دیہہ یا گاؤں میں ایک ہی طرح کے لوگ بستے ہیں اس لئے اگر تمام لوگ مل کرایک حماقت کررہے ہوتے ہیں تو اس اجتماعی بے وقوفی کو کوئی محسوس نہیں کرتا ہے شہر میں ہر قوم، نسل اور رنگ کے لوگ ہوتے ہیں بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں طرح طرح کے لباس پہنتے ہیں کوئی عورت برقعے میں ہے تو کسی نے دوپٹہ بھی نہیں اوڑھ رکھا ہے جب دیہاتی یہ نظارے دیکھتا ہے تو اس کے ذہن سے آہستہ آہستہ اچھے بُرے کا دیہاتی معیار اترنے لگتا ہے اگروہ پرانے خیال کا آدمی ہے تو اس کے بچے ویسے نہیں رہتے ہیں کیونکہ ان کومعلوم ہوتاہے کہ کام کیا تومل گیا نہ کیا تو بھیک بھی نہیں ملے گی یہاں لوگوں کے پاس اس مسئلہ پر جھگڑنے کا وقت نہیں ہوتا ہے کہ زیارت پر جانا گناہ یا ثواب ہے ۔
شہر میں رشتوں کی نوعیت نسبتاً کاروباری ہوتی ہے یہاں تقدس کا وہ ماحول نہیں ہوتا ہے جوکہ دیہات میں پایا جاتا ہے دیہات میں میاں، پیراورملا کی بلاشبہ بڑی عزت ہوتی ہو مگر شہر میں آتا ہے اس کے پاس تعلیم کی ڈگری نہیں ہے اورکوئی ہنر بھی نہیں جانتا ہے تو وہ کسی بڑے کارخانے میں دیگرمحنت کشوں کے ساتھ کام میں ہی جت جاتا ہے وہ لوگ جن کو دیہات میں نیچ ذات کاقرار دے کر ان سے نفرت کی جاتی ہے یہاں ایک موچی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو وہ پڑھا لکھا ہے اور کارخانے میں افسر ہے تو میاں اور پیر ہی کیوں نہ ہو اگر وہ نائب قاصدہے تو اس کے احکامات بجا لانے پر مجبور ہے ۔
دیہات میں رشتوں کو جذباتی بناکر پیش کیا جاتا ہے لڑکے کی پیدائش اور شادی کے مواقع پر ہوائی فائرنگ اور کسی عزیز کے مرنے پر بلند آواز میں بین کرکے اس جذباتیت کو ہوا دی جاتی ہے بعض مکتبہ فکربار بار کے پرچار سے ان رشتوں کو فطری یا خونی کہہ کر قائم رکھنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں حالانکہ رشتے دیہات میں ہوں یا شہر میں معاشی رشتے ہی ہوتے ہیں بیٹے کی پیدائش پر نہایت خوشی کا اظہار کرنا اور بیٹی جنم لے تو منہ بسورنا اسی طر ح حلالی یا حرامی یا سکا اور سوتیلاکے الفاظ رشتوں کی اسی معاشی نوعیت کو ظاہر کرتے ہیں پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جہاں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے تو وہاں فطری، جذباتی اور خونی رشتوں میں بھی جان نہیں رہتی ہے دیہات کے بظاہر سادہ ماحول میں بھی ایک بھائی دیگر بھائیوں اور ایک خان دیگرخوانین کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے مختصر یہ کہ دیہات میں بھی رشتے معاشی ہی ہوتے ہیں ۔
شہر میں بھانت بھانت کے لوگ بستے ہیں الگ الگ زبانیں بولتے ہیں ان کے رہن سہن اور لباس میں بھی فرق اور رکھ رکھاؤ ہوتا ہے جبکہ دیہات میں سب لوگوں کا طرزرہائش یکساں ہوتا ہے لہٰذا جب وہ کسی شہری کو مختلف پوشاک میں دیکھتے ہیں تو اسے مغربی تہذیب کا نام دیتے ہیں لیکن شہر میں ہر قوم اور زبان کے لوگوں کو دیکھنے کے بعد اس قسم کے خیالات پیدا نہیں ہوتے ہیں اسی طرح دیہاتی جن اقدار پر جان دینے ا ور لینے کو بھی تیار ہوجاتا ہے شہر میں اسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے
