آصف جیلانی
یہ امریکا کی بد نصیبی ہے کہ۸ نومبر کے صدارتی انتخاب میں ، دو بڑے امیدواروں، ریپلیکن پارٹی کے ڈانلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی ہلری کلنٹن کے درمیان مقابلہ کے بارے میں امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد کی یہ رائے ہے کہ ، ان دونوں میں سے کوئی بھی صدر کے عہدہ پر متمکن ہونے کا اہل نہیں ہے۔
ایک طرف ساٹھ فی صد امریکی عوام ، ڈانلڈ ٹرمپ کی ’’جنونی‘‘ پالیسیوں سے خایف ہیں اور انہیں ہٹلرسے تشبیہ دیتے ہیں ۔ دوسری جانب ۵۷فی صد امریکی عوام ہلری کلنٹن کو عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیتے ہیں۔
ڈانلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کے نیویارک کے حملوں کے بعد عرب امریکیوں نے نیو جرسی میں جشن منایا تھا اور ان کے نزدیک دنیا میں دہشت گردی میں مسلمان پیش پیش ہیں اس لئے ، مسلمانوں کا امریکا میں داخلہ بند کر دیا جائے۔ ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ امریکا میں تمام مساجد کی ہمہ وقت نگرانی ہونی چاہئے۔ ریپبلیکن امیدوار اس پر زور دیتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے سلسلہ میں واٹر بورڈنگ، پانی میں ڈبو ڈبو کر ایذا رسانی کا طریقہ استعمال کرنا چاہئے۔
ڈانلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ بر سر اقتدار آنے کے بعد میکسیکو سے غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکنے کے لئے 13ارب ڈالر کی لاگت سے ،سرحد پر طویل فصیل تعمیر کریں گے اور امریکا میں اس وقت جو 11 ملین غیر قانونی تارکین وطن ہیں ان سب کو جبرا ملک بدر کردیں گے۔
امریکی عوام ،ڈانلڈ ٹرمپ کی اس رائے پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر صدام حسین اور معمر قذافی آج زندہ ہوتے تودنیا کے حالات بہتر ہوتے۔ ان کا کہنا ہے کہ بلا شبہ ، صدام حسین ، دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں کامیاب رہتے۔ ڈانلڈ ٹرمپ صاف صاف کہتے ہیں کہ امریکا میں شام کے جو پناہ گزیں ، آباد ہوئے ہیں وہ ان سب کونکال دیں گے۔
دوسری جانب ، امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد ، ڈیموکریٹک امیدوار ہلری کلنٹن کو عالمی امن کے لئے خطرناک قرار دیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں بھولے کہ ہلری کلنٹن نے عراق کی جنگ کی بھرپور حمایت کی تھی اورجب وہ صدر اوباما کی وزیر خارجہ تھیں تو لیبیا پر امریکا کے حملہ کی حمایت میں پیش پیش تھیں۔ یہی نہیں انہوں نے شام کی خانہ جنگی میں امریکاکی فعال فوجی مداخلت پر زور دیا تھا۔
امریکی عوام کو اس کا بھی بخوبی علم ہے کہ ہلری کلنٹن افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی برقرار رکھنے کی زبردست حامی تھیں اور مشرقی یورپ کی سرحدوں پر روس کے خلاف بڑے پیمانہ پر ناٹو کی فوجوں کی تعیناتی کے حق میں تھیں۔امریکی عوام اس حقیقت سے بھی بے خبر نہیں ہیں کہ ہلری کلنٹن نے اپنی وزارت خارجہ کے دور میں ، فلسطین کی مملکت کے قیام کی حمایت کے بارے میں صدر اوباما کی پالیسی کے باوجود ، اس سلسلہ میں سنجیدگی سے کوئی کوشش نہیں کی بلکہ اس کے مقابلہ میں غزہ کے خلاف اسرائیل کی ظالمانہ اقدامات کی ، در پردہ حمایت کی۔
حال میں وکی لیکس نے ہلری کلنٹن کی جن ای میلز کا افشا ء کیا ہے ، ان سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ جب وہ وزیر خارجہ تھیں تو، قطر نے ان کے شوہر بل کلنٹن کی فاونڈیشن کو ایک ملین ڈالر کا چندہ دیا تھا جس کو ہلری نے چھپائے رکھا اور وزار ت خارجہ کو اطلاع نہیں دی۔ ان ہی ای میلز سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ہلری کلنٹن نے داعش کو سعودی عرب اور قطر کی مالی امداد کے معاملہ کو امریکی عوام کو تاریکی میں رکھا۔ انہیں اس کا علم تھا کہ سعودی عرب اور قطر داعش کی خفیہ طور پر مالی مدد کر رہے ہیں، اور اس بات کو انہوں نے صیغہ راز میں رکھا۔
