سی پیک کے ذریعے بھارت سے تجارت

liaq

لیاقت علی

سی پیک منصوبہ کا بہت شور ہے ۔ کوئی بات ہو تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ سی پیک سے پاکستان کی قسمت بدل جائیگی ۔ اگر کوئی حکومت سے یہ کہےکہ تعلیم کے لئے بجٹ زیادہ مختص کرنا چاہیے تو یکد م جواب آتا ہے کہ یہ مطالبہ کرنے والا سی پیک کا مخالف ہے او ر نہیں چاہتا کہ پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ پر گامز ن ہو۔

اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کی حکومت کا انسانی حقوق کے حوالے سے ریکارڈ اچھا نہیں تو جواب آتا ہے کہ یہ سی پیک کے دشمنوں کا پراپیگنڈا ہے اور یہ ترقی ہمسایہ ملک بھارت کے ایما پر سی پیک کی مخالفت کررہے ہیں ۔ لیکن اب کیا کیا جائے کہ خود سینٹ کے ممبران نے بھی سی پیک پر سوالات اٹھا دیئے ہیں ۔

ڈیلی ڈان کی سترہ نومبر2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پلاننگ اینڈ دویلپمنٹ نے اپنے ایک اجلاس میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ سی پیک کی تعمیر سے چین صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کے دوسروں ممالک بالخصوص بھارت سے تجارتی تعلقات بڑھانے کے منصوبے بنارہا ہے۔ کمیٹی کے چیئر مین سینٹرطاہر حسین مشہدی کا کہنا ہے کہ سی پیک منصوبے کے تحت مونا باؤ اور امرتسر ریل اور زمینی رابطوں کے بدولت چین بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بنانے کے پروگرام بنا رہا ہے ۔

modi-jingping-759

چین سی پیک کے ذریعے صرف سنٹرل ایشیا ئی ریاستوں ، افغانستان اور یورپی ممالک ہی سے تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کا نہیں سوچ رہا بلکہ اس کے منصوبے میں بھارت بھی شامل ہے کیونکہ چین ان تجارتی تعلقات کے قیام سے اپنے آٹھ غیر ترقی یافتہ صوبوں کی معاشی ترقی کا خواہا ں ہے۔

سینٹر مشہدی کا کہنا تھا کہ بھارت کے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کا حجم پاکستان سے کہیں زیادہ ہے ۔چین نے گذشتہ سال بھارت کے ساتھ سو بلین ڈالرز کے تجارتی معاہدے کئے ہیں ۔’ پاکستان اور بھارت کے خراب تعلقات کے باوجود چین بھارت سے تجارتی تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے‘ ۔

سینٹر مشہدی کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک جو سرمایہ کاری کرتا ہے وہ اس سرمایہ کاری سے زیادہ سے زیادہ منافع بھی حا صل کرنا چاہتا ہے ۔ وہ ایسے ذرائع تلاش کرنے کی کو شش کرتا ہے جس سے اس کی سرمایہ کاری زیادہ منافع کا ذریعہ بن سکے۔ 

قائمہ کمیٹی کے ارکان نے ریلوے حکام سے جب یہ کہا کہ وہ سی پیک منصوبے کے مطابق ایم۔ایل ۔2اورایم۔ایل3کے لئے ریلوے پٹڑی بچھائیں کیونکہ افغانستان اور ایران کو سی پیک منصوبے سے ملانے کے پیش نظر یقیناًیہ چین کی ترجیحات میں پہلے نمبر پر ہوں گے تو ریلوے حکومت کا موقف تھا کہ وہ تو پہلے سے موجود ایم ایل۔1ریلوے ٹریک کو بہتر بنا رہے ہیں جو کراچی کو ملک کے بالائی علاقوں سے ملاتا ہے کیونکہ آبادی کی اکثریت انہی علاقوں میں رہتی ہے ۔

سینٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ان منصوبوں کو ترجیح دینا چاہیے جو پاکستان کے عوام کے مفاد میں ہیں جہاں تک چین کے مفادات کا تعلق ہے تو ان کی حیثیت ثانوی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ اگر سی پیک منصوبوں کے تحت خیبر پختون خواہ ، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں ، سندھ اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کی معاشی ترقی کے لئے کام نہیں ہونا تو ان علاقوں کے عوام کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں ۔

ریلوے حکام نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ سی پیک کے تمام منصوبے پاکستان اور چین کے حکام مشترکہ طور پر بناتے اور ان پر عمل در آمد کرتے ہیں وہ اکیلے اس ضمن کچھ نہیں کر سکتے ۔

سینٹر محمد عثمان خان کاکڑ کا کہنا تھا کہ ریلوے نے سی پیک منصوبے کے تحت کسی ایک پراجیکٹ پر کام نہیں کیا اور انگریز ریلوے کا جو نظام چھوڑ کر گئے تھے اس میں بہتری کی بجائے ابتری آئی ہے ۔ 

Comments are closed.