ایمل خٹک
گزشتہ کچھ عرصے سے ترکی کی سیاسی ڈکشنری میں ایک نئی اصطلاح یعنی پاکستانائیزشن کا اضافہ ہوا ہے اور ترکی کی حزب اختلاف کے راھنما اور میڈیا کا کچھ حصہ اس اصطلاح کو وقتاً فوقتاً استعمال کررہا ہے۔
ترکی اور پاکستان کے برادرانہ تعلقات اور رشتے اپنی جگہ مگر ترکی کی حکومت وہ کیا کررہی ہے یا پاکستان سے کن مماثلتوں کی بنیاد پر وہاں کی حزب اختلاف اس کو پاکستانائیزشن کا عمل یا پاکستان کی طرح قرار دے رہی ہے۔ وہ کیا حالات ہیں یا کیا خصوصی اوصاف ہیں جس کی بنا پر ترکی کی پاکستانائیزشن کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یعنی پاکستان نے ایسا کیا کچھ کیا ہے جس کی پیروی ترکی میں بھی کی جارہی ہے یا حکومت پر ترکی کو پاکستان یا پاکستان جیسا بنانے کی پھبتی کسی جا رہی ہے۔ پاکستانائیزشن کی اصطلاح کا وضع کرنا دراصل پاکستانی ریاست کے کسی عمل یا اعمال یا کچھ اوصاف کو اپنانے کی وجہ سے ترکی کو پاکستان سے جوڑنے یا اس سے مترادف قرار دینے کی ایک کوشش ہے۔
رجب طیب اردعان کا ترکی کئی حوالوں سے پاکستانی ریاست کی طرح یا اس قسم کی پالیسیوں پر گامزن ہے جس کی بنا پر ترکی کی حزب اختلاف یا کچھ دانشور اپنے ملک کی پاکستان کی نقش قدم پر چلنے کو ترکی کی پاکستانائیزشن سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ترکی اور پاکستان میں کئی مماثلتیں ہیں مثلا امور مملکت میں دیگر ممالک کی نسبت فوج کا غیر روایتی کردار اور جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹناحتی کہ ترکی میں اس رول کو آئینی تحفظ بھی دیا گیا ہے۔ لیکن پاکستانائیزشن کی اصطلاح شاید دو دیگر وجوہات کی بناء پراستعمال ہو رہی ہے۔
ایک تو ترکی کاہمسایہ ممالک میں بڑھتی ہوئی مداخلت اور علاقے میں عسکریت پسندی کی حمایت اور سرپرستی ہے اور دوسرا اس پالیسی کے اندرون ملک پڑنے والےمضر اثرات اور امن و امان کا مسئلہ ہے۔ جہاں تک ترکی میں پاکستانائیزشن کی مخالفت کا تعلق ہے اس کی ایک وجہ لبرل ترکوں کیلئے پاکستان کا ایک کٹر مذہبی ریاستی تشخص اور امیج بھی شاید قابل قبول نہیں ہے۔
طیب اردعان کے دور میں ترکی کے ہمسایہ ممالک عراق ، شام ، قبرص وغیرہ کے ساتھ تعلقات خراب ہیں اور ترکی پر ہمسایہ ممالک میں مداخلت کے الزامات ہیں۔ ترکی پر شام مخالف قوتوں چاہے وہ داعش ہو یا ترک نژاد مسلح گروپ کی حمایت کا الزام لگایا جا رہا ہے ۔ اور جس طرح پاکستان کو افغانستان میں بنیاد پرست عسکریت کے فروغ کیلئے ایک لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس طرح ترکی میں داعش وغیرہ تنظیموں کے تربیتی اور لاجسٹک مراکز قائم کیئے گئے اور زیادہ تر بیرونی رضاکار بھی ترکی کے راستے شام جاتے ہیں ۔
اس طرح داعش کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ پیٹرول کی غیر قانونی تجارت یا اسمگلنگ ہے۔ جس طرح افغان جہاد کے دوران اور بعد میں پاکستان میں اسمگلنگ میں مجاہدین اور دیگر مافیا گروپوں کے ساتھ ساتھ بعض پردہ نشینوں کے نام لیے جا رہے تھے۔ اس طرح داعش کے ساتھ کاروباری شراکت میں طیب اردعان کے بیٹے بلال اردعان وغیرہ کا نام لیا جا تاہے۔
بدقسمتی سےہماری ناعاقبت اندیش تباہ کن پالیسیوں ، تلخ اور ناکام تجربات کی وجہ سے ماضی کے ذکر سے بعض حلقوں اور اداروں کو چڑ ہو گئی ہے۔ مگر ماضی کے ذکر کے بغیر پاکستان میں انتہا پسندی، فرقہ وارایت اور عسکریت پسندی کی داستان نہ تو مکمل ہوتی ہے اور نہ سمجھ میں آسکتی ہے۔
