کسی بھی ملک میں عروج وزوال یاترقی و پسماندگی کے تعین کیلئے وہاں نافذ العمل معاشی نظام کاجائزہ لینا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اس بات پر عمومی ا تفاق رائے موجود ہے کہ معاشرہ دوستونوں پر کھڑا ہوتا ہے جس میں اولین حیثیت اس کے معاشی اساس( زیربناء) کو جبکہ ثانوی حیثیت بالائی عمارت( روبناء) کو حاصل ہوتی ہے ۔ بالائی ڈھانچے میں اخلاقیات ، سیاسیات ، نصابیات اور ادبیات وغیرہ شامل ہیں اور مذکورہ تمام شعبے معاشرے کی معاشی اساس کو تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ اس کے مفاد کو آگے بڑھانے کیلئے کام کرتے ہیں ۔
انسانی معاشرہ مختلف ا رتقائی مراحل اورتاریخی ادوار سے گزرتا ہوا آج عمومی طورپر سرمایہ دارانہ معاشرہ بن چکا ہے ۔ بورژوا معاشرہ میں سرمایہ کو بالا دستی حاصل ہوتی ہے جبکہ پرولتاریہ کی محنت زیر نگی ہوتی ہے ۔اسی طرح بورژوا زی کی اپنی اقدار ہوتی ہے اور پرولتاریہ کی اپنی ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی قدر منافع اور استحصال ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی اساس ذرائع پیدا وار اور تعلقات پیدوار کے جن اقدار کو فروغ دیتے ہیں وہ اکثریت پر اقلیت کی حکمرانی برقرار رکھنے میں مدد گار ہوتی ہے ۔
اس کے نتیجے میں دولت بٹورنے کی ہوس اور ذاتی ملکیت میں اضافہ کرنے کے جذبے کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ سے لالچ،نفا نفسی اور خود غرضی کو فروغ حاصل ہوتا ہے جو معاشرے میں اوپر سے نیچے تک تفریق اور تصادم کے رجحانات کی بنیادیں پڑجاتی ہیں ۔ چونکہ اعلیٰ انسانی اوصاف پر منافع اور مراعات کو ترجیح حاصل ہوتا ہے اس لیے بطور سماج یہاں ہر وقت جاری دوسروں پر سبقت لے جانے ، ایک دوسرے کی مخالفت اور دشمنی میں بدل جاتی ہیں ۔
ایسی صورتحال میں محبت واخوت کے جذبے و ولولے کمزور جبکہ نفرت و حقارت کے جذبے کو تقویت ملتی ہے ۔ انسان آپس میں جوڑنے کی بجائے ایک دوسرے کو اپنا حریف تصور کرتے ہیں۔ سہارا بننے کی بجائے متصادم طبقات ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ ودو کرتے ہیں۔غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے اکثریتی آبادی لمپنائزیشن کی جانب راغب ہوجاتی ہے۔ یہ صورتحال مجموعی طورپر معاشرے کے زوال وانحطاط کاباعث بنتی ہے ۔’’وہ معاشرے جوانتہا ء پسندی کاراستہ اختیار کرتے ہیں،پستی کاشکار ہوجاتے ہیں‘‘(1)
طبقات پر مبنی معاشی نظام کا بحران معاشی بد حالی ، سیاسی عدم استحکام اور سماجی عدم تحفظ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے ۔ زوال پذیر ی کے اثرات معاشرے کے ہر شعبے پر مرتب ہوتے ہیں اور
Survival of the fittest
کے اصول کے تحت چند افراد اور خاندان مراعات یافتہ اور مضبوط ہوجاتے ہیں جبکہ مجموعی طورپر معاشرہ اس سے الگ تھلگ رہ جاتا ہے ۔
نسل انسانی کے ارتقا ء کے تاریخی قوانین کے مطابق معاشرے کی ترقی وخوشحالی کی قوت متحرک سر مایہ نہیں بلکہ محنت ہے ۔ یہ ایک آفاق سچائی ہے کہ انسان کی بقاء اور ترقی اس کی مسلسل جدوجہد میں پوشیدہ ہے ۔’’محنت وجہ معاش کا وسیلہ نہیں ہے بلکہ زندگی کی اہم ضرورت ہے اور اس سے انسان کی بہتری ذہنی اورجسمانی صلاحیتیں ا جاگر ہوجاتے ہیں ‘‘(2) معاشرے کی اکثریت ہر دور میں اپنی زندگی بسر کرنے اور اپنے معیار زندگی بلند کیلئے محنت کا سہارا لیتی ہے لیکن سرمایہ دارانہ معاشرے میں محنت کاصلہ محنت کرنے والوں کی بجائے زردار اور زور دار سمیت چند مفت خور اور تیار خور چھینتے ہیں ۔ اپنی محنت سے پیدا ہونے والی اشیاء پر تصرف کے حق سے محروم رہ جانے والے مظلوم اور محکوم طبقات میں محرومی ، لاتعلقی اور پھر بیگانگی کارجحان فروغ پاتا ہے ۔
