بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے میں ایک مزار پر خودکش حملے کے نتیجے میں 52 افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی کے مطابق اس حملے کی ذمہ دولت اسلامیہ یا داعش نے قبول کر لی ہے۔
داعش کی طرف سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد پاکستان کی انیٹلی جنس ایجنسیوں کی کارگردگی پر پھر ایک سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور ان کے دعووں کو غلط ثابت کردیا ہے کہ داعش کا پاکستان میں وجود نہیں۔
یاد رہے کہ داعش نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر دھماکے کی ذمہ دار بھی قبول کی جس ساٹھ سے زائد پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ ضلع خضدار میں دربار شاہ نورانی میں دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے زائرین کی تعداد 52 جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد سو سے زائد ہے۔
پی ٹی وی کے مطابق اس واقعے میں زخمی ہونے والے افراد کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ بعض شدید زخمیوں کو کراچی لے جایا گیا ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ نے ٹوئٹر کے ذریعے بتایا ہے کہ 50 فوجی اہلکار امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے خضدار اور کراچی سے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے ہیں، جب کہ اس کے علاوہ دو فوجی ہیلی کاپٹر اور 20 ایمبولینسیں بھی روانہ کر دی گئی ہیں۔
سندھ اے ڈی خواجہ نے شاہ نورانی درگاہ دھماکے کے تناظر میں سندھ بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ بھر میں صوفیائے کرام کے مزاروں کی سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جائیں۔
صوبائی ترجمان انوار الحق کاکڑ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شاہ نورانی کا علاقہ خضدار سینٹر سے 300 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جس کی وجہ سے رابطے کی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اندھیرا ہونے کے باعث امدادی کاموں میں مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
امدادی کارکن فیصل ایدھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ’شام چھ بجے دھماکے کی اطلاع ملی تھی اور ہم نے 50 ایمبولینس بھجوائی ہیں۔ یہ ایمبولینسیں آٹھ بجے پہنچی ہیں اور یہ کراچی تقریباً 10 بجے پہنچیں گی۔
شاہ نورانی کے تحصیل دار جاوید اقبال نے نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہفتہ اور اتوار کو کراچی سے لوگ درگاہ پر آتے ہیں جس کے باعث زائرین کی بڑی تعداد موجود تھی۔‘
برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے بات کرتے ہوئے شاہ نورانی مزار کے نگراں نواز علی نے بتایا کہ روزانہ غروب آفتاب سے کچھ دیر قبل دھمال ہوتا ہے اور اس کے لیے زائرین کی بڑی تعداد آتی ہے۔
شاہ نورانی انتظامی طور پر ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ کا حصہ ہے۔ شاہ نورانی میں سید بلاول شاہ نورانی کا مزارہے جہاں ہر وقت کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں سے زائرین کی ایک بڑی تعداد آتی ہے۔
مزار کی جگہ زیادہ کشادہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہوسکتی ہے۔ شاہ نورانی کے مزار میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
یاد رہے کہ سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، طالبان اور داعش کی طرف سے صوفی بزرگوں کے مزاروں پر حملے پچھلے کئی سالوں سے جاری ہیں۔ خیبرپختونخواہ اور افغانستان میں ان دہشت گرد تنطیموں نے کئی مزاروں کو نشانہ بنایا ہے
بلوچستان میں رواں سال کے دوران یہ تیسرا بڑا خود کش واقعہ ہے اس سے قبل کوئٹہ میں سیٹلائٹ ٹاؤن، سول ہسپتال کوئٹہ اور پولیس ٹریننگ کالج پر خود کش حملے ہوئے تھے۔
شاہ نورانی میں رونما ہونے والے اس واقعہ سے قبل بلوچستان میں پانچ خود کش حملے ہوئے تھے جن میں مجموعی طور پر 167افراد ہلاک اور 250سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
BBC/Al Jazeera