ترقی کے لئے آپ کو اپنے مسائل کم کرنے ہونگے۔ ہمیں اپنے زہنوں کو بدلنا ہوگا۔ ہم کچھ بھی بدلے بغیر مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ یہ غیرسائنسی غیر منطقی رویہ ہے، چنانچہ آپ کی سب کوششیں اور خواہشیں بے نتیجہ رہتی ہیں۔ ہر کوئی اپنے داو پرہے۔ ہر کوئی اپنا وقتی فائدہ لے رہا ہے۔ ہر کوئی سمیٹ کرنکل رہا ہے۔۔ عوام کے لئے ٹرک کی بتی کے پیچھے گول گول گھومنا رہ گیا ہے۔

One Comment