خالد محمود
ابھی تک کوئٹہ پولیس اکیڈمی کے مقتول کیڈٹس کے لواحقین کے سوالوں کا جواب نہیں دیا گیا اور نہ ہی ان کے ناحق خون بہانے کا بدلہ لیا گیا ہے۔
چوبیس24 اکتوبر کوان بے گناہ جوانوں او ر 9 اگست کے خود کش حملے میں شہید ہونے والے وکیلوں کے لہو کی آواز،اسلام آباد اور صوابی موٹر وے پر رچائے گئے میلے کے’’ دروبست اور ڈراپ سین‘‘ کے شور میں گم ہو کے رہ گئی ہے۔
ظاہر ہے پنجابی ہئیت مقتدرہ کے ان متحارب ترجمانوں کو ملک کے طول و عرض میں پھیلی دہشت گردی اور غربت جیسے عفریت اس قدر نہیں جھنجھوڑتے جس قدر سیاست کے نئے افق اور مچانوں پر پوری آن بان اور طمطراق سے طلوع ہونے میں ناکامی کے خدشات ہلکان کئے رکھتے ہیں۔
قومی خزانے اور ملکی وسائل کی لوٹ مار میں حصّہ ’’ بَل بوتے پر بقدر جثّہ‘‘ جاری اور ساری ہے۔اس لوٹ مار کو واپس لانے میں بھی لوٹ مار کا بازار گرم ہی رہا ہے۔
ملک کے طول و عرض میں بسنے والے مزدور،کسان اور چرواہے اور غربت کی چکّی میں پسنے والے’’ آدی واسی‘‘ ان حقوق یافتہ برہمنوں کا نہ پہلے کچھ بگاڑ پائے ہیں اور آئندہ ان کی طرف سے کوئی فوری خطرہ ہے۔
ا یک اور خبر گردش میں ہے کہ افغان طالبان کے ان راہنماؤں کو نہایت سخت وارننگ دی گئی ہے جنہوں نے پاکستان کے بغیر ہی قطر شریف میں افغان حکومت سے مذاکرات کئے ہیں۔
انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر پاکستان کے بغیر ہی انہوں نے اکیلے مذاکرات کرنے ہیں تو وہ اپنے بیوی بچوں سمیت ’’پاک سر زمین‘‘ سے نکل لیں۔یقیناً عملیت پسندی کا یہی تقاضا ہے۔عام شہری اور کئی دانشور کب سے متبادل بیانئیے اور ان عناصر کو ملک سے نکال باہر کرنے کی دہائی دے رہے ہیں۔لیکن ہنوز دلّی دور است۔
روزنامہ جنگ کی ایک خبر کے مطابق کالعدم تنظیموں کے انتہا پسند کارکنان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے انہیں رینجر اور پولیس میں بھرتی کرنے کی تجاویز زیرغور ہیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک مدّت سے ان انتہاپسند دستوں کے دماغوں کی جو فرقہ پرستی کے صابن سے مَل مَل کر دھلائی کی گئی ہے وہ کیونکر انہیں پڑھائی گئی ’’پٹیوں اور پوتھیوں‘‘ کو بھلا پائیں گے جب کہ وہ اپنے علاوہ کسی اور کو نہ مسلمان سمجھتے ہیں اور نہ انسان!۔
اس وقت پڑھے لکھے بے روزگار خواتین و مرد کا جم غفیر ہے جنہیں حالات اور غربت نے دیوار سے لگا رکھا ہے۔ان تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی بڑھتی ہوئی تنہائی اور مایوسی سے معاشرے میں گھمبیر مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔
یہ گھمبیر مسائل، مردم شماری نہ کروانے پر بھی حکمرانوں اور ہئیت مقتدرہ کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔خداراسب سے پہلے ان’’ تعلیم یافتہ بے روزگاروں ‘‘کو تو قومی دھارے میں لے آئیں۔یار لوگوں کا توابھی تک یہ یقین محکم نہیں ٹوٹا کہ ’’دہشت گرد اور انتہا پسند‘‘کسی نہ کسی بہروپ میں پہلے ہی قومی دھارے میں دندناتے پھرتے ہیں۔
عوام کا حال وہی ہے جس کی میر تقی میرؔ دہائی دیتے رہے ۔پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں!۔
♦