میرے اس استفسار پر کہ انگریز لوگ اتنے کامیاب کیوں ہیں؟ کا ہمیشہ ایک ہی جواب دیا گیا کہ ’’ ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں‘‘، پھر ہم اس عیسائی ملک میں کیسے اسلامی طور طریقوں سے زندگی گزار سکتے ہیں؟– یہ ان ایام کی بات ہے جب میں برطانیہ میں تعلیم کے سلسلے میں قیام پذیر تھا۔
انکل اختر ایک نیم خواندہ تقریباً 70 سال کا ایک شخص تھا جو پچھلے چالیس سال سے برطانیہ میں اپنا ایک شراب کا سٹور چلا رہا ہے۔ دیکھنے میں اس کے خیالات کسی بھی نیم خواندہ مسلمان سے کم نہیں تھے۔ وضع قطع میں ایک لبرل شخص دکھتے تھے جسے اسلام کا اتنا ہی علم تھا جتنا ہمیں ہمارے والدین اور دینیات کی کتابوں سے ملتا ہے۔ انہیں شاید اس سے بھی کم علم تھا۔
یونیورسٹی میں میری دوستی ایک پاکستانی نثراد لڑکی سے ہوئی جوکہ کافی مذہبی ر حجان رکھنے والی مسلمان لڑکی تھی۔ اکثر معاملات میں وہ ایک محب الوطن برطانوی شہری تھی لیکن اْسے انگریز قوم پسند نہ تھی ۔میرے وجہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ان (انگریزوں) کا مذہب پر یقین نہیں اور نہ ہی خاندانی روایات پر۔
لگاتار کچھ سالوں کے قیام میں، میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا آخر ہمارا مذہب ہے کیا؟ کچھ مطالعہ کیا تو پتا چلا کہ پاکستانیوں کا مذہب وہی ہے جو اْن کی معیشت کو نقصان نہ پہنچاتا ہو! مثلاً انکل اختر کی شراب کی دوکان کے بارے میں کبھی بات نہ کرتے کیونکہ اسلامی طور پروہ حرام کما رہے تھے۔ انکل اختر کے بچوں کی شادیاں انگریزوں میں نہیں ہوئی تھی چونکہ اْ ن کے پاس یہ آپشن موجود تھی کہ وہ اْن کی شادیاں مسلمان گھرانوں میں کر سکیں۔
رابعہ اپنے ملک سے پیار اس لیے بھی کرتی ہے کہ برطانوی شہریت میں اس بات کی ضمانت ہے کہ اْس کا مستقبل روشن ہے لہذا وہ اس ملک کے باسیوں سےنفرت تو کر سکتے ہیں لیکن ان کی نفرت کے باوجود کمبخت برطانوی قانون اندھا ہے وہ فرق کرنے سے قاصر ہے کہ رابعہ کون ہے اور ایما کون ہے؟
کئی سالوں بعد پاکستان لوٹا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیاکہ اسلامی جمہوریہ میں لوگ پہلے سے کہیں زیادہ مذہبی رجحان رکھتے ہیں۔ مسجدیں پہلے سے کہیں زیادہ آباد ہیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پوری قوم ایک صف پر کھٹری ہے، طالبان کے خلاف آپریشن زوروشور سے جاری ہے۔ کبھی کبھی یہ خبر بھی سننے کو ملتی ہے کہ داعش میں اپنے قدم جمانے کی کوشش میں ہے۔
یہ سب تنظیمیں تو اسلامی اقدار کا فروغ اور شریعت کا نفاذ چاہتی ہیں پھر اْن سے اتنی نفرت کیوں؟ آخر جب وہ ہم جنس پرستوں کو اونچائی سے گرا کر جہنم واصل کرتے ہیں وہ کیا غیر اسلامی فعل کے مرتکب ہیں؟بدچلنی کے نتیجے میں طالبان کسی عورت کو سنگسار کرتے ہیں تو آخر اس میں قباحت کیا ہے؟ آخر یہ سب چیزیں ہی ایک پْرامن اسلامی معاشرئے کی تشکیل کرتی ہے جس میں زندگی اسلام کے اصولوں کے عین مطابق گزاری جائے۔
بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور رجعت پسندی کی وجوہات پر مجھے اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ مذہب اور ریاست ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔مغرب میں جب تک چرچ کو مذہب پر برتری حاصل تھی چرچ مغرب کی ترقی میں حائل رہا۔ پاکستان کی تشکیل اسلامی اصولوں پر ہوئی تھی جوکہ شاید ایک حقیقت نہیں لیکن اسے جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا آخر یہی سب کچھ ہمارے نصاب میں بھی درج ہے کہ پاکستان ایک لیبارٹری ہے جو اسلام کی ایک تجربہ گاہ ثابت ہو گی۔
پاکستان میں انتہا پسندی کی اصل وجہ اْس ذہن کے لوگ ہیں جو نئی نسل کو تو اسلامی معاشرے کے فوائد گنواتے تھکتے نہیں۔ جی میرا اشارہ انصار عباسی او راوریاء مقبول جیسے لوگوں کی طرف ہے لیکن یہ لوگ بھی آج اپنا کاروبار اْنہی لوگوں کی مرہونِ منت سے چلا رہے ہیں جن کے خلاف جنگ پر وہ طالبان کے نظریے کی حمایت کرتے ہیں۔ وہی انگریز جس نے ہمیں پرنٹنگ مشین دی جس کی بدولت اْن کی بات اخبار میں کالم کی شکل میں لاکھوں لوگوں تک پہنچتی ہے۔ اصل میں یہ وہ مسخ شدہ سوچ کے حا مل ہیں جو ہماری آنے والی نسلوں کے لیے نفرت کا بیج بو کر جا رہے ہیں۔
ّآج کی دنیا کی حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے جس کے لیے مذہبی جنونیت رکھنے والے افراد مرے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ا کیسویں صدی کے تقاضے یہ چاہتے ہیں کہ مذہب کو ریاست سے الگ کر دیا جائے یا تو پھر مادی ترقی کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ یہ ممکن نہیں۔ ہم منافقت کی آخری حد وں کو چھوتے ہوئے عیسائیوں سے نفرت کر تے ہیں اور پاکستان میں اْنہی کے ہم مذہبوں کے ملک جانے کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر ویزا لیے جائیں۔ یہ ممکن نہیں مذہب کے نام پر لوگوں پر توہین مذہب کے مقدمات کیے جائیں یا انہیں مار دیا جائے اور اْس پر بھی احتجاج کیا جائے کہ بھارت میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک نہ کیا جائے۔
مذہب ہر کسی کا ذاتی مسئلہ ہے ۔ انسان صرف خدا کو جواب دہ ہے ۔ مذہب کی آڑ میں جب تک بچوں کو نفرت کا درس دیا جاتا رہے گا۔ دراصل یہ دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں دِکھائی دے گی۔ نصاب میں انتہاپسندی پڑھانے کا نقصان یہ ہے کہ ائی بی اے کراچی اور لاہور میں لمز جیسے تعلیمی اداروں میں بھی دہشت گردوں کے حامی نظریے کے لوگ آچکے ہیں جوکہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے کچھ افراد فرار حاصل کرنے کے لیے علماءِ اکرام کی طرف رْخ کرتے ہیں جو اْنہیں یہ مشورہ تو شاید نہ دیں کہ کوئی ووکیشنل کورس کر لیا جائے یا اپنی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے کوئی ڈپلومہ کر لو بلکہ اْن کے ہاتھ میں ایک لوٹا اور مصلہ تھما دیا جاتا ہے جس میں اْن کی دنیا اور آخرت کی بقا ہونے کا پختہ یقین کروادیا جاتا ہے۔
لہذا جب ہم آخرت کو سنوارنے کی کوشش میں دنیا کی ترقی سے اپنی نئی نسل کو نا آشنا رکھنے پر تْلے ہیں تو پھر طالبان یا داعش کی ملک میں موجودگی پر اتنا ہنگامہ کیوں؟
♦