کشمیر اور ہماری حکمران اشرافیہ

liaq-235x300

لیاقت علی

کشمیر ایک نعرہ ہے جسے پاکستان کی ہر حکومت خواہ فوجی تھی یا سویلین نے،عوام کو الو بنانے کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کیا ہے۔جب کوئی حکومت سیاسی ، سماجی اور معاشی محاذوں پر ناکام ہوجاتی ہے اور عوام کو لبھانے کے لئے اس کی پٹاری میں کچھ نہیں بچتا تو وہ سڑک کنارے مجمع لگانے والے مداری کی طرح اپنے تھیلے سے ’کشمیر کا سانپ ‘نکال کر میدان چھوڑ دیتی ہے تاکہ اس ارد گرد جمع ہونے والا عوام کا مجمع بکھرنے نہ پائے ۔

کشمیر کی ’آزادی ‘ کی آڑ میں ہمارے سکیورٹی اداروں نے بھی حکمرانی کے خوب مزے اڑاے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ کشمیر مسئلہ ہی ہمارے سکیورٹی اداروں کا ہے سویلین حکومتیں ان کچھ ان کے خوف اور کچھ اپنی نااہلی کی پردہ پوشی کے لئے اس نام نہاد مسئلے کا سہارا لیتی ہیں ۔

چند ہفتے قبل وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے 22ارکان جن کی اکثریت کا تعلق ن لیگ سے تھا ،اس مقصد کے لئے منتخب کیا کہ وہ بیرونی ممالک بالخصوص یورپی یونین میں شامل ممالک کا دورہ کریں اور ان پر کشمیر کی ’آزادی ‘ اور وہاں بھارتی سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں ہونے والے ظلم وستم کی سنگینی واضح کریں ۔

ایسا پہلا دفعہ نہیں ہوا کہ ارکان پارلیمنٹ اور فارن آفس کے بیوروکریٹس کشمیر مسئلہ اجاگر کرنے کے لئے بیرون ملک سیر سپاٹے کے لئے نہ گئے ہوں ۔ ان تما م تر سیر سپاٹوں کے باوجود یہ رٹ لگی رہتی ہے کہ حکومت مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہے ۔

ایسے کہنے والوں کا مطلب ہوتا ہے کہ اب ہمیں بیرون ملک بھیجو تا کہ ہم مسئلہ کشمیر کو ’اجاگر‘ کریں ،چند مہنگے ہوٹلوں میں گذاریں اور سرکاری خرچے پر شاپنگ کرکے لدھے پھندے گھر واپس آئیں۔

پاکستان کی سیاسی قیادت مسئلہ کشمیر کے بارے میں کس قدر سنجیدہ ہے اس کا مظاہرہ قومی اسمبلی کے 25 نومبر کے اجلاس میں ہوا ۔اجلاس سے ایک روز قبل اسپیکر قومی اسمبلی نے اعلان کیا تھا کہ کل کے اجلاس میں معمول کی کاروائی معطل رہے گی اور صرف لائن آف کنٹرول اور کشمیر کی صور ت حال پر بحث ہوگی ۔

چنانچہ جب قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو 364ارکان میں سے صرف 62ارکان حاضر تھے یعنی کل ارکان کا بیس فی صد۔ جب وزیر دفاع خواجہ آصف نے پالیسی بیان دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو 62 ارکان بھی کم ہو کر 20رہ گئے ۔

اجلاس میں موجود ارکان کی اکثریت جن میں وفاقی وزرا بھی شامل تھے کشمیر اور لائن آف کنٹرول کے صورت حال پر بحث اور دلچسپی لینے کی بجائے باہم گپ شپ میں مصروف رہے ۔

وزیر اعظم کے مشیر خارجہ امور سرتاج عزیز اس وقت ایوان میں آئے جب وفاقی وزرا اور دیگر ارکان قومی اسمبلی اپنی تقاریر مکمل کر چکے تھے ۔

سرتاج عزیز نے صرف آٹھ منٹ میں اپنا بیان کر لیا اور ایوان سے روانہ ہوگئے ۔وزیر دفاع خواجہ آصف بھی اجلاس میں ایک گھنٹہ دیر سے پہنچے اور جلد ہی ایوان چلے گئے ۔

یہ اجلاس جس کے انعقاد پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے تھے اور جس مقصد کا اعلان کیا گیا تھا اس مقصد سے ہماری حکمران کلاس کے خلوص اور وابستگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

Comments are closed.