امریکی رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ بیشتر امریکی عوام ،2016کی صدارتی انتخابی مہم سے بے حد ناخوش رہے ہیں ، 70فی صد عوام مایوسی کا شکار ہیں اور55 فی صد ووٹرس اپنے آپ کو بے بس اور بے کس محسوس کرتے ہیں ، ان میں سے ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ وہ دو بڑی جماعتوں کے درمیان ، ہاتھی نما معرکہ میں کچل کر رہ گئے ہیں اور ان کی کوئی شنوائی ہیں ۔اس مایوسی اور عدم دلچسپی کی ایک وجہ مبصرین کے نزدیک یہ ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت پچھلے صدور کو ناکام اور امریکا کے لئے تباہ کن گرادنتے ہیں۔
ان کی ناکامی کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ سپر طاقت کے صدر کی ذمہ داریاں بہت ہیں لیکن اختیارات محدود ہیں۔ کسی قانون کی منظوری کے لئے صدر کو پانچ سو سیاست دانوں کی مدد اور حمایت حاصل کرنی پڑتی ہے اور اس سلسلہ میں سودے بازی سے کام لینا پڑتا ہے۔
سنہ1993 میں جب بل کلنٹن بر سر اقتدار آئے تھے تو امریکی عوام ان کو ترقی پسند تصور کرتے تھے اور ان سے بڑی توقعات تھیں لیکن بہت جلد عوام ان سے مایوس ہو گئے۔ ان کے دور میں جیل خانوں میں قیدیوں کی تعداد چھ لاکھ سے بڑھ کر بارہ لاکھ تک پہنچ گئی ، موت کی سزا کے جرائم میں ساٹھ کا اضافہ ، عراق میں تادیبی پابندیوں کی وجہ سے پانچ لاکھ بچوں کی ہلاکت اور اسرائیلو ں اور فلسطینوں کے درمیان کیمپ ڈیوڈ سربراہ کانفرنس کے انعقاد کے بعد مشرق وسطی میں امن کے قیام میں ناکامی ان کے دور سے عبارت رہی اور پھر لیونسکی جنسی اسکنڈل نے عوام کی مایوسی پر مہر ثبت کر دی۔
صدر بش کو افغانستان اور عراق کی تباہ کن جنگوں کی وجہ سے عوام اور ان کی آیندہ نسلیں شرم سار رہیں گی۔ ان ہی کے دور میں دنیا سنگین عالمی بحران سے دوچار ہوئی جس کے نتائج اب تک محسوس کئے جارہے ہیں۔
براک اوباما کا انتخاب ، اس لحاظ سے تاریخی مانا گیا تھا کہ پہلی بار ایک سیاہ فام مسند صدارت پر فائزہوا تھا لیکن ان کی ناکامی بھی تاریخی قرار دی جاتی ہے۔ گوانتانامو بے کے عقوبت خانہ بند کرانے کا وعدہ پورا کرنے میں سراسر ناکام رہے۔
گو عراق سے امریکی فوجوں کو واپس بلایا لیکن افغانستان میں بڑی تعداد میں امریکی فوجیں جھونک دیں اور افغانستان کی جنگ کو اپنا لیا۔ لیبیا میں معمر قذافی کا تختہ الٹنے کے لئے تباہ کن فوجی مداخلت کی جس کی وجہ سے خلفشار کے سائے ابھی تک منڈلا رہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ انہوں نے
کیوبا سے تعلقات استوار کئے جو ساٹھ سال سے کشیدگی کا شکار تھے لیکن مشرق وسطی میں دو مملکتوں کی بنیاد پر امن کے قیام میں ناکام رہے۔
صدر اوباما کا دور ڈرون حملوں کی بناء پر تاریخ میں مہلک ترین دور کے طور پر یاد رہے گا۔ ان کے پیشرو صدر بش کے دور میں پچاس ڈرون حملے ہوئے تھے جن میں چار سو اکیانوے افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن صدر اوباما کے دور میں اب تک پانچ سو پانچ ڈرون حملے ہوئے ہیں جن میں تین ہزار چار سو اکتیس افراد ، پاکستان، افغانستان، یمن اور صومالیہ میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام کا اپنے صدر پر اور سیاست پر اعتماد متزلزل ہو گیا ہے اور 2016کی انتخابی مہم سے عوام کی بے دلی اس کی آئینہ دار ہے۔امریکی عوام کو ڈانلڈ ٹرمپ اور ہلری کلنٹن کے درمیان معرکہ میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیچھے ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے اور آگے گہری کھائی۔
♥