سجاد ظہیر سولنگی
پاکستانی سماج میں ترقی پسند فکر کی بنیاد کتنی ڈالی جا سکی ، یہ سوال ایک لمبی بحث پر چھوڑی جا سکتی ہے۔مگر اس سماج کو روشن خیال بنانے کے لیے سماجی نظریات خاص طور پر جدید اشتراکی فکر کے لیے جدوجہدکی وہ روایات کہ جس کی بنیاد میں بہت سے اہلِ قلم و دانشوروں کے نام آجاتے ہیں۔تاریخ میں بہت سے سیاسی کارکنان اس استحصالی نظام کے خلاف لکھتے رہے۔جتنا ان سے ہو سکا وہ اس فرسودہ نظام کی جڑ کو اپنے قلمی اور عملی جدجہد سے اکھاڑتے رہے۔
ہمارے ملک میں جن لوگوں نے محنت کش سیاست کی بنیاد رکھی اس میں سے سب سے بڑا، اعلیٰ اور علمی نام سبطِ حسن کا ہے۔ سبطِ حسن جس کے نام کو تاریخ کے سلیبس میں پڑھانا جرم سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان کہ جس میں ابھی جو بچی ہوئی کچھ نظریاتی سیاست موجود ہے جن کے فکر میں مزدور ہی محنت کا ان داتا مانا جاتا ہے۔ اس ملک میں سبط حسن ایسی سیاسی فکر کے بانی ہیں۔
سال 2016 ء سبط حسن کے صد سالہ جشن کی تقریبات کا سال ہے۔ جس تقریبات کی شروعات پچھلے دنوں جشن سبط حسن کے نام شروع ہو چکی ہیں۔کراچی میں منائی جانے والے جشن میں سبط حسن صد ی کمیٹی اس تقریب کے سلسلے سے بتایا کہ یہ تقریبات آنے والے سال میں بھی تمام ملک میں منائی جائیں گی۔ملک کے مختلف دانشورں نے اس تقریب میں سبط حسن کے فکری اساس کو خراج تحسین پیش کیا۔
ہم سبط حسن کو وہ اعزاز نہیں دے سکے جو ان کا حق تھا۔ لیکن وہ اس کے باجودان کی کتابیں اپنی فکری اساس سے آنے والے نسلوں کی نشوو نما کرتی آرہی ہیں۔ تاریخ کے اس جدید سماجی علوم اور میڈیا نے حقیقت کو حقائق کے سامنے لا کھڑا کردیا ہے۔ جہاں تاریخ ایک نئی صبح کی شروعات کررہی ہے۔ سبط حسن کی تصانیف جن کی اشاعت میں اضافہ اس بات کی دلیل ہے ۔ سبط حسن اب تاریخ کاایک ایسا سچ بن چکا ہے جس کو نہ دبایا جا سکا ، نہ جھکایا جاسکا اور نہ ہی اس کوئی شکست دی جاسکی ہے۔وہ عوامی شاعر حبیب جالب کے ان الفاظ کی طرح سرخرو بن چکے ہیں۔
میرے ہاتھ میں قلم ہے، میرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکر امن عالم، تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہورہا ہوں تو غروب ہونے والا
سبط حسن کا جنم 31 جولائی رواں سال ہندوستان کے علاقے اعظم گڑھ ( اتر پردیش ) میں ہوا۔ اس کا تعلق اپنے علاقے کے زمیندار گھرانے سے تھا ۔ ابتدائی تعلیم مشن ہائی اسکول سے حاصل کی۔ آپ نے گریجوئیشن کی تعلیم مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے حاصل کی۔جہاں آپ کی دوستی علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز، خواجہ احمد عباس ، اختر الایمان اور اختر حسین رائے پوری کے ساتھ ہوئی۔ یہ تمام نام اپنے فن و فکر میں آگے چل کر تاریخ کے بہت بڑے دانشور بن کر ابھرے۔
یہ وہ دن تھے کہ اسی دور میں کچھ ترقی پسند لکھاری ادب کی مشعل لیکر سجاد ظہیر کی قیادت میں میں کوشاں تھے۔ سندھ میں اس قافلے کو ایک طرف کامریڈ حشوکیولرامانی ، شیخ ایاز، گوبند مالھی، اے جی اتم ، کامریڈ سوبھو گیان ، کیرت بابانی اور محمد امین کھوسو لیکر چل رہے تھے ، تو ہند میں دوسری طرف سجاد ظہیر، سبطِ حسن اور کیفی اعظمی سے لیکر دیگران وطن پرست اشتراقیت پسند شاعر ، ادیب اور دانشور بھی رواں دواں تھے۔ یہ برِصغیر کی سیاست کے مختلف رخ تھے ، دیکھا جائے تو ہندوستان کی سیاست میں اس وقت ایک اور نقطہ نظر نظر آتا ہے۔وہ عام لوگوں کا سوال ، پسے ہوئے طبات کی بات تھی۔ جو اس وقت اس خطے کی سیاست کا یہ بہت بڑا سوال تھا۔