ہماری ریاست نے مشرقی پاکستان میں جو عسکریت پسندی کو بطور ایک پالیسی ٹول کے ذریعے استعمال کا تجربہ کیا اور کچھ اسلامی شدت پسند نوجوانوں کو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے خلاف استعمال کیا۔ مشرقی پاکستان کے خالص سیاسی مسائل کو بزور اور جبر سے حل کرنے کا نتیجہ تو سب کے سامنے ہے۔ مرحوم جنرل ضیاء الحق نے پھر اسی ماڈل کو افغانستان اور پھر کشمیر میں لاگو کیا۔ سرد جنگ کی مخصوص صورتحال اور مشرقی پاکستان میں اکثریتی جماعت کو اقتدار سونپنے میں حیل و حجت اور انکار نے پاکستانی ریاستی اداروں کو کچھ بنیادپرست مذہبی جماعتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ پر مجبور کیا اور شدت پسند بنیاد پرست حلقوں کو مشرقی پاکستان میں جمہوری قوتوں کو کچلنے اور کاؤنٹر کرنے کیلئے استعمال کیا۔
اسٹبلشمنٹ نے اسی تجربے کو افغان جہاد میں بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ ریاستی اداروں اور عسکریت پسندوں کی قربت اور ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے ان اداروں میں بھی انتہا پسندی اور فرقہ وارایت کے جراثیم سرایت کر گئے۔ جنرل ضیاء الحق کی اسلامائزیشن پالیسی نے اداروں میں انتہا پسندی اور فرقہ وارایت کی سرایت کرنے کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھایا۔ جنرل ضیاء کے دور میں جہاد کیلئے عوامی حمایت حاصل اور جہادی پالیسیوں کیلئے سازگار فضا پیدا کرنے کیلئے بہت منظم انداز میں کو ششیں کی گئیں ۔ انتہا پسند اور جہادی بیانیوں کو تخلیق اور فروغ دیا گیا۔ ضیاء فوجی آمریت کے دوران نہ صرف عسکریت پسندی کو ایک پالیسی کے ذریعے بلکہ ایک پراکسی وار کے ذریعے کے طور پر بھی استعمال شروع ہوگیا اور ہم نے بعض علاقائی قوتوں کو کھلی چھٹی دیدی کہ وہ اپنی رقابتوں اور مفادات کی جنگ پاکستان کی گلی کوچوں میں لڑے اور فرقہ وارایت کے نام پر بیگناہ مسلمانوں اور معصوم شہریوں کا خون بہائے۔ اور بدقسمتی سے فرقہ اور عقیدہ کے نام پر خون ریزی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس طرح شام میں حالیہ بحران کے ابتدائی دنوں میں شامی حکومت کے حامیوں اور مخالفین دونوں نے جنگ کیلئے پاکستان سے کھلم کھلا رضاکار بھرتی کیے۔
ضیاء دور کے دو اثرات سالوں تک ہمارا پیچھا کر یں گے ۔ ایک عسکریت پسندی کا فروغ اور دوسرا ریاستی اداروں کو جہادی کلچر میں رنگنے کی کوششیں ۔جہادی کلچر کو اتنا فروغ دیا گیا کہ وہ ریاستی اداروں اور خاص کر جن کا قریبی تعلق جہادی گروپوں سے رہا کی جڑوں تک میں سرایت کرگیا۔ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ریاست تو معاشرے کو تنگ نظر قسم کا مذ ہبی بنانے پر مصر ہو اور ریاستی ادارے اپنی پالیسیوں کو پروان چڑھانے اور ان پالیسیوں کیلیے سازگار ماحول بنانے پر تلے ہوں اور انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے اثرات سےریاست اور اس کے کل پرزے محفوظ ہوں۔ اور ان میں مذھبی جنونیت اور انتھاپسندی کے جراثیم نہ پھیلیں۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نہ صرف ریاست اس حقیقت سے انکاری ہے بلکہ جب وہ معاشرے اور اپنے آپ کو دیکھتی ہے ہر طرف پھیلی ہوئی گندگی کو دیکھتی ہے تو بوکھلاہٹ اور پریشان ہو جاتی ہے ۔ بجائے اس کے کہ وہ خود تنقیدی کرکے اپنی صفوں کو درست کرے وہ بیرونی عوامل کے رول کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے۔ہر تباہ کن دہشت گرد کاروائی کے بعد یہ باتیں اکثر سننے کو ملتی ہیں کہ کوئی مسلمان یا پاکستانی یہ کام نہیں کرسکتا اور یہ کام غیروں کا ہے۔
