پاکستان تحریک انصاف ملک کی دیگر جماعتوں کی نسبت ایک نئی جماعت ہے ۔ اور بہت جلد ایک مقبول پارٹی بن گئی۔ پی ٹی آئی نے انتہائی کم وقت میں بیشمار کامیابیاں حاصل کی مگر عمران کے غیر لچکدار رویے اور سولو فلائٹ کی خواہش نے اس کو ناکامی سے دوچار کیا ۔ سیاسی شخصیات اور جماعتیں عوامی ملکیت ہوتی ہے اور کوئی پسند کرے یا نہیں عام لوگ اس پر رائے زنی کرتے ہیں ۔ سیاسی تجزیہ نگار اس کی اچھائیوں ، برائیوں ، کامیابیوں اور ناکامیوں پر تبصرے کرتے رہتے ہیں ۔ تنقید چاہے منفی ہو یا مثبت اس میں ہوشیار اور باشعور لوگوں کیلئے ہمیشہ اصلاح اور بہتری کا پہلو بھی ہوتا ہے۔ بشرطیکہ ان میں سننے اور برداشت کا جذبہ ہو۔
پی ٹی آئی کیلئے یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ اسلام آباد لاک ڈاؤن کے تناظر میں اپنے احتجاجی تحریکوں کا طائرانہ جائزہ لیں اور تجزیہ کریں کہ بحیثیت جماعت اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ کونسی سٹرٹیجی کیوں کامیاب یا ناکام رہی۔ زندہ اور متحرک جماعتوں کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ سیاسی عمل اور تجربوں سے سیکھتی ہیں اور اس کی روشنی میں پالیسیاں بناتی اور ضروری ایڈجسٹ منٹ کرتی رہتی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب میڈیا میں پیشہ وارانہ حسد اور مقابلے کی وجہ سے ایک صف بندی موجود ہے تو سیاسی صف بندی نے اس کو مزید شہہ دی اور شدید کیا۔ اب میڈیا اداروں ، اینکرز اور رپورٹرز کو ایک دوسرے کے ساتھ اپنے اپنے حسابات بیباک کرنے کا موقع سیاسی میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ زور آزمائی ، نیچا دکھانے اور حتی کہ منہ کالا کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس کا بالواسطہ یا بلا واسطہ فائدہ سیاسی جماعتوں کو بھی مل رہا ہے۔ دیگر حزب اقتدار اور حزب اختلاف راہنماوں سے بغض معاویہ میں بعض تجزیہ نگار عمران خان کی پبلک میں صرف تعریفیں کرتے رہتے ہیں اوران کی خامیوں اور غلطیوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں مگر نجی محفلوں میں بالکل مختلف رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
کارکن ٹشو پیپرز نہیں ہوتے کہ بوقت ضرورت اس کو استعمال کیا جائے بلکہ جاندار وجود ہوتے ہیں جو جذبات، احساسات اور عزت نفس بھی رکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں فیصلے جتنے کارکنوں اور حمایتیوں کی خواہشات ، ضروریات اور مطالبات کی مطابق ہوتے ہیں اتنے ہی فیصلوں کی ملکیت زیادہ ہوتی ہے اور احساس ملکیت سے کارکنوں میں قربانی کا جذبہ بڑھتا ہے۔ اب تحریک انصاف میں کچھ عرصے سے بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں مگر کارکنوں اور حتی کہ راہنماوں کی مشاورت کے بغیر ۔ پہلے سے کئے گئے فیصلوں کی توثیق کیلئے اجلاس بلانے کو مشاورت نہیں کہتے۔