ہندوستاں میں محنت کش راج کو نظر میں رکھتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی بھی میدان میں تھی۔ جو پسے ہوئے طبقا ت کی بات کر رہی تھی۔یہ تنظیم اپنی طاقت سے عام لوگوں ، مزدوروں اور کسانوں میں اپنی گرفت مضبوط کر چکی تھی۔یہ جماعت انگریز استعماریت کو جڑ سے اکھاڑ ے بغیر آزادی کو ادھورا سمجھ رہی تھی۔ سبطِ حسن واپس آنے کے بعد کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ اس کارواں میں مزدور راج کے لیے جدجہد کرتے رہے۔سبطِ حسن نے اس قافلے میں علم ، سماجیات اور فلسفے کو اپنا موضوع بنانے کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا سوچااور اسی مقصد کے لیے آپ امریکا چلے گئے۔ جہاں سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ علم اور ادب کے لیے بھی خدمات سرانجام دیتے ۔ یہی وجہ تھی کہ وہا ں کی سرکار نے آپ کو جلاوطن کر دیا۔ پاکستان بننے کے بعد آپ نے پارٹی کی خواہش پر پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی۔
لیکن سبطِ حسن کے یہاں آنے سے پہلے ریاست کی طرف سے ان کے وارنٹ جاری ہوچکے تھے۔1951 ء میں جب پنڈی سازش، بناکر ملک سے مختلف ترقی پسند رہنماوں کی گرفتاریاں شروع ہوئی تو انہیں بھی گرفتار کیا گیا۔ کم سے کم 10 سال تک ان گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔ سبطِ حسن پاکستان کے مختلف جریدوں اور رسائل کے ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر رہے۔ جن میں پیام ، نیا ادب اور نیشنل ہیرالڈ شامل ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ترقی پسند رہنما میاں افتخار الدین کی جانب سے لیل و نہار میگزین شروع کیا گیا۔ سبطِ حسن کو اس رسالے کا ایڈیٹر بنایا گیا۔
سبطِ حسن کے قلم سے تخلیق ہونے والا ادب وقت کے حاکموں کو پسند نہیں تھا۔اور اس وقت کے صدر ایوب نے آمرانہ اقدام کرتے ہوئے زبردستی نیشنلائز پالیسی کے تحت “لیل و نہار” کوحکومتی کنٹرول میں لے لیا۔سبطِ حسن کوبھی گرفتار کیا گیا۔لیکن جوابی پٹیشن کے نتیجے میں انہیں ہائی کورٹ کی جانب سے رہا کیا گیا۔ وہ مختلف اخبارات میں کام کرتے رہے۔ انہیں لاہور بہت پسند تھا لیکن معاشی مسائل نے انہیں کراچی آنے پر مجبور کر دیا۔ یہاں ان کے پرانے دوست روشن بھیم جی نے جب بیمہ کمپنی کی شروعات کی تو سبطِ صاحب اس کے نشرواشاعت کے سربراہ بنے۔
سبط حسن کی تمام تصانیف کراچی سے ہی شائع ہوئی ۔ آگے چل کر جب آپ کے دوست ممتاز نورانی نے ترقی پسند پبلیکیشن ” مکتبہ دانیال ” کی بنیاد رکھی تو آپ کی کتابیں چھپنا شروع ہوئی۔ سبطِ حسن کی تصانیف اتنی بڑی تعداد میں فروخت ہوئیں کہ ” مکتبہ دانیال” عالمی سطح پر مقبول ہوگیا ۔اس کے پیچھے بڑا ہاتھ سبطِ حسن کا علمی کام تھا۔
آپ نے اپنی علمی کام کو بنیاد بناکر ، علمی میدان میں مختلف تاریخی موضوعات پر جدید نقطہ و نظر سے وہ شاہکار مضامین تخلیق کیئے جو کہ تایخ کا حصہ بن گئے۔آپ کی علمی خدمات کا اعتراف مخالفین بھی آج کر رہے ہیں۔ سبط صاحب نے ادب ،فلسفے، تاریخ ، سماجیات ، صحافت ، مارکسزم اور اور تنقید کو اپنا موضوع بنایا۔ان کی تحریروں نے اس سماج پر وہ اثرات مرتب کیے۔ ہمارے سماج میں سیکڑوں تحریریں اور کتاب لکھنے کے باوجود مصنف اپنا تعارف خود کرواتا ہے ، لیکن سبط حسن کا تعارف ، ہماری تاریخ خود ہے اور ان کا اپنا علمی کام ہے۔ان کے کتابوں کے موضوعات ہیں۔ ان کی زندگی کی تمام جفاکش ہے۔
