پرویز ہود بھائی
ایسا کیوں ہے کہ بہت سے لوگ بتائی ہوئی ہر بات مان لیتے ہیں۔ وہ نہ ثبوت مانگتے ہیں نہ استدلال اور نہ حقائق کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی نہ کسی نظریے کا سہارا لیتے ہیں اور اس بیساکھی کے بغیر دو قدم بھی آگے چلنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ انسان کم عقل اور بیوقوف ہے۔ یہ عقل و خرد ہی ہے جس نے انسان کو دوسرے جانداروں پر برتری دی ہے اور جس نے اس کو جنگلی جانوروں سے بچایا اور سردی و گرمی سے تحفظ دیا ہے۔ یہ عقل ہی ہے جس کے ذریعے انسان نے طرح طرح کی ادویات تیار کی ہیں جو اسے بہت سی بیماریوں سے بچاتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کسی بھی نظریے پر اندھا یقین انتہائی خوفناک اور مضر نتائج پیدا کرتا ہے۔ پولیو کی مثال لیجیے۔ جس بچے کو پولیو کی بیماری لاحق ہو جائے وہ ہمیشہ کے لیے معذور ہو کر رہ جاتا ہے، وہ اذیت ناک زندگی گزارتا ہے۔ نہ اس کے لیے چلنا پھرنا ممکن ہوتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی ملازمت مل سکتی ہے۔ تاہم اس بیماری سے بچنے کا ایک آسان طریقہ بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ اسے پولیو کی ویکسین کے دو یا تین قطرے پلائے جائیں تو یہ بیماری لاحق نہیں ہو گی۔
تاہم ایک خاص نظریے کے قائل مذہبی انتہا پسند یہ کہتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک عالمی سازش کے تحت پولیو کے قطرے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس سازش کا مقصد ہماری نسل کو آگے بڑھنے سے روکنا ہے تاکہ مزید مجاہد پیدا نہ ہو سکیں۔ ایسے لوگ ڈاکٹروں کی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لیے وہ انہیں قتل کرتے ہیں۔ جو لوگ بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہیں انہیں بھی مارا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے بہت سے بچوں کی زندگیاں تباہ و برباد کی ہیں اور یہ بہر طور قصور وار ہیں۔ تاہم اس عمل میں یہ اکیلے مجرم نہیں ہیں۔
سنہ1950 کی دہائی میں امریکا میں بھی اسی سوچ کے حامل لوگ پائے جاتے تھے۔ یہ لوگ کمیونزم کے شدید مخالف تھے اور اس نظام سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ ان کے دماغ بھی بند ہو گئے۔ وہ کہتے تھے کہ کمیونسٹ ایک گھناؤنی سازش کے تحت ہمارے شہر کے پانی میں فلورائیڈ ڈلوا رہے ہیں۔ اس فلورائیڈ سے امریکیوں کے دماغ کمزور ہو جائیں گے اور یوں کمیونسٹ آ کر امریکا پر قبضہ کر لیں گے۔ یہ لوگ بھی ڈاکٹروں کی بات سننے کو تیار نہیں تھے۔ حالانکہ ڈاکٹر صرف یہ کہتے تھے کہ پانی میں فلورائیڈ ڈالنے سے دانت مضبوط ہوں گے اور جلدی نہیں گریں گے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ٹوتھ پیسٹ میں فلورائیڈ لازمی ڈالی جاتی ہے۔
ایسی سوچ سے انسانوں کو ضرور نقصان پہنچتا ہے مگر اصل خطرہ اس وقت جنم لیتا ہے جب کروڑوں لوگ کسی ایک نظریے کے قائل ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ان کے دماغ پر تالا لگ جاتا ہے۔
اشتراکیت کا نظریہ یا کمیونزم اس کی نمایاں مثال ہے۔ کم و بیش ڈھائی سو سال پہلے کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے یورپی سماجوں کا تجزیہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہاں شدید طبقاتی کشمکش پائی جاتی ہے۔ ایک طرف سرمایہ دار ہیں اور دوسری طرف مزدور طبقہ۔ سرمایہ داری نظام استحصالی نظام ہے جس میں برابر حقوق نہیں ملتے۔ چنانچہ انہوں نے یہ کہا کہ ایک متبادل نظام ہونا چاہیے۔ انہوں نے کمیونزم کو متبادل نظام کے طور پر پیش کیا کہ اس میں مزدور طبقے کا راج ہو گا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں روس میں کمیونسٹ انقلاب برپا ہوا۔ مگر وہاں مزدوروں کا راج قائم نہ ہو سکا۔ چند برس بعد ہی وہاں جوزف سٹالن نے اقتدار سنبھال لیا۔ سٹالن کا نظام انتہائی ظالمانہ تھا اور روس نے کبھی اس قدر ظالمانہ نظام نہیں دیکھا تھا۔
چین میں سرخ انقلاب آنے سے چند برس بعد جب ماؤزے تنگ نے ثقافتی انقلاب لانے کا اعلان کیا تو کروڑوں چینی بے دردی سے ہلاک کر دیے گئے۔ آج ماؤ اور سٹالن اپنے ملکوں میں بدنام ہیں اور انہیں قاتلوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم جب وہ حیات تھے تو ان کا نظریہ ہر طرف پھیلا ہوا تھا اور لوگ ان کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلتے تھے۔