موروثی سیاست صرف راہنمائی کا اپنے اولادوں یا قریبی رشتہ داروں کو منتقل کرنے یا ان تک محدود کرنے کو نہیں کہتے بلکہ فیصلہ سازی کے انداز کو بھی کہتے ہیں کہ آیا اپ سیاسی جماعت کو ایک خاندانی جائیداد کی طرح ڈیل کرتے ہو مثلا تن تنہا ہی تمام فیصلے کرتے ہو یا کسی اور کو بھی مشاورت کے قابل سمجھتے ہو۔ نواز شریف کو مغل بادشاہ کا خطاب دینے والوں کا آمرانہ رو یہ کسی طور مغل بادشاہوں سے کم نہیں۔ ایک راہنما ملک کو اور دوسرا پارٹی کو مغل بادشاہ کی طرح چلاتے ہیں۔ آمرانہ رویہ جس سطع پر بھی ہو ایک غیر جمہوری اور غیر سیاسی رویہ ہے۔
سیاست لچکدار روئیوں اور متبادل امکانات کا نام ہے ۔ سیاست میں آئیڈیل اور بلند مقاصد رکھنے پڑتے ہیں مگر اس تک پہنچنے کیلئے ٹھوس عملی کام اور مرحلہ وار قابل حصول مقاصد کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ اور ضروری نہیں کہ آپ کا ہر قدم آپ کو منزل تک پہنچائے بقول کامریڈ لینن بعض اوقات سیاست میں ایک قدم آگے بڑھنے کیلئے دو قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ سیاست میں ضد ، ہٹ دھرمی اور اپنی بات پر آڑ جانا جیسے قبائلی رویے چل تو سکتے ہیں مگر سیاست میں کامیابی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں ۔ یہ رویے انسان کو ہمیشہ دیوار سے لگا دیتے ہیں اور پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچا دیتے ہیں۔ اورہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں پی ٹی آئی کو کئی بار اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہونا پڑا۔
سیاسی جماعتوں کیلئے ایک اہم مسئلہ اپنے کارکنوں کی جماعتی وابستگی اور جوش و خروش کو مصروف رکھنا بھی ہوتا ہے ۔ پی ٹی آئی نے تو کارکنوں کو کافی مصروف رکھا مگر ان کی توانائی اور وسائل کو اتنا بے جا اور غیر ضروری طور پر صرف کیا گیا کہ نہ صرف وہ ضائع ہوئی بلکہ ان کو تھکا بھی دیا ۔ دوسرا کارکنوں کی توقعات کو ایک خاص سطح تک بڑھانا اور برقرار رکھنا ہوتا ہے بہت زیادہ توقعات بڑھانا بھی خطرے سے خالی نہیں۔ کیونکہ توقعات پوری نہ ہونے سے مایوسی پھیلتی ہے اور مایوسی انسان کو بے عمل اور لاتعلق بنا دیتی ہے۔
عمران خان کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ وہ کارکنوں کی حد سے زیادہ توقعات بڑھا دیتے ہیں اور وہ پوری نہ ہونے کے بعد وہ مایوس ہو جاتے ہیں۔ یہی عمل پہلے دھرنے کے دوران ہوا۔ کارکنوں کو بتایا گیا کہ وہ گھروں سے نکلے نہیں اور اسی وقت نواز حکومت ڈھیر ہوجائیگی پھر کہاگیا کہ اسلام آباد پہنچے نہیں تو نواز حکومت مستعفی ہوجائیگی جب وہ اسلام آباد پہنچے تو کہا گیا کہ کارکنوں کی شاھراہ دستور پر پہنچنے سے پہلے حکومت گرچکی ہوگی۔ پچھلے دھرنے سے لیکر آسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کے فیصلے تک خان صاحب کی من مانی اور عقل کُل کی ذہنیت نے اس کو دوسرے ساتھیوں کی رائے سننے اور اس کو درخور اعتنا سمجھنے کی توفیق نہیں دی۔ اور جماعتی فیصلوں کو بلڈوز کرتا رہا ہے۔ جس سے نہ صرف کارکنوں بلکہ راہنماوں میں جماعتی فیصلوں کے بارے میں احساس ملکیت کمزور ہوتا گیا۔ نتیجتاً جماعتی سرگرمیوں میں ان کی شرکت اور حصہ واجبی ہوتا گیا۔