اشتراکی مفکر اعظم کارل مارکس نے بیگانگی کے عوامل انسانی ذہن اورمذہب کی بجائے مادی دنیا میں پیوست پائے ہیں اور ان کے نقطہ نظر کے مطابق بیگانگی کی حالت مختلف مراحل ومدارج میں سفر کرتی ہے ۔ پہلے مرحلے میں زیارکش (محنت کش) اپنے زیا ر ومحنت سے پیدا کرنے والی اشیاء سے علیحدگی کو محسوس کرتا ہے ۔ جبر واستحصال پر مبنی نظام میں محنت کرنے والوں کی مرضی شامل نہیں ہوتی تو ان سے جبری مشقت لی جاتی ہے ۔ اس لیے وہ کام کرنے میں بیزاری جبکہ کام نہ کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ کام سے بد ظن ہونے کا ایک بڑی وجہ ایک جیسی روٹین بھی ہے ۔بیگانگی کایہ احساس اس سے آگے محنت کشوں کوپیدواری عمل سے علیحدگی پر مائل کرتے ہیں ۔ بیگانگی یہاں رُک نہیں جاتی بلکہ اس سے آگے بڑھتی ہے اور ایک مزدور دوسرے مزدوروں سے اجنبیت اورغیریت محسوس کرتا ہے ۔ بالآخر بیگانگی کی حالت انسانی جسم اور ذہن سے آگے بڑھ کرمحنت کش کی روح کو بھی گرفت میں لیکر محنت کش خود اپنی ذات سے بیگانہ کردیتی ہے ۔ گویا بورژوا طبقہ جن کو پیدا کرتا ہے وہی اس کی قبرکھودنے والے ہیں اس سے بورژوا معدوم ہوجاتا ہے اورپرولتاریہ کی فتح ناگزیر ہے۔
“What the bourgeoisie therefore, produces, above all, is its own grave-diggers. Its fall and the victory of proletarait are equally inevitable”(3)
سرمایہ دارانہ معاشرہ جو محنت کشوں کی محنت پر پلتا پھولتا ہے ا نہیں اپنی محنت اور ان کی پیدا کردہ تمام مصنوعات یہاں تک خود اپنے آپ سے بیگانگی اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے ۔ زیر دست طبقے سے تعلق رکھنے والے معاشرے میں موجود معاشی ناآسودگی ، سیاسی انتشار اور سماجی عدم تحفظ کے باعث ایک مسلسل محرومی ، ذہنی کوفت اور کرب میں مبتلا رہتے ہیں ۔ اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے وہ دن رات سرگرداں رہتے ہیں ۔ اپنی بنیادی ضروریات خوراک ، پوشاک،رہائش، تعلیم اور علاج وغیرہ کے حصول کیلئے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے ،سیاسی ،ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں میں شرکت کرنے کیلئے ان کوفرصت کے لمحات بھی میسر نہیں ہوتے ۔ اس طرح ان کی جمالیاتی حس دب جاتی ہے ۔
جو لوگ کتاب کی قوت خرید نہیں رکھتے اُ ن سے تحقیق وتخلیق کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔۔۔ ؟ اسی لیے تو آج موجودہ معاشرے میں اہل علم وفن زندہ رہنے کیلئے اپنی محنت بھیجنے پر مجبور ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیز بکتی اورہرشخص کی قیمت لگ جاتی ہے۔ بیگانگی کاخاتمہ استحصال زدہ اور کینسر زدہ ظالم نظام کے خاتمے سے مشروط ہے جس کیلئے انسانوں سے انسانیت چھیننے والی قوتوں اور استحصالی عناصر کی نشاندہی کرنا اشد ضروری ہے ۔جب معاشرے کی اکثریت اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرے گی اور طبقاتی تصادم اور محاذ آرائی کی بجائے طبقاتی ہم آہنگی کے مرحلے میں قدم رکھ دے گی تو اس کی فکر وسیع اور معاشر ہ مجموعی طو رپر ظلم ، جبر اور معاشی غلامی سے پاک صحت مند معاشرہ بن جائے گا۔ انسان کو محض اپنی روز مرہ کی ضروریات کیلئے تمام صلاحیتیں اور محنت بروئے کار لانے کی مجبوری ختم ہوجائیگی اورفرصت کے اوقات کو اعلیٰ ترین مقاصد فطرت پر قابو پانے اور تسخیر کائنات کے امکانات روشن ہوجائینگے ۔
