ظفر آغا
خدا خیر کرے! ہندو پاک آہستہ آہستہ جنگ کی جانب رواں ہیں، اگر حالات یہی رہے جو ابھی ہیں تو دسمبر۔ جنوری تک جنگ چھڑ گئی تو کوئی حیرتناک بات نہیں ہوگی۔ یہ کالم لکھنے سے قبل راقم الحروف نے جب صبح کا اخبار اٹھایا تو اخبار جنگی ماحول سے بھرا پڑا تھا۔ ذرا ملاحظہ فرمایئے، پہلی خبر جلی سرخی میں کہہ رہی تھی کہ ’’ دہشت گردوں نے ہمارے ایک فوجی کو پاکستان کی جانب لے جاکر مارا اور پھر اس کی گردن کاٹ کر اس کی نعش ہندوستانی سرحد پر پھینک دی‘‘ بھلا کون فوج یہ برداشت کرسکتی ہے۔ چنانچہ جواباً ہماری فوج نے اعلان کردیا کہ ’’ ہم اس کا بدلہ لیں گے ‘‘۔
اسی طرح ’ ٹائمز آف انڈیا ‘ میں یہ خبر اعلان کرتی نظر آرہی ہے کہ سرحد کے اُس پار سے پاکستانی سیکورٹی کی گولہ باری مستقل جاری ہے جس کا منہ توڑ جواب ہماری جانب سے بی ایس ایف دے رہی ہے، اب تک ہم نے دودرجن سے زیادہ پاکستانیوں کو مار گرایا ہے۔ ظاہر ہے ہمارے جوان بھی شہید ہوئے ہوں گے۔ اسی کے ساتھ ساتھ سفارتی جنگ بھی جاری ہے۔ ہم نے دو روز قبل ایک پاکستانی سفارتی کارکن کو باہر کیا ، جواب میں انہوں نے ہمارے ساتھ اسلام آباد میں یہی کیا۔
الغرض، جنگ کے سارے آثار صاف نظر آرہے ہیں۔ اُدھر سے گولی کا جواب توپ دے رہی ہے، کشمیر میں دہشت گرد آئے دن زیادتیاں کررہے ہیں، حد یہ ہے کہ پاکستانی ہمارے فوجیوں کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔ دونوں جانب اعلیٰ حکمرانوں کے درمیان کسی قسم کا ربط ضبط ہونا تو درکنار دونوں جانب حکومتیں تو باقاعدہ لفظی سطح پر دست بہ گریباں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس ماحول میں کبھی بھی بات بگڑ سکتی ہے اور جنگ ہوسکتی ہے۔
لیکن آخر یہ جنگ کیوں؟ اور اگر جنگ ہوتی ہے تو اس کی کوئی سیاست بھی ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس جنگی ماحول کی بنیادی ذمہ داری پاکستان پر ہے۔ پہلے پٹھان کوٹ اور پھر اڑی میں پاکستان کی جانب سے جس قسم کے دہشت گردانہ حملے ہوئے اس کے بعد ہندوستان کیلئے خاموش رہنا ناممکن ہوگیا۔ چنانچہ پھر گزشتہ ماہ ہماری فوج نے پاکستان کے اندر دراندازی کرکے دہشت گرد کیمپوں پر حملے کئے اور اس کے بعد سے دونوں فوجوں کا سوال جواب جاری ہے۔ اب کیا واقعی اس وقت جنگ ہوتی ہے تو اس کے سیاسی اور عالمی پہلو کیا ہوسکتے ہیں۔ آیئے ذرا پہلے پاکستانی سیاسی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں۔
پاکستانی سیاست کے دواہم عناصر ہیں، ہندوستان دشمنی اور پاکستانی سیاسی نظام پر فوج کو اولیت ہے اور ایک کمزور تیسرا عنصر جو وہاں اب پیدا ہوگیا ہے وہ ہے پاکستان کی سویلین حکومت جس کی عنان فی الوقت نواز شریف کے ہاتھوں میں ہے۔ جہاں تک ہندوستان دشمنی کا سوال ہے تو اس پس منظر میں سرحد پر جنگی ماحول سے بہتر پاکستانی نظام کیلئے اور کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔ چنانچہ پٹھان کوٹ اور اڑی جیسے حملے کرکے پاکستانی فوج نے وہ ماحول بنادیا۔
اب رہی بات پاکستانی فوج کی تو اس وقت پاکستانی فوج دوباتوں میں اُلجھی ہوئی ہے اول تو یہ کہ اس کے رشتے فی الحال سویلین حاکم نواز شریف کے ساتھ اچھے نہیں ہیں، کوئی چھ ماہ قبل تک نواز شریف پاکستان میں خاصے مقبول تھے۔ یہ بات فوجی کمانڈروں کو اس لئے ناگوار گزری کہ وہاں سیاست میں اولیت تو پاکستانی فوج کا وطیرہ ہے۔ اسی اثناء میں ملک سے باہر نواز شریف کے خلاف کچھ بدعنوانی کے معاملات اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بس کیا تھا دیکھتے دیکھتے فوج کے اشارے پر عمران خان اپنے حامی موالیوں کو لے کر نواز شریف کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ۔