اس کے علاو ہ دیہات میں کسی کواس کے پیشے کے باعث اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے ان پیشوں نے وہا ں پر ذاتوں کی صورت اختیار کی ہوتی ہے لیکن شہر میں ایک کارخانے کے اندر ایک مزدور، مزدور ہی ہوتا ہے اس کا علاقہ اور مذہب خواہ کوئی بھی ہو لیکن وہ مزدورہی ہوتاہے یہی چیز محنت کشوں کا شعور بڑھاتی ہے ان میں اتحاد پیدا کرتی ہے باقی سارے رشتے ماند پڑجاتے ہیں یہاں سے عالمی انسانیت کے نظریات بھی جنم لیتے ہیں ۔
گاؤں میں خان اور کسان کی کشمکش میں موخرالذکر خود کو اکیلا پاتا ہے لہٰذالڑائی سے گریزاں رہتا ہے بلکہ اسے وفاداری کے دکھاوے میں ہی عافیت نظر آتی ہے لیکن کارخانے میں وہ صف بند فوجیوں کی مانند ہوتا ہے ان کے باہمی مفادات ان کو ایک ہی لڑی میں پرودیتے ہیں میاں، موچی، معمار اور خاکروب ایک ہی نام سے پہچانے جاتے ہیں اس صورت حال سے طبقات اور طبقاتی بھائی بندی کے تصورات پیدا ہوتے ہیں ۔
مالکان اور افسران کے مابین بھی تضاد رہتا ہے لیکن ان کو اتنی مراعات دی جاتی ہیں کہ ان کے مفادا ت مالکان سے وابستہ ہوجاتے ہیں افسران مالکوں کی عیش بھری زندگی قریب سے دیکھتے ہیں لہٰذا ان کے موافق بننے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں مالکوں کے لئے زیادہ سے زیادہ شکار کرنے کی تگ ودو کرتے ہیں خام مال کی خریداری میں گھپلے کرتے ہیں گھٹیا مال پیدا کرکے ا سے ا علیٰ اور معیاری کہہ کر فروخت کرتے ہیں ۔
سرمایہ دار حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں تاکہ پولیس، انسداد رشوت ستانی اوراحتساب کے ادار ے ان افسران پر کڑی نظر رکھیں جومک مکا کرکے جان بچاتے رہتے ہیں لیکن کبھی کبھار اخبارات میں رشوت کے الزام میں پکڑے جانے کی خبر چھپ جاتی ہے اس طرح مالکان اور افسران کے درمیان بھی آنکھ مچولی لگی رہتی ہے ۔
کارخانوں میں بنی اشیاء کو دوسرے مقامات پر لے جانا بھی ہوتا ہے اس کے لئے منڈیاں تلاش کی جاتی ہیں اور پیداوار زیادہ ہونے کی صورت میں ہمسایہ اور دوردرازممالک میں بھی منڈیوں کے لئے تگ و دو کی جاتی ہے اس لئے کارخانہ دار یہ نہیں دیکھتا ہے کہ خریدنے والا کون ہے اس کا عقیدہ اور مذہب کیا ہے اس کے لئے وہ صرف ایک گاہک ہے ۔
دیہات کے ماحول میں عورت صرف بچے پیدا کرنے والی ایک مشین ہے یہی وجہ ہے کہ جب اس کی نارینہ اولاد نہیں ہوتی ہے تواس کاذمہ وار عورت کو ٹھہرایا جاتا ہے ایک خاندان دوسرے سے رشتہ استوار کرنا چاہتا ہے تو بہن یا بیٹی کا وہاں رشتہ کرادیا جاتا ہے لڑکی سے مرضی پوچھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی ہے آخری لمحہ میں تین مرتبہ سر ہلادینے کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے اسی طرح قصاص یا دیت سے بچنے کی خاطربیٹی یا بہن کو نکاح میں دے دیا جاتا ہے چونکہ تعلیم شعور دیتی ہے لہٰذاجاگیر دار خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کوبے غیرتی کا نام دیتے ہیں بہرحا ل،اب تعلیم یافتہ خواتین یہ حقیقت سمجھنے لگی ہیں کہ وہ اپنے حقوق کی جنگ اس نظام سے لڑے بنا حاصل نہیں کرسکتی ہیں ۔