دہشت گردی کے واقعات کے فوری ردعمل کے بیانات کو اگر ایک طرف رکھ کر بعد کی کاروائی اور کیس کی تفصیلات سامنے رکھی جائیں تو جو گرفتاریاں ہوتی ہیں یا پیش کی جاتی ہیں تو کروائی کرنے والے ، اسکے سہولت کار اور ماسٹر مائینڈ سب مسلمان اور پاکستانی ہوتے ہیں۔ ریاستی پالیسیوں کی بدولت پاکستانی اور افغان عسکریت پسند باہم شیرو شکر ہیں اس لیے اکا دکا کیسز میں افغانیوں کا ملوث پایا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
یقیناً پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پر بیرونی عوامل ہونگے یا ہیں ۔ بیرونی عوامل کے رول سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر بیرونی عوامل کے رول کو اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو چھپانے اور ذمہ داریوں سے مبرا ہونے کے استعمال کرنے سے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بیرونی عوامل کی طرف انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے خود تنقیدی کی ضرورت ہے کہ حالات کی خرابی میں ہمارا خود کتنا ہاتھ ہے۔ خود تنقیدی اور اصلاح احوال کے بغیر بیرونی عوامل کے رول کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے خود فریبی یا ذمہ داریوں سے مبرا ہونے کی ناکام کوشش تو ہو سکتی ہے مگر مسلے کا دائمی حل ممکن نہیں۔
چونکہ ابھی تک ضیاء دور کی پالیسیوں اور کلچر کو تبدیل کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ اور ٹھوس کوششیں نہیں کی گئیں اس لئے اس کے اثرات ہرجگہ دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں ریاستی اداروں میں اہم پوسٹوں پر تعینات بہت سےافسر نہایت خلوص سے اب بھی یہ سوچ رکھتے ہیں کہ فلاں قومیت یا فرقہ محب وطن نہیں یا فلاں فرقہ صیح مسلمان نہیں اور دائرہ اسلام سے خارج اور حتی کہ واجب القتل بھی ہے۔ یہ کہ سیاسی مسائل کا حل صرف جہاد ہے اور یہ کہ ہمسایہ ممالک میں برسر پیکار عسکریت پسند راہ حق پر ہے ۔
اس کے باوجود کہ دونوں میں نظریاتی ہم آہنگی ہے اور ایک ہی امیر المومنین کے ہاتھوں بیت کی ہے اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ لڑتے رہے ، تخریب کے ایک جیسے طریقے استعمال کر رہے ہیں مگر افغان طالبان صحیح اور پاکستانی طالبان غلط ہیں۔ اسی سوچ سے ایک واہیات اور بے تکی قسم کی اچھے اور برے طالبان میں تمیز والی تھیوری جنم لیتی ہے۔ یہ نظریاتی خلفشار اور کنفیوژن جب تک ختم نہیں ہوتی عسکریت پسندی کی وباء پر قابو پانا مشکل ہے۔ کیونکہ آج کے برے طالبان کل کے اچھے طالبان تھے اور اچھے طالبان یا عسکریت پسندوں کو برے طالبان اور عسکریت پسندوں میں بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔
پاکستانائیزشن کی اصطلاح کا وضع اور رائج ہونا ہماری تعریف کے زمرے میں آتا ہے یا برائی مگر یہ ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔کہ ہمیں اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر تجدید اورنظرثانی کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کا علاج صرف آپریشن سے ممکن نہیں بلکہ اس کے خاتمے کیلئے سیاسی، ثقافتی اور معاشی سطح پر بھی ہم آہنگ کوششوں کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کسی حد تک مرض کی علامتوں کا تو علاج ہو رہا ہے مگر وجوہات جوں کی توں ہیں۔
♦