آئینہ سیدہ
پاکستان میں جمہوری سوچ اور آمرانہ ذہنیت کے درمیان جنگ سترسال سے جاری ہے اور آمرانہ ذہنوں کی تعداد بدقسمتی سےکم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جارہی ہے وجہ بہت سادہ ہے….شہروں میں رہنے والا متوسط طبقہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں اکثر و بیشتر جمہوریت اور آزادی رائے کی جڑیں کاٹنے والی درانتی ثابت ہوتا ہے۔
پاکستان پرقابض فوجی اور نیم فوجی حکومتوں کے دوران اس متوسط طبقے کو پھلنے پھولنے کے مصنوعی طریقوں سے بڑھایا جاتا رہا ہے ایسے ادوار میں یہ نام نہاد تعلیم یافتہ شہری طبقہ دس گیارہ سال تک اپنے منہ پر “ٹیپ ” لگائےعوام کےحقوق کی پامالی کا نظارہ کرتا رہتا ہے کیوں کہ انکے مفاد پرستانہ مقاصد ایسی غاصبانہ حکومتوں میں ہی پورے ہوتے ہیں۔
ایوب خان کی بلدیاتی اداروں کی کاوشیں ہوں یا پرویز مشرف کی … دونوں ہی صورتوں میں یہ ادارے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے دہی علاقوں کوایک دھیلے کا فائدہ نہ پہنچا سکےجوکچھ بھی فائدہ ہوا وہ شہروں میں بسنے والے جمہور دشمن، دانشوری کی پینگیں لیتے مفاد پرستوں نے اٹھایا۔ آج بھی اس عوام دشمن ٹولے نے نہ صرف بااختیاراداروں کواپنا قبلہ بنایا ہوا ہے بلکہ عدلیہ اورعوام تک معلومات پہنچانےکے تمام رابطوں بشمول پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کے شعبوں پر بھی اپنے پنجے گاڑھے ہوئےہیں۔
اس سے بڑھ کر کیا افسوسناک امر ہوسکتا ہے کہ ایک بدقسمت ملک میں پڑھے لکھے کہلانے والے افراد نسل درنسل جھوٹ کو پروا ن چڑھائیں اور کوئی سچ بیان کرنے والا ہو تو نامعلوم افراد کے ہاتھوں مارا جائے یا بااختیار اداروں کے ہاتھوں غائب ہوجائے اور اگر کوئی خوش قسمت زندہ سلامت ملک بدرکر دیا جائے تو بیرون ملک سے اسکی میت ہی وطن تدفین کے لیے واپس آئے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر سچ جاتا کہاں ہے ؟؟؟
قارئین !! سچ دب جاتا ہے… … جھوٹ ، الزمات ، گالیوں بلکہ ایک عدد غیر پارلیمانی لفظ لکھنے کی اجازت چاہوں گی جو آج کل کے نیوز بلیٹنز پرشاندار طریقے سے چسپاں ہوتا ہے اور وہ ہے” بکواس “…… یعنی سچ بکواس تلے دب کر ختم کر دیا جاتا ہے
آجکل بھی بڑے دھڑلےسے کچھ سیاسی و دفاعی تجزیہ کار پہلےنیوز میڈیا پر پرائم ٹائم اور پھر سوشل میڈیا پر” فل ٹائم” برساتی مینڈک کی طرح ٹراتے پھر رہے ہیں. صبح اخباری کالم ، شام کواسکرین پر جلوہ افروز اور رات کو فیس بک اور ٹویٹرپر زورو شورسے“جمہوری حکومتوں” پرتبرےڈالتےاور فوجی حکومتوں کے “کارناموں ” کو سنہری حروف میں لکھتے دیکھائی دے رہے ہیں۔
مگراب تک کوئی ان ذہانت کے بیش بہا خزانوں پر قابض افراد سے یہ نہ پوچھ سکا کہ علامہ صاحب ! یہ تو بتائیں کہ کن ادوار میں اس قوم کے وہ رہنما ختم کر دیے گیے جو اس بکھرے ہجوم کا بیڑا پار لگا سکتے تھے، دنیا میں پاکستان کو اچھا مقام دلا سکتے تھے، مختلف لسانی گروہوں اور “مرکزیت ” کے گرد طواف کرتی اس مصنوعی ریاست کو آکسیجن فراہم کر سکتے تھے، عوام کی اکثریت کو تعلیم ، صحت اور روزگار جیسے بنیادی حقوق دے سکتے تھے۔