سرمایہ دار اپنی پیداوار کو بڑھانے اور اسے کھپانے کے طریقوں پر غور کرتا رہتا ہے لہٰذا اسے قابل اور لائق جوانوں کی ضرورت ہوتی ہے جب ملک کے سرمایہ دار وں کا ہمسایہ ممالک کے سرمایہ داروں سے سابقہ ہوتا ہے یا و ہ سرمایہ داری کا فروغ چاہتے ہیں تو پھر ملک میں جمہوریت لاتے ہیں یا اس کے لئے کوشش کرتے ہیں کیونکہ جمہوریت روشن خیالی اور وسعت النظری پیدا کرتی ہے عوام کو تنقید کی آزادی ہوتی ہے تعلیم اور تحقیق پر اچھی خاصی رقم خرچ کی جاتی ہے آج کی دنیا میں جمہوریت کے بغیر ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
جن ممالک میں جاگیر دار سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں وہاں حالات کو جوں کا توں رکھنے کے لئے پرانی اقدار کی تعریفیں کی جاتی ہیں سکولوں میں طالب علموں کو بادشاہوں کے عدل و انصاف اور دریا دلی کی کہانیاں پڑھائی جاتی ہیں ان پڑھ عوام کے سامنے امیروں کے خیرات اور فیاضی کی داستانیں بیان کی جاتی ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام سیاست اور ملکی امور سے دور رہتے ہیں وہ کہانی والے انصاف پسند بادشاہوں کے انتظار میں زندگی گزارنے لگتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کے بعض پرت بھکاری بننے لگتے ہیں جمہوری اداروں کی درستگی کا تصور قریب نہیں آتا ہے اپنی بدحالی کو قسمت سمجھنے لگتے ہیں عقل اور فکر کی جگہ جہالت لینے لگتی ہے ۔
دیہات میں جاگیردار کا مقا بلہ براہ را ست دھقانوں سے ہوتا ہے لہٰذا وہ ان کو بے وقوف رکھنے کی سعی کرتا ہے جبکہ سرمایہ دار کا مقابلہ دیگر کارخانہ داروں سے بھی ہوتا ہے چنانچہ پیداوار میں اضافہ کرنے کی خاطراسے لائق اور ہنرمندانسانوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دار انہ ممالک میں تعلیمی اداروں کی بہتات ہوتی ہے ملک میں جمہوریت ہوتی ہے فنون لطیفہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے
ہماے معاشرے کی تمام تبدیلی کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس میں بنیادی رول انہی آلات پیداوار نے ا داکیا مشین کی ایجاد نے پیداوار کو بڑھایا اس کو کھپانے کی ضرورت پیدا ہوئی تو اس کے لئے منڈیاں تلاش کی جانے لگیں نتیجہ یہ ہوا کہ مذہبی تفاوت اور نفرت دم توڑنے لگے اس طرح رفتہ رفتہ تنگ نظری کے پرانے تصورا ت کا خاتمہ ہونے لگا۔
عام خیال یہی ہے کہ سوجھ بوجھ کتابوں کا مطالعہ کرنے سے آتی ہے اور جو لڑکا یا لڑ کی کتاب بینی میں مصروف رہتے ہیں وہی عقل مند ہوتے ہیں یہ درست ہے لیکن کچھ دیگر عوامل بھی ہماری سوچ میں اضافے کا سبب بنتے ہیں ماحول بھی کتاب کی طرح ہوتا ہے بلکہ ایک انسان بھی ایک کتاب ہوتی ہے اسی طرح شہروں میں انواع و اقسام کی مشینیں بھی ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہیں انسان ان کے ساتھ ایک رشتہ قائم کرلیتا ہے ایک آدمی ایک ہنر سیکھ لیتا ہے اور وہ اس کے معاش کا ذریعہ بن جاتا ہے مشین انسان کو بتاتی ہے کہ وہ ان کو چلانے کا طریقہ سیکھ کر اشیاء پیدا کرسکتا ہے اور ان کو زیادہ سے زیادہ بہتر کرکے زیادہ پیدا کرسکتا ہے اسے چلاتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ مشین چلتی ہے تو رزق پیدا ہوتا ہے یہ نہ پہلے قسمت میں لکھی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی پیر یا فقیر کی دعا کام آتی ہے ۔