ان کی جانب سے لکھی ہوئی سینکڑوں کتابیں آپ کا بہت بڑا تعارف ہیں ، جس کے آگے ایک صدی بھی چھوٹی پڑ جاتی ہے۔ سبطِ حسن کی تصانیف کہ جن میں موسی سے مارکس تک ، شہرِ نگاراں، ماضی کے مزار ، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا ء، انقلاب ایران ، نویدِ فکر ، افکارِ تازہ، ادب اور روشن خیالی ، سخن در سخن ، بھگت سنگھ اور اس کے ساتھ مارکس اور مشرق بھی شامل ہیں۔ جبکہ انگریزی میں ایک عدد کتاب بیٹل آف آئیڈیاز بھی ان کی علمی خدمات میں شامل ہے ۔آپ نے1975 ء میں کراچی سے ” پاکستانی ادب ” کے نام سے ایک ترقی پسند رسالے کی شروعات بھی کی جس کو ادبی حلقے میں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔
ملک میں ترقی پسند فکر سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں، صحافیوں ،ادیبوں اور دانشوروں کے نظریات پابِ زنجیر بنائے جانے لگے تو ایسے ماحول میں سبطِ حسن نے پاکستانی ادب کا اِجرا کرکے ترقی پسند فکر میں جان ڈال دی۔ اس رسالے کے تمام پرچے ادبی ،تاریخی اور تحقیقی مواد کے حوالے سے ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔
سال 1986 ء کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی سلور جوبلی(نصف دی) منائی گئی تو سبطِ حسن نے اس میں سرگرم کردار ادا کیا۔ 20 اپریل 1986 ء کو ہندوستان کے شہر دہلی میں انجمن ترقی پسندمصنفین کی گولڈن جوبلی تقریب منعقد کی گئی، جس میں سبطِ حسن نے شرکت کی۔دورانِ تقریب آپ کی وفات ہوئی۔اس تقریب میں دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے عالمی ترقی پسند ادیبوں اور دانشوروں نے سبطِ حسن کی خدمات پر انہیں تاریخی خراجِ تحسین پیش کیا۔آپ کے جسدِ خاکی کو ترقی پسند تحریک کے بانی رکن سجاد ظہیر ( بنے بھائی) کے سب سے چھوٹی بیٹی نور سجاد ظہیر کراچی (پاکستان) لیکر آئی۔انہیں کراچی کے سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
سبطِ حسن کو پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ کا گہرا مطالعہ تھا۔سبطِ حسن ان ترقی پسند دانشورو میں سے تھے جو کہ مختلف سماجوں کے تضاد کو سمجھنے کے بعد،ان کا جدلیات کی بنیاد پر تنقیدی جائزہ پیش کرتے تھے۔ سبطِ حسن کی تحریریں ایک نئی نثر کی علامت بن کرذہنی نشوونما کرتی آرہی ہیں۔آج ملک میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی سے مقابلے کی علمی بنیادوں پر ضرورت ہے، جس میں فکرِ سبط حسن اور ان کے نظریات ایک تاریخی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ان کی جانب سے بہت سی ایسی تحریریں موجودہیں جوکہ پاکستان بننے سے پہلے قومی جنگ میں شائع ہوئی ہیں، جن کو بھی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ترقی پسند فکر کے خلاف ہونے والے ریاستی اقدام کے باجود یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شعور کو کوئی بھی قیدی نہیں کر سکتا۔ شعور رک سکتا ہے لیکن دب نہیں سکتا۔ کسی نہ کسی سِمت آوازِ حق کی صورت سبطِ حسن کے روپ میں گونجنی ہے۔
سبطِ حسن ہمیشہ محنت کشوں کے پرچم اور ان کے فلسفے میں حیات رہیں گے۔ آج صد سالہ جشن میں ہم سب انہیںیاد کرتے ہوئے اسی امید کا اظہار کرتے ہیں کہ محنت پہ حاکمیت کا حق مظلوم کا ہوگا۔ اور یہی سبطِ حسن کے آدرش تھے جو مرتے دم تک قائم رہے۔
♦