واضح رہے کہ بیگانگی کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ طبقاتی کشمکش کی پیداوار ہیں ۔بیگانگی سے بہ یک وقت مریض و معالج ، قاری و لکھاری اورآفیسر وماتحت ایک جیسے متاثر ہوتے ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیگانگی انفرادی نہیں بلکہ ایک سماجی مظہر ہے ۔لہذا بیگانگی سے انفرادی سطح پر عارضی چھٹکارا پانے سے اس کواجتماعی سطح پر کبھی ختم نہیں کیاجاسکتاکیونکہ اجتماعی مسئلے کیلئے مشترکہ کاوشوں کی اشد ضرورت ہے ۔اس استحصالی نظام میں محنت کشوں کی محنت ، پیداواریت ا ور ان کے ثمرات سے بالا دست طبقے کے استحصالی عناصر مزید طاقتور بن جاتے ہیں ۔
اس کامطلب یہ ہوا کہ محنت کشوں کی محنت اور تخلیق سے دوسروں کیلئے آسانی اور طاقت پیدا کرتی ہے مگر خود محنت کشوں کیلئے محرومی اورکمزوری لاتی ہے ۔ تقسیم کارکے استحصالی فارمولہ روبہ عمل لاکر وہ سرمایہ داروں کے مزید دست نگر بن جاتے ہیں جس سے محکوم طبقات میں باغیانہ جذبات ابھر آتے ہیں۔’’بغاوت جدید تعلقات پیدا وار کے خلا ف اور ملکیت کے ان رشتوں کے خلاف ہے جو بورژوا طبقے اوراس کے اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ اس سلسلے میں تجارتی بحرانوں کانام لینا کافی ہے جو کچھ وقفے کے بعد متواتر رونما ہورہے ہیں اورپورے بورژوا سماج کی زندگی کوہر بار پہلے سے بھی بڑے خطرے میں ڈال دیتے ہیں‘‘۔(4)۔
ہمارے معاشرے میں بیگانگی کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس سے دو چیزیں بہت نمایاں ہوچکی ہیں ۔ پہلی یہ کہ لوگوں کی اطاعت، جذباتیت اور عقیدت متزلزل ہوچکے ہیں اور ان میں اندھی تقلید نہ کرنے کے احساسات گہرے ہوتے جارہے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں وہ آئندہ اپنے پیش رووں کو اندھی تقلید کی بجائے سائنسی عمل کے تناظر میں پرکھنے کے بعد پیروی کریں گے جو ایک خوش آئند اقدام ہے ۔ دوسری یہ کہ بیگانگی بذات خود موجودہ سسٹم اور سٹیٹس کو سے نفرت ،بیزاری اور بدظنی کی واضح علامت ہے ۔ لہذا انقلابی نظریہ اور مبارزہ سے سرشار ہوکر عوام میں پائی جانے والی بیگانگی میں شعوری حرکت پیدا کرے تاکہ معاشی مساوات پر مبنی انقلاب برپا ہوسکے ۔اس طرح ’’ اجتماعی املاک کاتصور کوبشمول سائنٹفک طرز تحقیق کا سب سے نمایا ں رخ ورجحان کہا جاسکتا ہے۔ ‘‘(5)
آخر میں صرف اتنا کہ محنت کش طبقہ بیگانگی کے خاتمہ کیلئے اپنی چھینی ہوئی تمام اشیاء پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا ہوگاتاکہ ان کے اداس چہروں پر حقیقی مسکراہٹ لانے ، انفرادیت کی جگہ اجتماعیت، استحصال کی جگہ امداد باہمی ، مسابقت کی جگہ باہمی تعاون اورمشینی انسان کی بجائے تخلیقی انسان بننے کیلئے راہ ہموار ہوسکے ۔ واضح رہے کہ یہ زبانی پند ونصیحت سے ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے کارل مارکس نے دنیا کے محنت کشوں غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کیلئے متحد ہو نے کا آفاقی نعرہ سربلند کیا ۔
اٹھ کے دردمندوں کے
صبح وشام بدلوبھی
جس میں تم نہیں شامل
وہ نظام بدلو بھی
حوالاجات:۔
۔1۔ ڈاکٹر مبارک علی، تاریخ کی واپسی، ناشر تاریخ پبلی کیشنز، لاہور، 2014،ص133
۔2۔علی عباس جلالپوری، تاریخ کا نیا موڑ،ناشر تخلیقات لاہور ،2013، ص144
۔3۔ کارل مارکس /فریڈرک اینگلز، مینی فیسٹو آف کمیونسٹ پارٹی، بک ہوم لاہور، 2012ء ص46
۔4۔ کارل مارکس /فریڈرک اینگلز، مینی فیسٹوآف کمیونسٹ پارٹی، بک ہوم لاہور، 2012ء ص37
۔5۔ علی عباس جلالپوری، روح عصر،ناشر تخلیقات لاہور ،2013، ص208
2 Comments