پاکستان کی مثال لیجیے جہاں 1971 میں کمیونسٹ پارٹی نے چین کے ایما پر یہ کہا کہ بنگال میں حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے لوگ دراصل انقلابی نہیں ہیں اور ان کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ گو کہ وہاں قتل عام ہو رہا تھا اور نسل کشی کی جا رہی تھی مگر ہمارے کمیونسٹوں کی آنکھوں پر بھی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔
جرمنی کی مثال اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے جہاں ایڈولف ہٹلر نے جرمن قوم کو یہ باور کرایا کہ ان کی نسل سے بہتر کوئی اور نسل موجود نہیں ہے۔ چنانچہ انہیں یہ حق پہنچتا ہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ دنیا کو مسخر کرے اور یہودیوں اور کمیونسٹوں کا قلع قمع کرے۔ نتیجتاً لاکھوں یہودیوں اور کمیونسٹوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
آج جرمن ہٹلر سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ہم کیسے اس کے نظریے کے قائل ہو گئے تھے۔ ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کیوں مفقود ہو گئی تھیں۔
میں نے متعدد مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ نظریات انسان کو کیسے نقصان پہنچاتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں نظریے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟
یہ سوچ ہم نے خود تخلیق کی ہے اور یہ ہم پر یوں حاوی ہو جاتی ہے کہ جیسے کمپیوٹر میں کوئی وائرس آ جائے اور اسے درست طور سے کام کرنے سے روک دے۔ بنیادی طور پر انسان کو نظریے کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ نظریے کے ہوتے ہوئے ہم سوچے سمجھے بغیر بھی فیصلے کر سکتے ہیں۔ لگے بندھے نظریے کے ہوتے ہوئے صحیح غلط اور ثبوت وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ نظریے کے ہوتے ہوئے ہم اسی بات پر عمل کرتے ہیں جو ہمیں بتائی جاتی ہے۔ نظریے کی موجودگی میں دماغ استعمال نہیں کرنا پڑتا۔
دماغ کی ساخت کا مطالعہ کرنے والے سائنسدانوں کو نیورو بائیولوجسٹ کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شاید انسان کا دماغ اسی طرح سے بنا ہے اور اسے جلد فیصلے کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ جنگل میں گزر رہے ہوں اور کہیں سے ہلکی سی سرسراہٹ سنائی دے تو کیا آپ یہ سوچیں گے کہ ادھر کس قسم کا جانور ہے یا اس کے ہونے یا نہ ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ یقیناً آپ ایسا نہیں سوچیں گے۔ اس کے بجائے آپ لڑنے کے لیے تیار ہوں گے یا بھاگنے کا فیصلہ کریں گے۔
نظریات بنیادی طور پر فلٹر کا کام کرتے ہیں۔ ہم انہیں اس لیے اپنے سامنے رکھتے ہیں کہ وہی چند چیزیں دیکھ سکیں اور باقی چیزیں نظروں سے اوجھل رہیں۔ یوں ہمیں ہر وقت خود فیصلہ نہیں کرنا پڑتا۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ گائے بیل اور گھوڑوں وغیرہ کے چہرے پر چشم بند لگا دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد جانوروں کو دائیں بائیں دیکھنے سے روکنا اور اسی کام پر مجبور کرنا ہے جو ہم ان سے لینا چاہتے ہیں۔
ہم سب کی آنکھوں پر کالی پٹیاں باندھ دی گئی ہیں جن میں آپ اور میں بھی شامل ہیں۔ یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا ہم انہیں اتار کر ایک جانب رکھ سکتے ہیں؟ کیا نظریے کے بغیر زندگی گزارنا ممکن ہے تاکہ زندگی کی اصلیت کو پہچانا جا سکے اور حقائق کو معروضی طور سے جاننا ممکن ہو پائے؟
میرا خیال ہے کہ ایسا کرنا ممکن ہے مگر اس کا راستہ آسان نہیں ہے۔ یہ پیچیدہ راستہ ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے سوال کرنے کی عادت پیدا کرنا ہو گی۔ سنی سنائی باتوں کے بجائے عقل و خرد پر بھروسہ کرنا ہو گا اور اچھی کتابیں پڑھنا ہوں گی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اس اہتمام کے باوجود بہت سے لوگوں کی آنکھوں پر پٹیاں نہیں اتر پائیں گی۔
اگر ہم دو سو، تین سو یا پانچ سو سال پہلے کے دور سے آج کا موازنہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ انسان نے ذہنی ترقی کے لیے طویل سفر طے کیا ہے۔ اب انسان عقل و خرد پر زیادہ سے زیادہ بھروسہ کرنے لگا ہے۔ لہٰذا ہمیں اس حوالے سے پرامید ہونا چاہیے۔
اسے بھی پڑھیں
6 Comments