دیہات میں آدمی ایک ہی کام سے کولہو کے بیل کی مانند بندھا رہتا ہے لیکن بڑے شہروں میں کارخانے ہوتے ہیں بعض مزدوروں کے ذہنوں میں آگے بڑھنے کا خیا ل آتا ہے وہ اپنے کام کے ساتھ دیگر کام بھی سیکھ لیتے ہیںیا اچھی اجرت کے لئے دوسرے اداروں کا رخ کرتے ہیں بھانت بھانت کے لوگوں سے ملتے ہیں چونکہ شہر میں روزگار کے ایک سے زیادہ مواقع ہوتے ہیں لہٰذا ان کو فٹ پاتھ پر بیٹھے نجومی سے اپنی قسمت کا حال معلوم کرنے کی حاجت نہیں ہوتی ہے ۔
شہر میں صنعتوں کے مال کو کھپانے کامسئلہ ہوتا ہے اس لئے نئی نئی منڈیاں تلاش کی جاتی ہیں پیداوار کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لئے سڑکوں کا جال بچھایا جاتا ہے مزدور بھی اس کے ساتھ ساتھ جاتا ہے نئے شہر دیکھتا ہے نئے لوگوں سے ملتا ہے ذہن کاروباری ہوجاتا ہے چنانچہ پھراُس کے پاس اتنا وقت نہیں بچتاہے کہ اس مسئلہ پر سر کھپائے کہ کیا غیرت اور کیا بے غیرتی ہے بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ کس کاروبار میں کتنا پیسہ ہے کاروباری یا شہری ذہنیت کی عکاسی اس ایک لطیفہ سے بھی ہوتی ہے کہتے ہیں کہ ایک ساہوکار مرگیا تو جب فرشتوں نے اس کی نیکیوں اورگناہوں کا حساب کیا تو معلوم ہواکہ دونوں برابر ہیں لہٰذا فرشتوں نے ایک لمحہ توقف کے بعد پوچھا:۔
’’آپ کیا کہتے ہو، کہاں جانا ہے جنت یا دوزخ؟‘‘
تاجر نے جواب دیا:’’جہاں دو پیسے کا فائدہ ہو ،،
کارخانوں کا مال دکانوں کے ذریعے فروخت ہوتا ہے چنانچہ جہاں صنعتیں ہوتی ہیں وہاں بڑے بڑے گودام اور دکانیں بھی وجود میں آجاتی ہیں شہر کی آبادی بڑھنے لگتی ہے تھوک بازار بننے لگتے ہیں جہاں سے چھوٹے شہروں اور دیہات کو اشیاء برآمد کی جاتی ہیں اس لین دین میں دکاندار کی کھوپڑی تیزی سے کام کرنے لگتی ہے وہ اپنا مال فروخت کرنے کے لئے نت نئے طریقوں پر سوچ بچار کرتا رہتا ہے زیادہ سے زیادہ خریدار بنانے کے لئے وہ اپنا مال کبھی کبھار اُدھار بھی دیتا ہے۔
شہر میں لوگوں کی ذہنیت کاروباری ہوجاتی ہے ہر شخص دوسرے کو اسی نقطہ نظر سے دیکھتا اور تعلقات استوار کرتا ہے یہاں گاؤں کی طر ح کو ئی کسی کا چاچا یا ماموں نہیں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب کو ئی دیہات سے شہر آتا ہے تو اسے ہمسایوں سے یہ گلہ رہتا ہے کہ یہاں تو کوئی کسی سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا ہے اسی طر ح بڑے شہر کا باسی دیہات یا گاؤں آتا ہے تو وہ آس پاس ہمسایوں کی جانب توجہ دینے کی بجائے علاقے کے اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں سے تعلقات بنانے کی سعی کرتا ہے چنانچہ آپ کے مشاہدہ میں آیا ہوگا کہ پنجاب ،کراچی یا کسی دوسرے بڑے شہر سے ایک خاندان پشاور آکر آباد ہوتاہے تو وہ ایسے لوگوں سے ملتا اور میل ملاپ رکھتا ہے جن سے اسے کوئی مالی فائدہ حاصل ہونے کی توقع ہو مقامی اخلاقی قدریں اس سلسلے میں اس کی مددگار ثابت ہوتی ہیں وہ اپنی کاروباری ذہنیت کی بدولت ان سے مستفید ہوتا رہتا ہے ۔
دیہاتی اور شہری ذہنیت کا اندازہ اس لطیفہ سے بھی کیا جاسکتا ہے ۔
