آصف جاوید
جب ملّائیت اور عقیدے کی حکمرانی کا دور ہو تو انسانی فکر، عقل و شعور، قوّت مشاہدہ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، تحقیق و جستجو کی جبلّت ، مظاہر ِفطرت کےعقلی و سائنسی جواز تلاش کرنے کی خواہش ، مسائل کا منطقی تجزیہ کرنے کے سب راستے ، ملّا وں کی شریعت بند کردیتی ہے۔
ہر مسئلہ کا حل، مشاہدے اور تجربات کی مدد سے سائنسی استدلال کی بجائے شریعت اور فتاویٰ میں تلاش کیا جاتا ہے۔ عقائد کو چیلنج کرنے والوں کو مرتد اور کافر قرار دےدیا جاتا رہا ہے۔ ڈاروِن کا نظریہ ارتقاء آج بھی اسلامی عقائِد کے خلاف ہے۔ معاشیا ت کا قانون تقلیلِ افادہ آج بھی مال میں برکت کے اسلامی نظریہ کے خلاف ہے۔
مسلِم دنیا میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب عقل، سائنس، تحقیق و تجربات کا دَم ، اور اظہار کے سارے را ستوں کا گلَا ، ملّاوں کی شریعت نے گھونٹ کے رکھ دیا تھا۔ تو ایسے میں مسلم دُنیا میں صرف شاعری ہی وہ ذریعہ اظہار بچی تھی ، جس سے حسّاس اور سوچنے والے دماغ اپنے جذبات کا اظہار اور ابلاغ کیا کرتے تھے۔ اس لئے برّصغیر میں شاعری کی عظیم روایت نے جنم لیا۔
یہاں ہم برِّ صغیر پاک و ہند کے حوالے سے شاعری کو چار اَقسام میں بانٹ سکتے ہیں۔لوک شاعری، صو فیانہ شاعری، کلا سیکل شاعری ، جدید شاعری۔ ہمارے شعراء اکرام نے انسانی دُکھوں، پیچیدگیوں ،احساسات، جذبات کو اتنے نازک طریقے سے بیا ن کیا ہےکہ شاعری کو دانِش ، جمالیات اور روح کی معراج تک پہنچادیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پس ماندہ خطّے ، وطن ، قوم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہماری شاعری عالمی ادب کا حصہ نہیں بن سکی ہے، مگر مقبول شعراء اکرام کی شاعری کے تراجم دیگر زبانوں میں آج بھی ہوتے رہتے ہیں۔
شاعری کا تعلق حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے، کیونکہ حساس لوگ کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے۔ مربوط الفاظ میں انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی کو شاعری کہا جاتا ہے۔ شاعری کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی اور ترجمانی کا دوسرا نام ہے ۔ مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ سب کا الگ الگ ہوتا ہے کچھ لوگ اس کو زبان یعنی گفتگو سے ظاہر کرتے ہیں ، کچھ لوگ اس کو قلم یعنی لکھ کر نثر یا نظم کی صورت میں بیان کرتے ہیں ۔
نثر کو مضمون، ناول ، افسانےاور کہانیاں اور نظم کی ہر ہَیت کو شاعری کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگ زبان کی بجائے ہاتھ کی فنکاری سے اظہار کرتے ہیں، جیسے مجسمہ سازی، سنگ تراشی، نقش نگاری اور فنِ مصوری وغیرہ۔ مگر علمی اعتبار سے اظہارِ جذبات و احساسات کا سب سے موثّر ذریعہ آج تک شاعری ہی رہا ہے، کیونکہ شاعری ابلا غ کا موثّر اور تیز ترین ذریعہ ہے، شاعری انفرادی عمل ہے، مگر برِّ صغیر میں شاعری کا ابلاغ مجلسی شکل میں مشاعروں کی صورت میں بھی کیا جا تا ہے ۔
شاعر اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اُسے نظم کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی سوچ کو دوسرے لوگوں تک ہو بہو اسی طرح پہنچا دے جس طرح وہ سوچتا ہے۔ صدیوں سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار اِس ہی طریقے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جلسے جلوسوں پر سیاسی پابندیاں بھی شاعر کو اپنے جذبات کی ترجمانی سے نہیں روک سکتی ہیں۔
مگر ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شاعری سماجی مسائل کو اجاگر کرنے میں معاوّن ثابت ہوسکتی ہے؟
اِس کا سیدھا سادھا سا جواب تو یہ ہے کہ شاعری سماجی مسائل کو اجاگر کرنے میں معاوّن ثابت ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ یہ سب کچھ شاعر کی اخلاقیات پر منحصر ہے۔ اگر شاعر بے حِس و منافق ہو، اور سماجی مسائل کے حل کو کو صرف سیاست دانوں کی ذمّہ داری سمجھتا ہو تو اسکی شاعری سماجی مسائل کا احاطہ کبھی بھی نہیں کرے گی۔
لیکن اگر شاعر کا ضمیر زندہ ہے۔ اور شاعر کی طبعیت سماجی مسائل پر مضطرِب اور بے چین رہتی ہے تو اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ شاعر سماجی مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع ضرور بنائے گا۔ شاعری میں تو اتنی گنجائِش ہے کہ جو بات انسان کسی مصلحت یا جبر و پابندی کی بناء پر کسی کے سامنے منھ در منھ یا براہِ راست نہیں کرسکتا ، وہی بات علامتی شاعری یا مزاحمتی شاعری کے شکل میں کی جاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم فیض احمد فیض اور حبیب جالب کے نام فخریہ طور پر لے سکتے ہیں۔