یعنی فوج کو یہ موقع مل گیا کہ وہ میڈیا کے ذریعہ یہ پروپیگنڈا کروائے کہ سیویلین سیاستدان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اس لئے وہ ہندوستان کا خطرہ کیا سنبھال سکیں گے۔ ان دنوں عمران خان نے نواز شریف کے خلاف اسلام آباد اور راولپنڈی پر چڑھائی کررکھی ہے۔ وہاں کے حالات اس ہفتہ اور خراب ہوں گے۔ اس طرح سیویلین حکومت اور کمزور ہوگئی اور عوام میں فوج کی قدر بڑھے گی اور پاکستانی سیاست میں فوج کی اولیت پھرقائم ہوگی۔ اسی ماحول میں پاکستانی فوج کو ہندوستان کے ساتھ فوجی تنازعہ اور راس آئے گا۔
اس لئے یہ طئے ہے کہ پاکستان کی جانب سے آنے والے مہینوں میں سرحد پر حالات بہتر ہونے کے بجائے حالات اور خراب ہوں گے۔ پھر جلد ہی پاکستانی سربراہ راحیل شریف کو اپنے عہدہ سے ریٹائر ہونا ہے، ان کے حق میں یہی ہوگا کہ ہندوپاک تنازعہ برقرار رہے تاکہ ان حالات میں ان کو ہٹانے کا فیصلہ ملتوی ہوجائے۔ لب لباب یہ ہے کہ پاکستانی سیاسی منظر نامہ میں وہاں کے فوجی نظام کیلئے اس وقت ہندوستان کے ساتھ جنگی ماحول بہتر ثابت ہوگا، اس لئے اس وقت جنگ کے امکانات سے انکار کرنا حماقت ہوگی۔
اب رہا ہندوستانی سیاسی منظر نامہ تو اس کے حالات بھی کچھ بہت اچھے نہیں ہیں۔ کسی بھی ملک میں حاکم وقت کا اولین ذاتی مفاد خود کی اقتدار پر گرفت برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ بہار کے چناؤ نے نریندر مودی کی سیاسی ساکھ کو چوٹ پہنچادی تھی۔ بہاراسمبلی کے چناؤ میں شکست کے بعد مودی کو کوئی نہیں ہراسکتا والا خمار اس ملک کی سیاست سے ٹوٹ گیا۔ پھر مودی کا دوسرا اہم طلسم تھا ڈیولپمنٹ یعنی ملک کی معاشی ترقی جس سے عوام میں خوشحالی کے امکان اور یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ ملک میں نوکریوں کا قحط ہوتا جارہا ہے۔ معیشت میں کوئی بڑاکارنامہ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ یعنی گجرات ماڈل کا نشہ بھی ٹوٹ چکا ہے۔
اب مودی ہندوستانی عوام کے لئے وہ ساحر نہیں رہے جو ان کے ہر دکھ کا مداوا کرسکیں۔ یعنی اب زمینی حقیقت ہے اور مودی ہیں۔ ان حالات میں مودی کو ایک نیا مایا جال بننے کی ضرورت ہے اور اپنے جانے مانے دشمن پاکستان کے خلاف جنگ سے بہتر دوسرا کونسا مایا جال ہوسکتا ہے جو ہندوستانی عوام کو اپنے دکھ ، درد بھول کر مودی کو پھر سے اپنا آقا منواسکتا ہے۔ اور ڈسمبر۔جنوری تک ہندوپاک تنازعہ اپنے عروج پر پہنچ جائے گا تو پھر یو پی سمیت اگلے برس ہونے والے اسمبلی چناؤ میں مودی کی مشکل حل ہوسکتی ہے۔ اس لئے مودی بھلا فی الحال امن کی کوشش کیوں کریں گے۔
یعنی ہندوپاک دونوں ممالک کے سیاسی منظر نامے ایک نئی جنگ کے نقیب نظر آرہے ہیں۔ ان حالات میں کسی بھی وقت بات ہاتھ سے نکل جائے تو کوئی حیرت کی بات نہ ہوگی۔ بس اب ایک ذات پروردگار ہی ہے جو ہندو پاک کو ایک اور جنگ سے بچا سکتی ہے۔ یوں سمجھیئے کہ سرحد پر جنگیطبل بج چکا ہے، کب فوجوں کو کوچ کا حکم ہوجائے یہ کہنا ابھی ذرا مشکل ہے، اس لئے بس اب خدا ہی خیر کرے!۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد، انڈیا