پاکستان میں صوفیا کے مزاروں پردہشت گردانہ حملے پچھلے کئی سالوں سے جاری ہیں۔ان حملوں کا آغاز خیبر پختونخواہ میں صوفیاکرام کے مزاروں سےہوا تھا۔ سلفی اسلام کے پیروکار دنیا بھر میں صوفیا کے مزاروں کو نشانہ بنارہے ہیں۔طالبان نے تو کئی مزاروں کو اکھاڑ کر لاشیں نکال کر ان کی بے حرمتی میں ملوث ہیں۔
چند سال پہلے معروف صوفی شاعر خوشحال خان خٹک کے مزار کو بھی دھماکے سے اڑایا گیا تھا۔کراچی میں عبداللہ شاہ غازی ، لاہور میں داتا دربار، اسلام آباد میں بری امام کا مزار بھی دہشت گردی سے نہ بچ سکے۔ مزاروں کے علاوہ یہ دہشت گرد امام بارگاہوں اور چرچ کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔
ہفتے کے روز پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں ایک خود کش بمبار نے صوفی بزرگ شاہ بلال نورانی کے مزار پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس دہشت گردانہ حملے میں خواتین اور بچوں سمیت پچاس افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ اُس وقت کیا گیا جب ملک بھر سے آئے ہوئے قریب چھ سو زائرین صوفی موسیقی کی ایک مذہبی رسم ’دھمال‘ ادا کرنے میں مصروف تھے۔
عسکریت پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ نے اِس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ یہاں یہ امر ناقابلِ فہم ہے کہ ایسے زائرین کی ہلاکتیں، جن کا تعلق بے حد پسماندہ پس منظر سے تھا، دہشت گردوں کے عزائم کی تکمیل میں کس طرح نفع بخش ثابت ہو سکتی ہیں۔
اِسی طرح پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے اُن دعووں پر بھی سوال اُٹھتے ہیں جن کے مطابق مختلف آپریشنز کے ذریعے ملک سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو ختم کر دیا گیا ہے۔
مزاروں پر اِس نوعیت کے حملے پاکستان میں کئی سالوں سے معمول بن چکے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی حکام سےاُن مقامات پر زیادہ چوکس رہنے کی توقع کی جاتی ہے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مذہبی رسومات انجام دینے آتے ہیں۔
دہشت گردی کی لعنت پاکستان کے لیے ناسور بنی ہوئی ہے اور جب تک فیصلہ کن اور پائیدار کوششیں نہیں کی جائیں گی، اُس وقت تک ملک میں عبادت گاہوں، اسکولوں اور ثقافتی مراکز کو محفوظ بنانے کا تصور بھی نا ممکن ہے۔ یہ عسکریت پسند مذہبی جنون رکھنے والے وہ افراد ہیں جو کسی طرح کے انسانی نظریے کے لیے کوئی رواداری نہیں رکھتے۔
جہادی گروپ داعش یا اسلامک اسٹیٹ نہ صرف ہندو اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے اور شیعہ مسلک کے افراد کے قتل میں ملوث رہا ہے بلکہ صوفیائے کرام کی پُر امن تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے والے سنی مسلک کے افراد بھی اس کا ہدف بنتے رہے ہیں۔ سنی اور شیعہ دونوں ہی مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے زائرین صوفی بزرگ شاہ نورانی کے مزار کی زیارت کرنے آتے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کا انحصار یقینی طور پر ملکی سکیورٹی فورسز کی کاوشوں اور منشاء پر ہے۔ تاہم سب سے اہم قدم یہاں مذہبی جُنونیت اور انتہا پسندی کو جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان صوفیائے کرام کی تعلیمات کے تحت جنوب ایشیائی اسلام کی اِس کے تمام رنگوں اور رسومات سمیت نمائندگی کرتا ہے۔
پاکستانی ریاست سے اپنے قیام کے ساتھ ہی ایک مخصوص مذہبی گروہ کی سرپرستی کرکے ریاست میں انتہا پسند رویوں کو فروغ دیا۔اور افغانستان کے نام نہاد جہاد نے اس کو مزید فروغ دیا۔ فوجی آمر ضیاالحق نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کی راہ کو فروغ دینے کے لیے اسلام میں بنیاد پرستی کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی۔
اگرچہ اس جہاد کو ختم ہوئے دودہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہےمگر جہادی بدستور ا س خطے میں مصروف رہے ۔ نائن الیون کے سعودی عرب کی پشت پناہی کی وجہ سےیہ جہادی دنیا بھر میں پھیل گئے ۔ بلکہ ایکسپورٹ کیے گئے۔انہوں نے سعودی عرب کا سلفی(وہابی) اسلام کو فروغ دیا جس کے نزدیک ان کے علاوہ تمام فرقے کافر ہیں۔لہذا ازروئے مذہب ان کا قتل عین جہاد ہے۔
اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ان شدت پسندوں نے سلفی اسلام کی سعودی ماہیت کی تشہیر کی اور ایسے افراد کو ہدف بنایا جو اِن بنیاد پرستوں کی نظر میں لا دین ہیں۔ پاکستان میں بزرگ شاہ بلال نورانی کے مزار سمیت صوفیائے کرام کے مزار نہ صرف غریب افراد کو خوراک اور سر چھپانے کے لیے جگہ فراہم کرتے ہیں بلکہ یہ مقامات صوفیانہ موسیقی اور رقص جیسی روحانی اور ثقافتی سرگرمیوں کا اہم ذریعہ بھی ہیں۔
اِن مقامات پر حملے ایک طرف تو غریب عوام کو بنیادی ضروریات سے محرومی میں اضافہ کرتے ہیں تو دوسری جانب اُنہیں اپنے مذہبی عقائد اور ثقافتی رسومات کی ادائیگی سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت بار بار کے دعووں کے باوجود ملک میں موجودشدت پسندوں کے ٹھکانوں اور نیٹ ورک کو جڑ سے ختم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
DW/News Desk
One Comment