فیض احمد فیض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فیض احمد فیض نے سماجی مسائل کو غنّائی احساسات سے جوڑتے ہوئے یادگار رومانوی گیت تخلیق کئے ہیں۔ روشن خیال اور سیکولر اقدار پر یقین رکھنے والے ترقّی پسند شاعر و دانشور ، فیض احمد فیض نے اپنی ترقی پسندانہ سوچ اور شاعری سے پاکستان کی اب تک کی تین نسلوں کو متاثر کیا ہے۔
فیض کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ فیض نے پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں انتہا پسندانہ نظریات کے مخالف اپنے جوابی بیانیےکو اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ فیض نے اپنی شاعری میں جواستعارے، الفاظ، موسیقیت اور شاعرانہ تراکیب استعمال کی ہیں، وہ آفاقی نوعیّت کے حامل ہیں۔
فیض جہاں ایک طرف پاکستان کے طالع آزماوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے، وہیں فیض افریقہ کے مسائل پر بھی پُرنَم دکھائی دیتے ہیں اور ساتھ ہی فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ فیض کی شاعری کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ ہمیں سماجی مسائل کاادراک سکھاتی ہے۔ فیض کی شاعری میں مسلم انتہا پسندانہ نظریات کا برملا رد بھی دکھائی دیتا ہے۔
مزاحمتی شاعری میں ایک بڑا نام حبیب جالب کا بھی ہے۔ وہ لوگ جو انسانی ضمیر کی حرمت کوزندہ رکھنے کی کوشش میں ہر وقت سرگرداں رہتے ہیں وہ آج بھی حبیب جالب کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں۔ حبیب جالب کی شاعری آمریت اور استبداد کے خلاف مزاحمت کا استعارہ ہے۔ حبیب جالب نے اپنی شاعری سے عوام کے جمہوری، سماجی، سیاسی حقوق کی پاسداری کا علم بلند کیا ہے۔ سامراجی قوتوں اور ان کے دلال سیاستدانوں کا مقابلہ کیا ہے اور ہر دور میں عتاب کا نشانہ بنے ہیں۔
ضمنی طور پر یہاں ہم اس اہم سوال کو بھی شامل کرلیتے ہیں کہ کیا شاعری سماجی تبدیلی لا سکتی ہے؟
ڈاکٹر مبارک علی ، ایک مفکّر ،دانشور اور تاریخ داں ہیں ، ڈاکٹر صاحب نے اس سوال کا نہایت شاندار جواب دیا ہے ، اور ہمیں ڈاکٹر صاحب کے اس جواب سے مکمّل اتّفاق ہے ، اپنے قارئین کےلئے ہم یہاں ڈاکٹر صاحب کا جواب مختصرا” تحریر کئے دیتےہیں۔
۔” شاعری معاشرے میں سیاسی شعور اور تبدیلی کا ذریعہ نہیں ہوتی” ۔ شاعری کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے، وہ جذبات کو انگیختہ تو کرتی ہے مگر اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے شاعری سیاسی تحریک کے دوران لوگوں کو جذباتی طور پر ابھار تو سکتی ہے مگر انقلاب کا سبب نہیں بن سکتی ہے“۔
ڈاکٹر صاحِب کا کہنا ہے کہ چونکہ شاعری میں آہنگ ہوتا ہے، اس لئے اشعار کو زبانی یاد کرنا آسان ہوتا ہے۔ لہٰذا شاعری ان معاشروں میں زیادہ مقبول ہوتی ہے کہ جن کا کلچر زبانی روایات پر ہوتا ہے۔ لیکن جب معاشرہ ترقی کرتا ہے، اس میں نئے خیالات اور افکار پیدا ہوتے ہیں تو پھر ان کے اظہار کے لئے شاعری کے بجائے نثر کو اختیار کیا جاتا ہے۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب معاشرہ شاعری سے نثر کی جانب جاتا ہے، تو وہ اس کی ترقی کو ظاہر کرتا ہے۔
سماج میں تبدیلی اس وقت آتی ہے کہ جب سماج میں صنعتی انقلاب آتا ہے ۔ ایک اہم ایجاد پوری سوسائٹی اور اس کے ڈھانچہ کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ہمارے اپنے زمانے میں کمپیوٹر، ای میل، سیل فون، اور فیکس وغیرہ کی ایجادات نے نہ صرف معاشرے کو سماجی طور پر بدلا ہے بلکہ انسانی رویوں اور عادات کو بھی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ شاعری انسان کے جمالیاتی احساسات کو پرورش کرنے اور زندہ رکھنے میں ایک موثر ذریعہ ضرور ہے جو اسے فطرت کے قریب پہنچا کر سکون دیتی ہے لیکن محض شاعری معاشرے میں سیاسی شعور اور تبدیلی کا ذریعہ نہیں ہوتی“۔
درج بالا بحث سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ بے شک شاعری سے ہم سماج میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے، کیونکہ سماجی تبدیلیوں کے لازمی عوامل میں سب سے اہم صنعتی و معاشی ترقّی اور ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ مگر شاعری کی اہمیت سے انکار ہرگز نہیں کیا جاسکتا، شاعری سماجی مسائل کو اجاگر کرنے کا اہم اور موثّر ترین ذریعہ ہے۔
ہم خود تو شاعر نہیں ، مگر ہمارے دوستوں کے وسیع حلقے میں شاعروں کی کوئی کمی نہیں ہے، ہم چاہیں گے کہ ہمارے شاعر ، خواتین و حضرات دوست ، ہمیں اس موضوع پر اپنی آراء اور تبصروں سے ضرور نوازیں، ہم خود سماجی علوم کے طالبعلم ہیں۔ ہماری نظر میں یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے اور اس پر مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔ دوستوں کی توجّہ کے طالب ہیں۔
♠