سٹیج اداکار امان اللہ اکثر اپنے ڈراموں میں امیر اور غریب، پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگوں کا انتہائی اچھا موازنہ پیش کیا کرتا تھا۔ ایک ڈرامے میں امان اللہ نے ایک ایسا ہی موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ
امیر اور پڑھے لکھے لوگوں کے بچے بھی سلجھے ہوئے، تمیزدار ہوتے ہیں۔ والدین کے ساتھ شاپنگ پر جائیں تو بے جا ضد نہیں کرتے، دکاندار سے اپنی پسندیدہ چیز کی قیمت پوچھتے ہیں، زیادہ لگے تو واپس کرکے کوئی سستی چیز لے لیتے ہیں۔ چاھے والد اصرار بھی کرے۔
لیکن سمجھدار بچہ آگے سے یہی کہتا ہے کہ ڈیڈی، اگلے مہینے جب آپ کا بونس آئے گا، تب لے لوں گا۔
دوسری طرف غریبوں کے بچے، اول تو انہیں ان کا باپ کبھی شاپنگ کیلئے لے کر ہی نہیں جاتا، اگر کبھی خوش قسمتی سے لے بھی جائے تو راستے میں انہیں اگر سنڈا (بھینسا) نظر آجائے تو زمین پر لیٹ جاتے ہیں اور مچل مچل کر اپنے باپ سے کہتے ہیں کہ انہوں نے سنڈا لیناہے۔
کچھ ایسی ہی مثال مرد مومن سراج الحق کی بھی ہے۔ کل اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے موصوف نے فرمایا کہ اگر انہیں اقتدار ملا تو وہ تاج برطانیہ سے ٹیپو سلطان کا تخت واپس پاکستان لے کر آئیں گے۔
وہی غریبوں والی، ناسمجھوں والی، جاہلوں والی بات کردی لالے سراج نے۔
اپنے وژن کی ٹانگ توڑ دینے والے معصوم لیڈر، اگر تمہیں کبھی غلطی سے اقتدار مل گیا تو بجائے 5 سال برطانیہ سے ٹیپو سلطان کا تخت واپس لانے کی کوشش کرنے کے، عوام کو تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ اور ایک اچھا معاشرہ دینے کی کوشش کرنا ۔ ۔ ۔ ۔
ٹیپو سلطان کا تخت نہ ہوگیا، غریب کے بال کا سنڈا یا ھدوانہ (تربوز) ہوگیا جس کیلئے لالہ سراج زمین پر لیٹ کر برطانیہ سے اصرار کرے گا کہ اس نے بس تخت ہی لینا ہے۔۔
خالد محمود
One Comment