تبدیلی نعرے سے زیادہ ایک پراسس کا نام ہے ۔ تبدیلیاں لانے کیلئے نیک خواہشات اور ارادوں سے زیادہ باشعور اور منظم قوت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہجوم سے سیاسی دباؤ تو بڑھایا جاسکتا ہے مگر بڑی اور دیرپا تبدیلیاں نہیں آسکتی ۔ پی ٹی آئی کو دیگر جماعتوں کی طرح منظم ہونا پڑے گا۔ جو توانائی اور وسائل دھرنوں کی سیاست پر صرف کیےگئے وہ اگر پارٹی کو منظم کرنے پر لگائے جاتے تو آج پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی غیر منظم جماعت کی نسبت سب سے منظم جماعت ہوتی ۔ کارکنوں میں مایوسی اور چندہ دینے والوں کی چندہ دینے کی سکت کمزور اور دلچسپی کم ہو رہی ہے ۔ بدقسمتی سے تبدیلی کی دعویدار جماعت نے جماعتی انتخابات میں کچھ نئے رحجانات متعارف کرانے یا تجربات کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ اندرونی الیکشن کمیشنوں اس کی رپورٹوں اور سفارشات کا جو حشر کیا گیا وہ پارٹی کیلئے نیک نامی کی بجائے بدنامی کا باعث بنی۔
برصغیر پاک و ھند کی سیاسی تاریخ میں بہت سے ایسی تحریکوں کی مثالیں موجود ہیں جہاں راہنما کارکنوں کے ساتھ ساتھ میدان میں رہے اور خود پر آسائش اور آرام دہ کمروں میں نہیں چپکے رہے اور کارکنوں کو گرمی ، سردی، آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا اکیلے مقابلے کیلئے نہیں چھوڑا۔ احتجاجی تحریکوں میں راہنماوں اور کارکنوں میں یہ دوری کا عمل زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں۔
ہر جماعت میں قماش قماش کے لوگ ہوتے ہیں ۔ ایک قلیل تعداد سرمایہ کاروں کی ہوتی ہے جو جماعتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ پارٹی راہنما کے ذاتی اخراجات بھی برداشت کرتے ہیں ۔ سرمایہ کاروں کا گروہ عموماً کسی نظریے یا سیاسی مقصد کیلئے نہیں بلکہ بنیادی طور پر اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ اور فائدے کیلئے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ جبکہ کثیر تعداد عام کارکنوں کی ہوتی ہے جو راہنما کے اشارے پر جان دینے کیلئے تیار ہوتے ہیں ۔
پی ٹی آئی کے پاس بےلوث ، مخلص اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کی بڑی کھیپ موجود تھی اور ہے۔ مگر ملک کی دیگر جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی میں بھی سرمایہ کار گروپ غالب آگیا ہے جو جماعتی فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ دیرینہ اور مخلص کارکن اور راہنما پس منظر میں چلے گئے اور ان کو نظرانداز کیا جا رہا ہے جس سے مخلص کارکن ایک ایک کرکے مایوس ہوکر جماعتی معاملات سے لا تعلق ہوتے جارہے ہیں۔
بیشک اس بار عمران خان نے اپنی سیاسی زندگی کا بڑا جوا کھیلا ہے۔ یہ تو وقت ثابت کرے گا کہ وہ کتنا کامیاب یا کتنا ناکام رہا۔ دھرنے کی نسبت اسلام آباد لاک ڈاؤن میں کارکنوں کی دلچسپی انتہائی کم رہی ۔ اور اب اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حمایتیوں میں مایوسی بہت بڑھ گئی ہے۔ موقعے بار بار نہیں ملتےاور تحریک انصاف نے کئی سنہری مواقع گنوا دیے۔ دیر آید درست آید کے مصداق اب بھی پی ٹی آئی کی پاس اصلاح احوال کیلئے وقت موجود ہے۔
♦