علامہ نما دانشوروں کو اگرہم بھول بھی جائیں تو یہ چوبیس گھنٹے ٹی وی سکرینوں اور اسمارٹ فونوں سے چپکی نئی نسل بھی کولہو کے بیلوں سے کم نہیں۔ افسوسناک حقیقت ہے کہ انکو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ جرنیل ایوب کا دورتھا جس میں پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کا خواب دیکھنےوالےبنگال کے حسین شہید سہروردی بیروت کے ہوٹل میں پراسرارموت کا شکار ہوئے۔اسٹوڈنٹ یونینز پر پابندی اور سیاسی سرگرمیوں کی بیخ کنی کر کےآ مر نے نظریاتی سیاست کرنے والوں کی نسل کشی کی۔
جرنیل ضیا کی کیا بات کریں ؟ انہوں نے تو خیر ہرمحاذ پر پاکستان کو تباہ کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا تھا ۔انکے “سستےاسلامی انصاف ” کے دور میں پاکستانیوں کو “شناختی کارڈ اورپاسپورٹ ” جیسی بنیادی سہولیات دینے والے پہلے منتخب عوامی رہنما کو اسکے احسانوں کے صلے میں جھوٹے مقدمے میں پھانسی کا پھندا دیا گیا۔
سرکارکی طرف سےمفت تعلیم اور صحت کی داغ بیل ڈالنےوالےذوالفقارعلی بھٹو نےبدترین عالمی کساد بازاری کے دور میں عوام کو مہنگائی جیسی لعنت سے محفوظ رکھنے کے لیے عرب ریاستوں میں پاکستانیوں کے روزگار کا بندوبست کیا ۔آج اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عدلیہ اورپرنٹ میڈیا کے ساتھ مل کر آرمی حکومت نے منتخب وزیراعظم کو مار ڈالا! اور یہی نہیں کہ جرنیلوں ، ججوں اور جرنلسٹوں نےعوام سے انکا لیڈر چھینا بلکہ بھٹو صاحب کی سزا پر عملدرآمد کے ساتھ ہی مفت تعلیم اور صحت کی عوامی سہولیات کو ختم کردیا گیا۔
آج جو لوگ ہر ضلع میں ہسپتال نہ ہونے پرمگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں اگرانکو عوامی سہولیات کے فقدان کا ذرا بھی احساس ہوتا دس دس سال مملکت کے سفید و سیاہ کے مالک بنے ان آ مروں سے ضرور مطالبہ کرتے جنہوں نےعوام کو یہ سہولیات دینے والے رہنما کو انہی کاموں کی وجہ سے اقتدار سے نہ صرف علیحد ہ کیا بلکہ اسی جرم کی پاداش میں دوسرے جہاں پہنچا دیا لیکن جہاں ان افراد کے آنسوں مگرمچھ کے ہیں وہاں انکی زبانیں گزبھرکی ہیں اور دل پتھرکے ہیں۔
جرنیل ضیا اور جرنیل مشرف کے بیس سالہ فوجی ادوار کےدمیانی وقفے میں کمزور جمہوری حکومتیں اٹھتی گرتی رہیں اور انکی “کمزوری ” کے لیے آپ کو یقیناً انتظامیہ ، عدلیہ اور میڈیا کا شکرگزار ہونا چاہیے اور ساتھ ساتھ عوام کو انکی بے صبری ، ناشکری اور سیاسی ناپختگی پرشاباش بھی دینی بنتی ہے۔ مگر ایک روشن پہلو ان ادوار کا یہی تھا کہ کسی قومی سطح کے سیاسی رہنما کو ریاست قتل نہ کروا سکی
اور پھر تشریف لائے…….. کمانڈو مشرف
جرنیل پرویزمشرف نے بھی وہی کام کیا جو انکے ” پیٹی بھائیوں ” نے ماضی میں کیا تھا یعنی عوام کے حقوق کے لیے اٹھتی آوازوں کا قتل !!! جرنیل صاحب نےریاست کی طاقت استعمال کرکے مذہبی اورلسانی انتہاپسندی کےزہریلےدرختوں کو کاٹنے والے اور پاکستانی ” فیڈریشن ” کے حمایتی قومی رہنماؤں کوموت کےگھاٹ اتروا دیا۔
مذہبی رجعت پسندی اور بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے قدرت نے ہمیں ایک موقع دیا تھا ،پاکستان کو بین الاقوامی فورمز پر مثبت نمایندگی فراہم کرنےوالا ایک وجود پھر طاقت کےنشےسےمغلوب ریاست کی ا نا پرستی اور مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
