ہندوستان کی مسلم لیڈر شپ بھی زمانے کے ساتھ چلنے کے لیے عورتوں کے کردار کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خصوصی شعبہ خواتین تشکیل دینے کا اعلان کیاہے جو طلاق جیسے حساس مسائل سے نمٹے گا۔ علاوہ ازیں بورڈ نے ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے تین طلاق کی بھرپور تائید کی ہے۔
ویسے تو ہندوستانی مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ اسلا م نے تو پندرہ سو سال پہلے ہی عورتوں کو تمام حقوق دے دیئے تھے مگر یہ علیحدہ بات ہے کہ انہیں ابھی ابتدائی سطح پر پہنچنے میں کئی سو سال لگ گئے ہیں ۔وہ بھی اس لیے کہ ہندوستان کی حکومت مسلمان خواتین کو جائیداد اورطلاق کے معاملات میں مردوں کے برابر قانونی حقوق دینے کی تیاریاں کر رہی ہے۔
لیکن ہندوستان کی مسلم تنظیمیں اس مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج میں مصروف ہیں۔ اور اسی احتجاج کے نتیجے میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے شعبہ خواتین کی تشکیل کر ڈالی ہے۔ وگرنہ دلی ہنوز دور است والا معاملہ تھا۔
اسی لیے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے آج یہاں ختم شدہ اپنے تین روزہ اجلاس میں منظورہ قرارداد نے کہا کہ مسلمانوں کے عائلی قوانین کو حکومت غصب کررہی ہے۔ بورڈ کے سیکریٹری ظفریاب جیلانی نے کنونشن کے اختتام کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شعبہ خواتین، مسئلہ طلاق کے علاوہ مسلمانوں کی تعلیم اور خاندانی تنازعات سے نمٹے گا۔
بورڈ نے آل انڈیا مسلم ویمنز ہیلپ لائن کے قیام کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ ایک ٹول فری کال سنٹر بھی قائم کیا جائے گا جہاں اُردو، انگریزی اور دیگر آٹھ علاقائی زبانوں میں کونسلنگ کی جائے گی نیز خاندانی تنازعات کی یکسوئی کیلئے خواتین کو دارالقضاۃ سے رجوع ہونے کیلئے رہنمائی کی جائے گی۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک رکن کمال فاروقی نے کہا کہ مسلم خواتین کے مسائل کا جائزہ لینے اور یکسوئی کیلئے بورڈ میں پہلی مرتبہ ایک شعبہ خواتین قائم کیا گیا ہے۔
کمال فاروقی نے کہا کہ ’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اترپردیش اسمبلی انتخابات میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ووٹوں کی شیرازہ بندی کے ذریعہ سیاسی فائدہ اٹھانے کے مقصد سے حکومت، تین طلاق اور یکساں سول کوڈ جیسے مسائل کو موضوع بنارہی ہے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ان مسائل پر حکومت کے ساتھ بات چیت کا حصہ بننا چاہتا ہے لیکن حکومت کو اس سے دلچسپی نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا نظریہ ہے کہ شرعی قوانین دراصل قرآنی احکام اور سنت پر مبنی ہیں چنانچہ شرعی قوانین کو احکام خدا کی حیثیت حاصل ہے۔ جس میں کسی ارباب مقتدر کی طرف سے کوئی ترمیم یا تبدیلی نہیں کی جاسکتی‘‘۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پیش کردہ اپنے حلف نامہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اپنے نقطہ نظر بیان کرچکا ہے۔ کمال فاروقی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرنے حکومت کے اِرادوں کا جیسے ہی علم ہوا، مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ دار نے رجسٹرڈ پوسٹ کے ذریعہ وزیراعظم نریندر مودی اور پانچ مرکزی وزراء کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے اپنے نظریات بیان کیا تھا۔
مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کی نمائندگی کرتا ہے، لیکن حکومت چونکہ پہلے ہی اپنا ذہن بنا چکی تھی، بورڈ کے نظریات سے واقفیت حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھی‘‘۔ فاروقی نے الزام عائد کیا کہ لا کمیشن کی طرف سے تیار کردہ سوالنامہ میں نہ صرف پیشہ واریت کا فقدان ہے بلکہ اس حساس مسئلہ پر موجودہ حکومت کے اِرادوں کی جھلک ملتی ہے جو پچھلے دروازے سے یکساں سول کوڈ نافد کرنا چاہتی ہے اور مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا ارادہ رکھتی ہے۔
تاہم انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ میں داخل کردہ اپنے حلف نامہ سے حکومت دستبردار ہوجائے گی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی تین طلاق پر اپنا سوالنامہ تیار کیا ہے اور اس پر مسلمانوں میں دستخطی مہم شروع کی ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کی رکن عاملہ اسماء زہرہ نے کہا کہ ’’لاکھوں مسلم خواتین نے تین طلاق کے مسئلہ پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے موقف کی حمایت کی ہے اور اس مسئلہ کو دراصل مسلم پرسنل لا میں مداخلت کیلئے حکومت ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ حکومت، مسلم خواتین کو مظلوم ظاہر کرتے ہوئے ایسا محسوس کرنا چاہتی ہے کہ وہ انہیں بچانے کی کوشش کررہی ہے جو غلط ہے‘‘۔
Daily Siasat, India/ News Desk
♦