سعید اختر ابراہیم
سٹیٹس کو جتناآج مضبوط ہے شائد کبھی نہ تھا۔ اور پھر اس کے خلاف نعرہ زن انقلابی تبدیلی تو کیا تجزئیے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھے ہیں۔ بس ایک غیر مرئی انقلاب ہے جس کے دعوے کی جگالی جاری ہے۔ بند بیٹھکوں اور ہالوں میں ملک بھر سے اپنے گنتی کے ہم نواؤں کو اکٹھا کرکے سمجھتے ہیں کہ انقلاب آیا کہ آیا۔ ہم نوا بھی ایسے کہ جو اپنے انقلابی لیڈروں کا درس سننے کی بجائے لاہور کی سیر کے زیادہ شائق ہوتے ہیں۔ ایک پنتھ دو کاج، کشمیر اور پنجاب کے کناروں پر بسنے والے کارکن لاہور کی میٹرو بس کے درشن کرلیتے ہیں اور لاہور میں مقیم لیڈر تصویریں بھیج کر مزید فنڈز پکے کر لیتے ہیں۔ بھائی اس سے کہیں بڑے اجتماع تو عوام کی طرف سے دھتکاری ہوئی جماعت اسلامی منعقد کرلیتی ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد جو بھی کسی کو روند کر وآگے آیا، حالات کے ہاتھوں دل گرفتہ عوام نے اُسی سے تبدیلی کی اُمید باندھ لی۔ تبدیلی تو ضرورآئی، مگر پہلے سے بھی بُری۔ میری عمر کے لوگوں کا سماجی اور سیاسی مشاہدہ اورتجربہ ایوبی دور سے شروع ہوتا ہے۔ تب بائیس خاندانوں کے خلاف غلغلہ اٹھا تھا۔ چینی ایک چوَّنی مہنگی ہوئی تھی، شائد ایک روپے سے سوا روپے سیر (تب کلو کا پیمانہ ابھی رائج نہیں ہوا تھا) اور عوام اُبل پڑے تھے۔ تبدیلی کی خواہش نے وہ گرد اڑائی کہ جب ذرا بیٹھی تو جنرل ایوب کی جگہ سن پینسٹھ کے بھگوڑے جنرل یحییٰ خان کو براجمان پایا۔ انقلابی گروپوں نے تبدیلی کے لئے زمین خاصی زرخیز بنا رکھی تھی۔ سو بھٹو کو اس زمین میں سوشلزم کے نعرے کا پودا لگانے میں کوئی دِقّت نہیں ہوئی۔
یحییٰ خان پہلی بار عوام کے ووٹوں سے حکمرانوں کے براہِ راست چناؤ کا وعدہ لے کر آیا۔ چناؤ ہوا بھی مگر اکثریتی پارٹی کو اقتدار دینے کی صورت میں دو خطرات پنہاں تھے۔ نمبر ایک فوجی جرنیل یحییٰ خان کی چھٹی اور نمبر دو اقتدارمیں پہلی بار بنگالیوں کی شراکت، جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کسی صورت قبول نہیں تھی۔ بھٹو کی آشیرباد سے بنگال پر فوج کشی ہوئی اور نتیجہ بنگالیوں کی آزادی اور ہمارے نوے ہزار فوجیوں کی قید کی صورت میں نکلا۔
اتنی ذلت انگیز شکست کے باوجود یحییٰ اقتدار سے علیحدگی پر تیار نہیں تھا سو بھٹو کو جنرل گل حسن کی مدد سے اس کا بازو مروڑنا پڑا۔ بھٹو کو اقتدار ملا تو عوام کی امیدوں کا سراب ایک بار پھر لہلہا اٹھا۔ مگر ہوا کیا، ’مزدور دوست‘ حکومت نے کوٹ لکھپت کے سینکڑوں مزدورخون میں نہلادیے۔ مارکیٹ سے آٹا چینی دونوں عنقا۔ لوگ راشن ڈپوؤں پر یوں لائن میں کھڑے ہوتے جیسے زکوٰۃ لینے والے۔ بس وہی خوشحال رہے جو پہلے بھی تھے اور یا پھر کسی حد تک وہ جن کا عرب کے صحراؤں کا ویزہ لگ گیا۔
اس دور میں مہنگائی اسی رفتار سے بڑھی جس رفتار سے عوام کو اس کے کم ہونے کی امید تھی۔ مذہبی عناصرکا اژدھا جسے عوام نے نیم جاں کردیا تھا، اسے وعدوں کی تکمیل سے جان چھڑانے کے لیے پھرسے اتنا طاقتوربنادیا گیاکہ وہ بھٹو حکومت کو ہی نگل گیا۔ اسی دور میں افغانستان کے مذہبی بھگوڑوں کو پناہ دے کر اس خطے میں دہشت گردی کا بیج بویا گیا جسے بعد میں ضیاء الحق نے تناور درخت بنایا جس کی جڑیں آج بھی بارودی سرنگوں کی طرح پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔
بھٹو دور ہماری سیاسی تاریخ کا پہلا عرصہ تھا جب لیفٹ اس مخمصے کا شکار ہوا کہ بھٹو کا ساتھ دے یا مخالفت کرے۔کئی تو اس امید پر پیپلز پارٹی میں جاگھسے کہ اُسے اپنے ایجنڈے پر لے آئیں گے، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شود۔نہ صنم ہی ملا نہ وصالِ صنم۔ ضیا دور میں پہلی بار اقتدار کا کھیت انتہائی دائیں بازو کے بے ریش اور باریش عناصر کے لیے چراگاہ بنادیا گیا۔کرکٹ ڈپلومیسی کے ماہر ضیاء نے بھٹو کی بنائی ہوئی سرسبز پچ پر خوب چوکے چھکے لگائے۔
بھٹو حکومت میں جو نظریاتی تضاد کم و بیش سرمئی ہوچکا تھا، ایک بار پھر سے سیاہ اور سفید میں بدل گیا اور مخمصے کے شکارلیفٹ کو اپنا شکار واضح دکھائی دینے لگا۔یہ ابھار ابھی جاری ہی تھا کہ سوویت یونین میں رائج نظام کے انہدام نے سارا منظر ہی تاریک کرڈالا۔ اسی دور میں این جی اوز کی صورت ڈالروں کا مینہ برسا تو کئی انقلابیوں نے خود کو انقلاب لانے سے پہلے ہی انقلاب کے ثمرات سے خوشحال بنا لیا۔ ضیاء الحق منظر سے ہٹا تو سارا نظریاتی منظر ہی دھندلا گیا۔ اسی دور میں یہ سانحہ بھی ہوا کہ جماعت اسلامی نے نہ صرف لیفٹ کے نعرے ہائی جیک کرلیے بلکہ مزدور تنظیمیں جو خاص الخاص لیفٹ کا حصار تھیں، اُن میں بھی سیندھ لگالی۔
پاکستان میں ہر نئی حکومت ایک جھوٹی امید سے شروع ہوئی اور سچی مایوسی پر ختم ہوئی۔ پے درپے مایوسیوں نے عوام کو اتنا بوندلا دیا کہ تبدیلی کی خواہش میں انہوں نے جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں میں فرق کرنا ہی چھوڑ دیا۔ پرانی حکومت سے نجات دلانے کے بہانے جو بھی جلتے تنور میں گرے عوام کے قریب آیا، اُسی کو ہاتھ تھمادیا۔ یہ الگ بات کہ وہ اُنہیں پہلے سے زیادہ تپتے تنور میں پھینک کر چلتا بنا۔
ملک میں شروع دن سے طاقت کا توازن اتنا غیر متوازن رہا کہ سیاسی قوتوں کو اپنے ادھورے اقتدار کی ضمانت کے لیے بھی جرنیلوں کی جانب ہمیشہ ملتمس نگاہوں سے دیکھنا پڑا۔سِرل المیڈا کی کہانی نے اس محاورے کو ایک بار پھر زندہ کردیا کہ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔ اور پھرمملکتِ خداداد کی ایک نرالی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں جرنیلوں کے غلط فیصلے بھی قومی مفاد کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں۔
آج کل عمران خان تن من دھن سے عوام کی جھوٹی امیدوں کے کھیت کوپانی دینے میں لگے ہیں مگر بوجوہ صورتحال ان کے حق میں نہیں ہے۔ عوام بری طرح سے منقسم ہیں۔ کئیوں نے بندانتظامی سے بچنے کی خاطر اپنے معاشی تحفظ کے چور دروازے ڈھونڈ لیے سو ان کے لیے تبدیلی کا نعرہ کوئی اپیل نہیں رکھتا۔ بہت سے سرکاری اور غیرسرکاری گروہوں کو حکومت نے گانٹھ لیا ہے۔
ماضی میں ممکنہ تعیناتی سے قبل آرمی چیفس سے خفیہ ملاقاتیں اس تاثر کو یقین میں بدلنے کے لیے کافی ہیں۔ لفافہ صحافی سب کے سب اس کی جیب میں ہیں۔پیپلز پارٹی کے برعکس ن لیگ خریدوفروخت کے جملہ حربوں سے لیس ہے۔ ممکن ہے سپریم کورٹ کے مستقبل قریب میں قائم کیے جانے والے کمیشن کے فیصلے سے ایوانِ اقتدار میں چند چہرے بدل جائیں مگر اسے کسی حقیقی تبدیلی سے تعبیر کرنا مضبوط جڑوں والے سٹیٹس کو کے خاتمے کی جھوٹی امید کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
♦