محترمہ بینظیربھٹو جتنے وقت اقتدارمیں رہیں دنیا گواہ ہے کہ انکےاقتدارکو ناکام بنانے کے لیے ریاست کے تینوں ستون میڈیا، عدلیہ، انتظامیہ نےعوام کی بھلائی میں لگایا گیا ہر وہ پودا کاٹ ڈالا جس کے سرسبزرہنےکی ہلکی سی بھی امید تھی۔بینظیربھٹو اور سرداراکبرخان بگٹی وفاق اورباقی تین صوبوں کے درمیان پل تھےاور ان پلوں کو گرا دیا گیا۔ بھارت نے نہ اسرائیل نے اور نہ امریکہ یا افغانستان نے…… بلکہ ان پلوں کواس ملک کےتماش بین عوام کا خون پیتے بااختیاراداروں نےانہی تین ستونوں کی ملی بھگت سے توڑ ڈالا، مسمار کر ڈالا ہم تماش بین بنے رہے… … تو کیا دور کھڑے اپنی ہی بربادی کا تماشہ دیکھنےوالوں کو کوئی سزا نہیں ملنی چاہیے ؟؟
آج غیرت کا نام لےکرکوئی بےغیرت کسی عورت کو قتل کرتا ہے یا مذہبی انتہاپسندی کا عفریت احمدی مسجد یا شیعہ امام بارگاہ میں پھٹ جائے بس آ نا” فانا ” سب کا سب ملبہ ان منتخب نمایندوں اور انکی لولی لنگڑی حکومتوں پر ڈالنا شروع ہو جاتے ہیں جواپنی کمزور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ان تمام امورپر بیوروکریسی کے ہاتھوں مجبور ہوتی ہیں۔
وباؤں میں مبتلا مریض ہوں یا دہشت گردی کے زخمی جب بھی ایمبولینسز اور ہسپتالوں کی کمی ہوتی ہے ہر منصف اور ہر اینکر اپنی لمبی زبان نکال کرجمہوریت اور جمہوری اداروں پر زہر ٹپکانے لگتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی کسی عدالتی حکم نامے میں یہ بات دیکھی کہ حکومت کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ عوام کے لیے صحت اور تعلیم کا بجٹ دفاع کے بجٹ سے زیادہ نہیں تو برابر ہی کر دے ؟
کیا آپ نے کسی میڈیا اینکر کو ہفتے میں پانچ نہیں تو تین شو ہی اس موضوع پرکرتے دیکھا کہ یہ جو ہر تیسرے مہینے میزائیلوں کے “کامیاب تجربے “کیے جاتے ہیں کونسی دہشت گردی کی واردات ہے جو ان میزائیلو ں سے آج تک روکی گئی ؟
میرے ان معصوما نہ سوالات پر مسکرائیں مت ! کیوں کہ یہ مسکرانے کا نہیں رونے کا مقام ہے
آپکے حقوق لینے والے قتل کر دیےگئے۔
آپکے لیے آواز اٹھانے والے فوجی ادوار میں مار ڈالے گئے۔
اپنے ہاتھوں لگائی گرہیں ، اپنے دانتوں سے کھولنے کے وقت ہم عوام ” مظلوم ” بننے کی بہترین اداکاری کرتے ہیں ۔
آزادی کا ڈھونگ رچاتا میڈیا ، انصاف کا مذاق اڑاتی عدالتیں اورتکبرسےبھری کینہ ورمخلوق جس کوآجکل “دانشور” کہا جاتا ہے آمرانہ ادوار میں یہ ادارے اورافراد زمینی حقائق سے بےپرواہ نظرآتے تھے مگرآجکل مظلوموں کے“سگے” بنتے ہیں۔
گٹر کے ڈھکن غائب ہوں تو گھنٹوں روتے ہیں مگرانسانوں کوغائب کرنےوالوں کے خلاف اٹھنے والی آواز کو قتل کردیاجائے تو اخباروں میں صفحے اورعدالتوں میں فیصلے لکھنےوالے منہ بند کیے بیٹھے رہتے ہیں۔
آج معمولی سی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے وا لا بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر ملک و قوم کو متحد رکھنے اور بین الاقوامی سیاست پرعبور رکھنے والے رہنماؤں کو اس طرح ریاست کے زیر نگرانی قتل کر دیا جائے گا تو کون عوام کے بنیادی حقوق کی جنگ لڑے گا ؟ کون ان پر ہونے والے مظالم پرآواز اٹھائےگا ؟ کون ملک پر بین الاقوامی دباؤ کے تدارک میں عالمی سطح پرکامیاب کوششیں کرے گا ؟
عوام کواپنےبنیادی حقوق حاصل کرنےہیں تواس کا واحد ذریعہ جمہوریت ہے اورجمہوریت کا پھل کھانا ہےتو تمام اداروں کو جمہور کےپودے کی آبیاری و نگرانی ہردم کرنی ہوگی۔ یہ ایک مسلسل جنگ ہے ایک جدوجہد ہے،ایک یقین ہے کہ جمہوریت کا مضبوط درخت ہی ہمیں گھنی چھاؤں اورمیٹھا پھل دے سکتا ہے اور ایسے میں اگر آپ تن آ ور درخت کاٹ دیتےہیں اورپنیری سےپھل چاہتےہیں تو آپ کی ذہانت کی تعریف کی جائے یا نوحہ پڑھا جائے؟؟
♥