ایک شہری اپنی کار میں بیٹھادیہہ سے گزررہا تھا اس نے ایک جگہ مرد، عورت اور چار بچوں کو دیکھا جو گھاس کاٹ کاٹ کر کھارہے تھے اس نے اپنی گاڑی کا رخ ان کی طرف کیا قریب پہنچنے پر ان سے کار میں بیٹھنے کے لئے اشارہ کیا وہ غریب دیہاتی اپنی جورو اور بچوں سمیت گاڑی میں بیٹھ گیا کار فراٹے بھرتے جارہی تھی غریب انسان اور اس کی بیوی سوچ رہے تھے کہ امیر شخص کو ان کی حالت پر رحم آگیا ہے اور اپنے بنگلے میں لے جارہا ہے وہاں لذیذ اور قیمتی چیزیں کھانے میں ملیں گی کار ایک بڑے مکان کے بڑے دروازے میں داخل ہوگئی تو مالک نے ان کو قد آور گھاس کے نزدیک اتار کر کہا:۔
’’لو، اُس سے بڑی اور اچھی گھاس کھاؤ ،،
غریب کی غربت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس کی سوچ اخلاقیات کے دائرے میں گھومتی رہتی ہے انڈیا کی ایک پرانی فلم
اناڑی
میں دولت مند ساہوکارسے کار سے اترتے ہوئے نوٹوں سے بھرا بٹوہ گرجاتا ہے مالک چلا جاتا ہے ایک نوجوان کی اس پر نظر پڑجاتی ہے وہ اسے ٹھا لیتا ہے اس میں کارڈ پر ایڈریس پڑھ کر مطلوبہ مقام پہنچ جاتا ہے اور بٹوے کو مالک کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہتا ہے یہ آپ سے گرگیا تھا مالک اس کی دیانت داری سے متاثر ہوکر کہتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر اس کے پاس آسکتا ہے کچھ عرصہ بعدلڑکا اس کے پاس روزگار کے لئے چلا جاتا ہے ایک موقع پر سیٹھ اس سے کوئی کام کرنے کو کہتا ہے تو جواب میں انکار کردیتا ہے اس پر صاحب جائیداد مالک کہتا ہے ۔
’’تجھ اور مجھ میں یہی فرق ہے کہ تم بٹوہ مالک کو دے دیتے ہو اور میں جیب میں ڈال لیتا ہوں ،،۔
ایک بڑا شہر بڑے سکول کے مافق ہوتا ہے اس میں پڑھنے والا چھوٹے گاؤں یا شہر کا رخ کرتا ہے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ پڑھا لکھا نہیں ہے یا اس کی تعلیم میٹرک یا اس سے قدرے زیادہ ہے یا پھر اس کے پاس کالج یا یونیورسٹی کی ڈگری ہے لیکن حالت یہ ہے کہ نہ یہ جانتا ہے کہ غالب کون تھا اور نہ سرسید کا پتہ ہے کیونکہ اس نے ان کے بارے میں کبھی کچھ پڑھا ہی نہیں تھا بس سرٹیفیکیٹ حاصل کرلیا اس کے باوجود اس کی چالاکی اور ہوشیاری کا یہ عالم ہے کہ گاؤں کے بڑے بڑے ڈگری یافتہ جوانوں کے کان کاٹتا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ وہ شہر میں بچپن سے کئی چیزیں سیکھنا شروع کردیتا ہے چھوٹے گاؤں میں اگر ایک یا دو گھرانوں میں کمپیوٹر ہے تو وہاں ہر ایک کے پاس ہے دفتروں میں بھی ہے قدم قدم پر دھوکے او ر فراڈ ہوتے ہیں بے وقوف بنانے کے نئے سے نئے حربوں پر سوچا جاتا ہے یہ سب حالات اس کے استاد ثابت ہوتے ہیں چونکہ ہر ایک دوسرے کوفریب دینے کے چکر میں ہوتا ہے لہٰذا اس کا ذہن بھی بیدار رہتا ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی کراچی یا لاہور سے آتا ہے اور پس ماندہ دیہہ میں آکر آباد ہوتا ہے تو اس کی کاروباری ذہنیت دیکھ کر لوگ کہتے ہیں بڑا چالاک اور کائیاں ہے اس وقت ہم اس پورے ماحول اور پس منظر کو بھول جاتے ہیں کہ جس شہر سے یہ آیا ہے اسکی آبادی کتنی ہے کتنے کارخانے ہیں کاروبار کس نوعیت کا ہے یہی نہیں سندھ اور پنجاب کے دیہات بھی کسی حد تک شہروں سے کاروبار میں بندھے ہوئے ہیں ۔
♦