ایمل خٹک
مفاد عامہ کے ایشوز کو اجاگر کرنے اور اعلی حکام کے ساتھ اٹھانے کا ایک اچھا طریقہ کھلا خط لکھنے کا بھی ہے۔ قبائلی عوام کن مشکلات اور مسائل سے دوچار ہیں اس ضمن میں پشتون سوشل میڈیا موومنٹ نے چیف آف آرمی سٹاف کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے۔ مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر اس خط کو اس میگزین کےذریعے آپ سے بھی شریک کیا جا رہا ہے ۔ تاکہ قبائلی علاقوں کے مسائل کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔
محترم جنرل راحیل شریف صاحب
سلام خلوص۔ آپ کی توجہ اس کھلے خط کے ذریعے ایک سنگین مسئلے کی طرف دلانا چاہتے ہیں ۔ پچھلے دنوں وانا جنوبی وزیرستان میں ایک دہشت گرد کاروائی ہوئی جس کے ردعمل میں سیکورٹی فورسز نے مرزا عالم خان مارکیٹ کو باوردی سرنگ سے اڑا دیا ۔ یہ انتقامی کاروائی تھی یا ایف سی آر کے تحت اجتماعی ذمہ داری کے تحت سزا مگر نشانہ اس خاندان کو بنایا گیا جس کے سربراہ سمیت کئی فیملی ممبرز عسکریت پسندی کا نشانہ بنے ہیں۔ دہشت گردی کے کاروائی کی سزا مرحوم مرزا عالم خان کے خاندان کو دینا ایسا ہے جیسا آپ کے خاندان پر بھارتی جاسوسی کا الزام لگانا۔
ایسے اقدامات سے کسی کے جذبہ انتقام کو تسکین تو مل سکتی ہے مگر اس کے معاشرے پر بڑے منفی سیاسی اور سماجی اثرات پڑتے ہیں۔اس اقدام سے سیکیورٹی فورسز کےخلاف عمومی نفرت اور غم وغصہ بڑا ہے۔ ایسے اقدامات عوام کے دل اور ذھن جیتنے کی بجائے غم وغصے کا باعث بنتے ہیں۔
سیکیورٹی فورسز اس علاقے میں پہلی دفعہ نہیں گئیں بلکہ دس بارہ سالوں سے موجود ہیں اور ان کو علاقے سے کافی واقفیت ہونی چائیے تھی ۔ ان کو ابھی تک علاقے میں دوست اور دشمن کی پہچان اور ان کے بیچ فرق سمجھ آنا چائیےتھا۔ یہ معلوم ہونا چائیے کہ عسکریت پسندوں کے حمایتی کون ہیں یا تھے اور مخالف کون ہیں۔
دہشت گردوں کےہاتھوں بے پناہ مالی اور جانی قربانی دینے والے خاندان کو دہشت گرد کاروائی کی سزا دینا کہاں کا انصاف ہے۔ قطع نظر اس کے کہ آیا یہ ایک شعوری کوشش تھی یا لا شعوری ۔ مگر یہ اقدام مقامی لوگوں اور سیکیوریٹی فورسز کے درمیان غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا کرنے کی ایک کوشش ثابت ہوئی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ایسے اقدامات کئے جار ہیں جس سے قبائلی عوام میں غم وغصہ بڑھ رہا ہے اور قبائلی عوام دبے دبے یا کھلے عام احتجاج پر مجبور ہو رہے ہیں ۔ وزیرستان کے قدرتی وسائل کی قبائلی عوام کے مرضی کے بغیر نکاسی اور فروخت ، ان کی جائداد پر ان کی مرضی کے بغیر مارکیٹوں وغیرہ کی تعمیر یا چلغوزے کی آمدنی میں سے نصف حصہ بزور لینا جیسے اقدامات سے فاٹا کے بارے میں ایک نو آبادی کا تصور ابھرتا ہے جیسے وہ پاکستان کا حصہ نہ ہو یا اس پر کسی بیرونی قوت نے قبضہ کیا ہو اور وہ اپنی مرضی سے اس کے قدرتی وسائل لوٹ رہا ہو۔
فاٹا کے بارے میں پالیسیوں اور حکمت عملی پر ازسرنو نظرثانی کی ضرورت ہے ۔ قبائلی عوام کو غیر سمجھنے یا ان سے غیروں جیسا سلوک کرنے کی بجائے ان کو اس ملک کے برابر کے شہریوں جیسا سلوک کیا جائے اور ان کو بلوچوں کی طرح دیوار سے لگانے کی کوشش نہ کی جائے۔ ہم اس ضمن میں یہ مطالبات پیش کرتے ہیں۔
اس افسوسناک اقدام کیلئے مرزا عالم خان مرحوم کی خاندان سے معافی مانگی جائے اور ان کی مارکیٹ کو پہنچنے والے نقصان کا فوری ازالہ کیا جائے۔ واقعے کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائے تاکہ عوام اور سیکیورٹی فورسز کے مابین ایسے ناعاقبت اندیش اقدامات سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی ہو۔
مستقبل میں ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے ۔ انتظامیہ اور سیکیورٹی اداروں کی ناکامی کی سزا عام لوگوں کو اور وہ بھی ایسے لوگوں کو جو عسکریت پسندی کے نشانہ ہے ہوں انتہائی زیادتی کی بات ہے ۔ مجوزہ فاٹا اصلاحات فوری طور پر نافذ کئے جائے۔
پشتون سوشل میڈیا موومنٹ